تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     22-07-2024

اضطراب انگیز واقعات

ذاتی طور پر ہمیں اس ملک نے بہت کچھ دیا ہے‘ جتنا بھی شکر کریں‘ کم ہے۔ہمہ وقت گلے شکوے کرنا‘ اوپر سے لے کر نیچے تک‘ ہر طبقے کا سماجی رویہ بن چکا ہے۔ مگر ان کے پس منظر میں حکمرانوں کی بدعنوانیوں کو دیکھنا ہو گا۔ ایک شام لاہور میں ایک درمیانی درجے کے صنعتکار کے گھر مدعو تھا۔ ہر نوع کی آسائشوں سے بھرا ہواگھر‘ سجا ہوا دیوان‘ ہر قسم کی نعمتیں‘ مگر شکایتیں ہی شکایتیں۔کہنے لگے کہ دیکھیں اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے۔ہر جگہ رشوت دینا پڑتی ہے۔ اب کہیں دور دراز کے علاقوں میں فون کرکے بات کریں یا کہیں کسی سے ملاقات ہو تو سب حالات کا رونا روتے ہیں۔ ہم بھی اس صفحہ پربار بار سیاسی اور سماجی حالات‘ بدامنی‘ استحصال‘ انتہا پسندی‘ بدعنوانی اور ناقابلِ فہم سیاسی چالبازیوں کے بارے میں تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی کہے‘ اور ہمارے قارئین کہتے بھی ہیں‘ کہ ہم ملک میں مایوسی پھیلارہے ہیں تو ان سے اتنی گزارش ہے کہ مسائل اور چیلنجز کی نشاندہی کا مقصد ریاست اور سیاسی گھرانوں کو اصلاحات کرنے‘ بہتر کارکردگی دکھانے اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری کی طرف متوجہ کرانا ہوتا ہے۔ اس وقت سیاسی‘ سماجی اور معاشی حالات آپ کے سامنے ہیں۔ کسی سے بات کرکے دیکھ لیں‘ ایسا لگتا ہے کہ ساری قوم صرف بجلی کے بل بھرنے کی فکر میں ہے۔ گندم کے کاشتکاروں سے ذرا پوچھیں کہ آپ کے ساتھ حکومت پنجاب نے کیا ہاتھ کیا ہے‘ تووہ پھٹ پڑیں گے۔ زراعت پیشہ کاشتکاراور متوسط طبقے کے زمینداروں کی جو حالت ہے‘ وہ ناقابلِ بیان ہے۔ اگر وہ انتہا پسندوں‘ جن کے مطالبات دنیا کی کوئی طاقت پورے نہیں کرسکتی‘ کی طرح سڑکوں اور بڑے شہروں میں دھرنا دے سکتے تو کچھ کھری کھری سنا کر دل کا بوجھ تو ہلکا کرنے کی انہیں اجازت دیں۔عام دیہاڑی دار لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کے بے رونق چہرے‘ بدن کے چتھڑے اور نم دار آنکھیں معاشرے کے ایک بڑے طبقے کے دکھو ں کی زندہ تصویری نمائش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
ہماری آبادی کا تقریباًساٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ جن کی عمر اٹھارہ سے لے کر تیس سال کے درمیان ہے۔ کروڑوں نوجوان ہاتھوں میں سندیں لیے دربدر ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ میڈیکل گریجویٹ بیکار ہیں یا نجی ہسپتالوں میں بہت کم تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ صنعتیں ملک میں نہیں لگیں‘ بیرونی سرمایہ کاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہے‘ یا ہماری سرمائے کی بڑھتی ہوئی ضروریات سے بہت کم ہے۔ ایسے میں ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ کاش ہم کوئی منصوبہ بندی کرسکتے اور اتنی بڑی نوجوان آبادی کو جدید معاشیات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے انہیں مناسب ہنرمندیوں سے بہرہ مند کرسکتے۔ کسی بھی ملک میں یہ طبقہ اگر بیکار اور مایوس رہے تو خوفناک سماجی اور سیاسی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ہم نے لسانی اور فرقہ وارانہ انتہا پسند ی کو بڑھتے ہوئے دیکھا ہے‘ اور ہمیں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی نظر آتی ہے۔ آپ جتنا بھی فکری تربیت یا اعلیٰ تعلیم پر زور دیں‘ اگر نوجوانوں کو روزگار نہیں ملے گاتو ان کا ایک حصہ‘ بیشک وہ کم تعداد میں ہی کیوں نہ ہو‘ انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ جائے گا۔
ہم ماہرینِ سماجیات اور معاشیات کی رائے کو کبھی اہمیت دیتے تو اس باصلاحیت انسانی سرمایہ کو جدید اقتصادیات کو چلانے کے لیے ایک طاقتور انجن میں بدل سکتے تھے۔ اگر حکمرانوں کی سوچ مفت کے لیپ ٹاپ‘ موٹر سائیکل اور مفت کے آٹے تک محدود ہو تو ہم نالج اکانومی کیسے پیدا کرسکتے ہیں؟ اس میدان میں نوجوانوں کے لیے لامحدود امکانات اور مواقع ہیں۔ وفاقی حکومت کا یہ اچھا قدم ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس شعبے کی وزیر متحرک اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ شکر ہے کہ گھسے پٹے روایتی وزیروں کی فوج ظفر موج میں سے ایک توکام کا ہے۔ چند سالوں میں آئی ٹی کی برآمدات چند سو ملین ڈالر سے تین ارب ڈالر تک بڑھ چکی ہیں۔اپنے طور پر دیکھا ہے کہ نوجوان اپنی کمپنیاں بنا کر دیگر اہل افراد کو بھرتی کرکے اس کاروبار کو بڑھا رہے ہیں۔ وہ بھی حکومت کی نوکر شاہی اور استحصالی محکموں کی بے جاذاتی فرمائشوں اور سرخ فیتے کی رکاوٹوں سے تنگ نظر آتے ہیں۔
نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں اور فنی مہارت کے کالجوں اور سکولوں میں چھوٹی صنعتوں اور زراعت کے شعبے میں تجارت اور فصلوں کی پیداوار کی قدر بڑھا کر مارکیٹ میں لانے کی تربیت دینے کی ضرورت تو پہلے بھی تھی مگر آج کل کے ماحول میں انہیں مایوسی کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے کریش کورسز کرانے کی ضرورت ہے۔ اگر ماہرین موجود ہوں اور ان میں سے کچھ نوکریاں ڈھونڈنے کے بجائے خود ایسے کاروبار کریں کہ پھلوں اور سبزیوں کو خشک کریں‘ مربے اور چٹنیاں بنائیں اور موجودہ منڈیوں میں مصنوعات بھیجنے کے بجائے براہِ راست صارفین کو ویب سائٹس بنا کر بیچیں تو نوکریوں کو بھول جائیں گے۔ کچھ لوگوں کو میں ذاتی طور پر جانتا بھی ہوں اور اکثر عالمی میڈیا پر ایسے پروگرام دیکھنے کا شوق بھی ہے کہ زیرک اور جدت پسند نوجوان کیسے نت نئے کاروبار کر رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ ظلم یہ ہوا ہے کہ ریاستی ادارے‘ جیسے مختلف شعبوں کی نوکرشاہی ہے‘ ترقی کی راہ ہموار کرنے کے بجائے رکاوٹیں ڈالنے کے عادی بن چکے ہیں۔ وجہ صرف ذاتی حصہ نکالنا ہے جس سے نوجوان کاروباری مایوس ہوکر ملک چھوڑ دیتے ہیں اور دنیا کے کسی اور کونے میں بس کر اپنے خوابوں کی تعبیر کرتے ہیں۔
آپ خود سوچیں کہ عدم استحکام کی یہ کیفیت ہو کہ جیسے حکومت اپنے ہی گھر کو روزانہ جلانے کی کو شش کرے‘ تو جہ حزبِ اختلاف کی ایک جماعت کو ٹھکانے لگانے پر مرکوز ہوتو ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی کوئی تدبیر نہیں ہوسکتی۔ ضرورت تو اس بات کی ہے‘ اور ایک عرصہ سے رہی ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف ذاتی مفاد کے بجائے قومی اور عوامی مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھیں‘ مگر سب کچھ اس توقع کے خلاف ہی ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ہم بھی مجبور ہیں کہ ہر نئی حکومت‘ جس میں تاش کے وہی پتے دوبارہ پھینٹ دیے جاتے ہیں اور ایک نیا کھیل شروع ہوجاتا ہے‘ سے امیدیں باندھ لیتے ہیں۔یہ بعد میں پتا چلتا ہے کہ کھیل تو صرف چند کھلاڑیوں کے ہاتھ میں تھااور وہ ایک بار ہمارے ساتھ ہاتھ کرکے اگلی باری کا انتظار کرتے ہیں اور پھر باری ملتے ہی وہی پرانا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ اب تو حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں‘ اگراب بھی معاملہ فہمی‘ فراست اور سیاسی مذاکرات کا راستہ اختیار نہ کیا گیا تو موروثی سیاسی کھلاڑیوں کی بھی چھٹی ہوجائے گی۔ افراتفری اور اضطراب جب کسی ملک میں دیر تک اپنے خیمے گاڑ لیتے ہیں تو عجیب و غریب واقعات رونما ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ملک کے ہر حصے میں‘ بڑے شہروں اور دیہات میں ہونے والے واقعات کا کچھ جائزہ لیں تو خوف اور خدشات کے بادل اچانک ذہنی فضا پر چھا جاتے ہیں اور مایوسی کی دھند گہری ہونے لگتی ہے۔ ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ مقتدرہ‘معتوب پارٹی اور دو موروثی گھرانے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں ورنہ موجودہ تضادات اور تصادم مزید عجیب وغریب واقعات کو ہوا دے سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved