پاکستان میں اس وقت آئی پی پیز کا مسئلہ وبالِ جان بنا ہے جس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گزشتہ تین ماہ میں آئی پی پیز کو 450 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں حالانکہ آئی پی پیز میں سے نصف صرف دس فیصد کپیسٹی پر چل رہے ہیں۔ چار پاور پلانٹس ایسے ہیں جو بجلی پیدا ہی نہیں کر رہے لیکن عوام کے خون پسینے کی کمائی سے 10 ارب روپے ماہانہ وصول کر رہے ہیں۔ ایسے معاہدوں کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارا ملک معاشی طور پر کمزور تر ہو رہا ہے۔ اگر علاقائی ممالک کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ساتھ بلکہ ہمارے بعد آزادی پانے والے ممالک بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ آئیے ایک موازنہ کرتے ہیں۔
پاکستان میں مالی سال 2024-25ء کا سالانہ بجٹ پیش ہونے کے بعد سے عوام مضطرب اور بے چین ہیں۔ بھارت میں مالی سال 2024-25ء کا بجٹ 23 جولائی کو پیش کیا جائے گا۔ بجٹ پیش ہونے سے پہلے ہی یہ پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ یہ بجٹ پچھلے تمام بجٹوں کی نسبت کافی بہتر ہو گا‘ جس میں عوام کو تاریخی ریلیف دیا جائے گا۔ خصوصی طور پر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ گھر بنانے کیلئے قرضوں پر شرحِ سود میں کمی کی جا سکتی ہے۔ سرمایہ کاروں کو صنعتیں لگانے کیلئے تاریخی مراعات اور سہولتیں دی جا سکتی ہیں۔ تعلیم‘ صحت اور ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ میں بھی اضافے کا امکان ہے۔ تقریباً تمام شعبوں کیلئے اس بجٹ میں سہولتیں دیے جانے کا امکان ہے۔ جبکہ پاکستان میں بجٹ پیش ہونے کے بعد سے یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ یہ بجٹ سیاستدانوں‘ بیورو کریٹس اور اشرافیہ کا بجٹ ہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارت اور پاکستان کی معیشت کا مقابلہ کیا جاتا تھا۔ کبھی بھارت آگے ہوتا تھا اور کبھی پاکستان بازی لے جاتا تھا۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستانی معیشت بھارتی معیشت سے بہت بہتر سمجھی جاتی تھی۔ 1971ء میں ملک ٹوٹنے کے بعد پاکستان کچھ کمزور ضرور ہوا لیکن 1980ء کی دہائی میں دوبارہ سنبھل چکا تھا اور 1990ء کی دہائی کے ابتدا تک پاکستان کے حالات بھارت سے بہت بہتر تھے۔ اس وقت بھارت کو اپنی معیشت بچانے کیلئے آئی ایم ایف سے قرض بھی لینا پڑ گیا تھا لیکن وہ بھارت کا آئی ایم ایف سے آخری قرض تھا۔ اُس کے بعد سے اب تک بھارتی معیشت کا جہاز بلندی پر پروازکر رہا ہے جبکہ پاکستان کا معاشی جہازناک کے بل نیچے آ رہاہے۔ اگرچہ یہ بات قدرے تلخ ہے مگر حقیقت ہے کہ آج پاکستان اور بھارت کی معیشت کا کوئی موازنہ نہیں۔ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا چالیسویں نمبر کی معیشت سے موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت نے بہت تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کی ہیں اور اب وہ اپنا موازنہ امریکہ‘ چین‘ جرمنی اور جاپان کے ساتھ کرتا ہے۔
اگرچہ نریندر مودی کی پالیسیوں اور طرزِ سیاست سے اختلاف کی مکمل گنجائش موجود ہے۔ اس حکومت نے مسلمانوں اور اقلیتوں پر ظلم و بربریت کے باعث تاریخ کے سیاہ صفحات میں اپنا نام درج کرایا ہے اور مودی کو ہمیشہ ظالم حکمران اور جمہوری ڈکٹیٹر کے طور پر یاد رکھا جائے گا لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ بھارت کو معاشی طاقت بنانے کا کریڈٹ بھی اسی شخص کو دیا جائے گا۔ نریندر مودی بھارت کے مسلمانوں اور اقلیتوں کیلئے ایک بھیانک خواب ہے لیکن بھارت کے باقی ایک ارب عوام کیلئے شاید مودی کافی بہتر ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے مسلسل تیسری مرتبہ اسے اپنا وزیراعظم منتخب کیا ہے۔ جب عوام کو معاشی طور پر بہتر نظر آ رہی ہو تو وہ باقی سب چیزوں سے بالاتر ہو کر سوچنے لگتے ہیں۔ تمام برائیوں کے باوجود بھی وہ ایسے شخص کو وزیراعظم چن لیتے ہیں جسے دنیا جلاد کہتی ہے۔
اس ہفتے مودی حکومت کو تیسری مرتبہ الیکشن جیتنے کے بعد اپنا پہلا بجٹ پیش کرنا ہے جس میں عوام اور سرمایہ داروں کو سپر ریلیف دیے جانے کے امکانات ہیں‘ کیونکہ نریندر مودی الیکشن کے دوران متعدد بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ اگر وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو بھارت کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنا دیں گے۔ جب نریندر مودی نے پہلی مرتبہ اقتدار سنبھالا تھا تو بھارت دنیا کی دسویں بڑی معیشت تھا مگر اب یہ پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ تقریباً تمام بڑے معاشی ادارے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ 2027-28ء تک بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ اس وقت امریکہ اور چین کے بعد جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ البتہ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ ذہنوں میں اس سوال کا اٹھنا برمحل ہے کہ اگر بھارت برطانیہ‘ اٹلی‘ فرانس اور برازیل جیسی معیشتوں کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بنا ہے تو بھارتی عوام کی حالت اُن ممالک کی عوام سے بہتر کیوں نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جی ڈی پی اور فی کس آمدنی دو مختلف تصورات ہیں۔ جی ڈی پی اس ملک میں تیار کردہ مصنوعات اور خدمات کی کُل قیمت کا نام ہے جبکہ فی کس آمدنی کا مطلب ہے اس ملک میں رہنے والے ہر فرد کی اوسط آمدنی۔ جن ممالک کی آبادی زیادہ ہے ان ممالک میں فی کس آمدنی کم ہے۔ دوسری طرف جن ممالک کی آبادی کم ہے‘ ان کی فی کس آمدنی بھی زیادہ ہے۔ کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جن کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوں میں نہیں ہوتا لیکن وہاں کے لوگوں کی فی کس آمدنی امریکہ جیسی نمبر ون معیشت سے بھی زیادہ ہے۔سوئٹزرلینڈ اور لکسمبرگ اس زمرے میں آتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کی فی کس آمدنی 80 ہزار امریکی ڈالر سے زائد ہے اور لکسمبرگ کی فی کس آمدنی ایک لاکھ ڈالر سے بھی زیادہ ہے لیکن سوئٹزرلینڈ معاشی درجہ بندی میں 20ویں نمبر پر ہے اور لکسمبرگ 72ویں نمبر پر۔
بھارت میں فی کس سالانہ آمدنی تقریباً 2500 ڈالر ہے جبکہ امریکہ میں 80 ہزار ڈالر سے بھی زائد۔ برازیل‘ جو 9600 ڈالر سالانہ فی کس آمدنی کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے‘ وہاں بھی فی کس آمدنی بھارت سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ اگرچہ بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے‘ جس سے یقینی طور پر اندرونِ ملک معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی جن سے عوام کو بھی فائدہ ہو گا لیکن اس سے عام لوگوں کی زندگیوں اور ان کی معاشی خوشحالی میں کوئی ڈرامائی فرق آنے کا امکان نہیں ہے۔ اگرچہ گزشتہ ایک دہائی میں فی کس آمدن کافی بہتر ہوئی ہے اور مزید بہتر ہونے کے امکانات بھی روشن ہیں مگر ایک مخصوص حد تک ہی۔ دوسری جانب گزشتہ مالی سال میں پاکستان‘ ایک دہائی میں تیسری مرتبہ سب سے کم فی کس آمدنی والا ملک بن گیا۔ مالی سال 2023ء میں فی کس آمدنی‘ 2022ء کے 1766 ڈالر کے مقابلے میں کم ہو کر 1568 ڈالر رہ گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے کے تقریباً تمام طبقات کا معیارِ زندگی گر رہا ہے اور لوگوں کی اشیا خریدنے یا خدمات حاصل کرنے کی استطاعت محددو ہو رہی ہے۔ مجموعی طور پر یہ معاشی سست روی کے رجحان کا عکاس ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں اس وقت شاید ہر معاشی پالیسی ناقص ہے اور اس کے پیچھے پاکستان کی اشرافیہ کے مفادات کارفرما ہیں تو غلط نہیں ہو گا۔ پاکستان میں ادارے شاید ملک کیلئے نہیں بلکہ اپنے اپنے گروہی مفادات کیلئے کام کرتے ہیں۔ وہ اُن چند لوگوں کیلئے کام کرتے اور ان کے ساتھ رابطے بناتے ہیں جو 'سٹیٹس کو‘ کو نہ چھیڑیں۔ اس اپروچ کے ساتھ کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved