ایک جملے میں تو یوں کہا جائے گا کہ بنگلہ دیش میں حالیہ خونیں فسادات کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کے مسلسل اور ملک گیر احتجاج کے سبب ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ یہ جملہ اس پوری صورتحال کو بیان نہیں کرتا جو بنگلہ دیش کی سیاسی اور سماجی گھٹن کا نتیجہ ہے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اسباب کیلئے بڑا منظرنامہ دیکھنا لازمی ہے۔ لیکن پہلے موجودہ صورتحال پر ایک نظر ڈال لیں۔ جب یہ تحریر لکھی جا رہی ہے‘ لگ بھگ 105 ہلاکتوں کے بعد‘ اور احتجاج کو مسلسل کئی طرف سے دبانے کے باوجود حسینہ واجد حکومت نے پورے ملک میں کرفیو نافذ کر دیا ہے اور بہت سی جگہوں پر فوج بلا لی گئی ہے۔ کرفیو اور فوج بلانے کی فوری وجہ وسطی بنگلہ دیش میں نرسنگدی جیل پر ہونے والا حملہ ہے جس میں سینکڑوں قیدی رہا کرا لیے گئے۔ حکومت مخالف حلقوں میں ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ سب رابطے بحال ہونے کے بعد ہی درست تعداد کا اندازہ ہو سکے گا۔ اس وقت موبائل‘ ٹیلی فون لائنز اور انٹرنیٹ بند ہیں؛ چنانچہ درست خبریں بھی نہیں مل رہیں اور ایسے میں افواہوں کا زور پکڑنا فطری ہے۔ بسیں‘ ریل گاڑیاں بھی بند ہیں۔ پورے ملک میں یونیورسٹیاں‘ کالج اور تعلیمی ادارے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ سرکاری ٹی وی پر مظاہرین نے قبضہ کر لیا تھا اور آگ لگا دی تھی‘ جمعہ کی صبح یہ خالی تو کرا لیا گیا لیکن نشریات تاحال بحال نہیں ہوئیں۔ معاملہ ڈھاکہ تک محدود نہیں رہا بلکہ 22 اضلاع میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے‘ لہٰذا یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہ صرف کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج ہے۔ احتجاج کا ایک سنگین زاویہ حکومت مخالف اور حکومت حامی طلبہ تنظیموں میں مسلح تصادم ہے۔ تعلیمی اداروں میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ کی شاخ بنگلہ دیش چھترا لیگ (بی سی ایل) قائم ہے۔ کوٹہ سسٹم پر طلبہ کا احتجاج شروع ہونے پر بی سی ایل حکومت کی حمایت میں میدان میں اتری اور طلبہ تنظیموں کے اس خونریز تصادم میں بہت سی ہلاکتیں ہوئیں۔ زیادہ تر الزام بی سی ایل پر ہے اور حکومت مخالف دعویٰ کرتے ہیں کہ پولیس ان کے ساتھ ہلاکتوں میں شریک ہے۔ اگرچہ موجودہ لہر کوٹہ سسٹم کے خلاف اٹھی ہے مگر درحقیقت اس کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں۔
اس وقت سرکاری ملازمتوں میں 56 فیصد خصوصی کوٹہ‘ کئی کیٹیگریز کیلئے مخصوص ہے جبکہ اوپن میرٹ صرف 44 فیصد رہ جاتا ہے۔ اس 56 فیصد میں بھی 30 فیصد کوٹہ اُن لوگوں کی اولاد در اولاد کیلئے ہے جو 1971ء کی بنگلہ دیش جنگ میں شامل تھے اور جنہیں ''مکتی جوڈا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھوانے والوں کی ایک بڑی فہرست مکتی جوڈا میں شامل ہے۔ حکومت مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ دراصل حکومت کے حامیوں کو اہم جگہوں پر متعین کرنے اور انہیں نوازنے کا ایک طریقہ ہے اور سیاسی مخالفین کیلئے جگہ تنگ کرنے کی کوشش۔ 2018ء میں اس کے خلاف تحریک اٹھی اور طلبہ نے مطالبہ کیا کہ معذوروں‘ خواتین اور مخصوص اقلیتوں کے سوا تمام کوٹہ ختم کیا جائے۔ حسینہ واجد نے شروع میں اس مطالبے کی مخالفت کی لیکن پھر ایک حیران کن اقدام کے طور پر تمام کوٹہ‘ بشمول معذوروں اور خواتین کا کوٹہ‘ بالکل ختم کر دیا۔ اس اقدام پر کافی مظاہرے ہوئے لیکن معاملہ دب گیا۔ جون 2024ء میں مکتی جوڈا کی اگلی نسلوں کے کچھ لوگ اس کوٹے کے بحالی کیلئے ہائیکورٹ چلے گئے اور عدالت نے یکم جولائی کو فیصلہ دیا کہ 2018ء کا حکومتی اقدام غلط تھا لہٰذا مکمل کوٹہ بحال کیا جائے۔ یہ مظاہروں کا دوبارہ آغاز تھا۔ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کی لیکن اسی دوران کچھ طلبہ نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور ہائیکورٹ کا فیصلہ چار ہفتوں کیلئے معطل کر دیا گیا ہے۔ کوئی حتمی فیصلہ آنے سے پہلے ہی ہنگامے دوبارہ زور پکڑ گئے ہیں کیونکہ حکومت مخالفین کو یقین ہے کہ یہ سب معاملہ ملی بھگت پر مبنی اور کوٹہ سسٹم بحال کرنے کی سازش ہے۔ طلبہ اپنی بیروزگاری سے تنگ ہیں اور اس کا سبب کوٹہ سسٹم کو قرار دیتے ہیں۔ معاشی ترقی دکھائی جاتی ہے لیکن ملازمتیں نہیں ہیں۔ سترہ کروڑ کی آبادی میں بیس فیصد نوجوان ہیں‘ لگ بھگ ساڑھے تین کروڑ۔ ان کی غالب اکثریت بیروزگار ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق اوپن میرٹ کے چار لاکھ نوجوانوں کیلئے پبلک سروس کمیشن میں صرف تین ہزار نوکریاں ہیں۔ حالیہ مظاہروں کے بعد حسینہ واجد سے منسوب ایک جملہ جلتی پر تیل کا کام کر گیا جس میں اُس نے ان مظاہرین کو ''رضاکار‘‘ کہہ کر پکارا تھا۔ بنگلہ دیش میں یہ اصطلاح ان لوگوں کیلئے استعمال کی جاتی ہے جنہوں نے 1971ء میں افواجِ پاکستان سے تعاون کیا تھا۔ اب مظاہرین کے جلوسوں میں یہ نعرہ دہرایا جارہا ہے ''تو کی؟ امی کی؟ رضاکار۔ رضاکار۔ کی بولچے؟ کی بولچے؟سائرچار‘ سائر چار‘‘ (تو کون ہے ؟ میں کون ہوں؟ رضاکار‘ رضاکار۔ یہ کون کہتا ہے؟ یہ کون کہتا ہے؟ ڈکٹیٹر‘ ڈکٹیٹر)۔
ان احتجاجی مظاہرو ں کا ایک سرا چھ ماہ قبل کے عام انتخابات کے نتائج سے بھی جڑتا ہے۔ حزبِ اختلاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا‘ جس میں حزبِ مخالف کی سب سے بڑی جماعت‘ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی بھی شامل تھی۔ قبل از الیکشن بی این پی کے رہنمائوں اور حامیوں کو بہت بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا۔ بڑے مخالفین مثلاً سابق وزیراعظم خالدہ ضیا پہلے ہی کئی سالوں سے زیر حراست ہیں۔ انتخابات میں سرکاری اعداد وشمارکے مطابق 40 فیصد ووٹ پڑے جبکہ اس سے قبل 2018ء میں ووٹنگ کی شرح 80 فیصد تھی۔ آزاد ذرائع کے مطابق یہ 40 فیصد کے اعداد وشمار بھی مبالغے پر مبنی ہیں۔ بہرحال حسینہ واجد دوبارہ اقتدار میں آ تو گئیں لیکن اُس وقت سے ایک بے چین اور مضطرب سیاسی تخت کے اوپر بیٹھی ہوئی ہیں۔ الیکشن میں اپوزیشن جماعتوں کو جس طرح باندھ کر یکطرفہ نتائج حاصل کیے گئے‘ اس کی گھٹن پورے معاشرے میں موجود ہے۔ اس سے اندازہ کر لیں کہ معاملہ سپریم کورٹ میں جانے کے بعد کوٹہ عملاً معطل ہے لیکن مظاہرے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کوٹہ 30 فیصد سے گھٹا کر پانچ فیصد کیا جائے۔ اگر کوٹہ سسٹم میں تبدیلی کی گئی‘ جو فی الوقت احتجاج ختم کرنے کا واحد حل نظر آتا ہے‘ تو یہ ایک طرح حکومتی شکست ہو گی۔ چونکہ کئی دیگر معاملات بھی ساتھ چل رہے ہیں اس لیے حکومت ڈرتی ہے کہ یہ عمل مخالفین کے حوصلے بلند کرے گا اور آئندہ ایسے کئی معاملات سامنے آئیں گے۔ بی این پی سمیت حکومت مخالف جماعتوں کے کئی رہنما اس وقت جلاوطن ہیں اور یہ تحریک ان کو زیادہ طاقتور بنا رہی ہے۔ ماضی قریب میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن اب حسینہ واجد کو ایک عام بنگالی بھی ڈکٹیٹر سمجھتا اور پکارتا ہے۔
بے چینی کا ایک سبب معیشت بھی ہے۔ 2022ء سے بنگلہ دیشی معیشت جھٹکوں کی زد میں ہے۔ یوکرین جنگ نے جہاں بہت سے ممالک کو متاثر کیا وہاں بنگلہ دیش بھی اس کی زد میں آیا۔ فروری 2023ء میں بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے پانچ ارب ڈالر کا قرض لیا۔ 2023ء سے یہ خبریں مسلسل آ رہی ہیں کہ اشیائے ضروریہ مثلاً سبزیو ں کی قیمتیں پچاس فیصد تک بڑھ چکی ہیں اور متوسط اور غریب طبقات مسلسل دبائو کا شکار ہیں۔ اس وقت مہنگائی‘ بیروزگاری کی شرح عروج پر ہے اور چار بار مسلسل حکومت میں رہنے کے بعد لوگ حسینہ واجد کو ان تمام مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ حسینہ واجد 2009ء سے مسلسل وزیراعظم چلی آ رہی ہیں۔ ممکن ہے کوٹہ سسٹم میں تبدیلی کرکے وہ اس مسئلے پر قابو پا لیں لیکن جیسے عرض کیا‘ معاملہ صرف کوٹہ سسٹم کا نہیں۔ حکومت کے لیے اپنی میعاد پوری کرنا بھی ایک چیلنج ہو گا۔ وسیع پیمانے پر پھیلی ناپسندیدگی کے ساتھ یہ کام کافی مشکل ہے۔ حالیہ احتجاج اپنا رخ بدل بھی سکتا ہے۔ کیا 77 سالہ حسینہ واجد اس بحران پر قابو پا سکیں گی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved