حافظ شریف اللہ شاہد برطانیہ کی ایک معروف علمی شخصیت ہیں۔ جہاں وہ علم کی نشرو اشاعت میں مشغول رہتے ہیں‘ وہیں اپنی تنظیمی صلاحیتوں کے حوالے سے بھی معروف ہیں۔ چند سال قبل انہوں نے بریڈ فورڈ میں ایک چرچ کی زمین کو خریدکر بڑے اسلامی مرکز بنانے کیلئے وقف کر دیا تھا۔ مرکز ام القریٰ بریڈ فورڈ اس وقت ایک پُرکشش ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے‘ یہاں لوگ نمازِ پنجگانہ‘ خطباتِ جمعہ اور مختلف کانفرنسوں میں شرکت کیلئے آتے ہیں۔ جب کبھی مجھے برطانیہ جانے کا موقع ملا‘ برادر شریف اللہ شاہد نے ہمیشہ الفت‘ محبت اور وابستگی کا اظہار کیا۔ بریڈ فورڈ میں 19 جولائی بروز جمعۃ المبارک ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مقررین میں پاکستان کے ممتاز عالم دین ڈاکٹر حماد لکھوی‘ برادرحافظ محمد علی یزدانی‘ برطانیہ کے معروف خطیب حافظ عبدالاعلیٰ درانی اور حافظ عبدالستار عاصم کے علاوہ معروف انگریزی مقرر برادر وسیم خان بھی شامل تھے۔ پروفیسر حماد لکھوی نے صحابہ کرامؓ کی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کے خطاب کو عوام الناس نے بہت پسند کیا۔ اس مجلس میں آخری مقرر کے طور پر مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے جن گزارشات کو عوام الناس کے سامنے رکھا‘ ان کو کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے خالق و مالک ہیں‘ انہوں نے زمین کو انسانوں کی ضروریات کیلئے کشادہ فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 29 میں ارشاد فرماتے ہیں ''وہ اللہ (ہی ہے) جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا‘‘۔ انسانوں کے لیے زمین و آسمان میں جو کچھ تخلیق کیا‘ اس کو سورۂ ابراہیم میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ابراہیم کی آیات 32 تا 34 میں فرماتے ہیں ''اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے تمہاری روزی کے لیے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کر دیا ہے کہ دریائوں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کر دی ہیں۔ اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے۔ اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے۔ اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے۔ یقینا انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی طبعی ضروریات کو پورا فرمانے کے ساتھ ان کی ہدایت کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی مبعوث فرمایا تاکہ انسانوں کی روحانی تشنگی کو دور کیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ابراہیم کی آیت 4 میں ارشاد فرماتے ہیں ''ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الرعد کی آیت 7 میں ارشاد فرمایا ''حقیقت یہ ہے کہ تم تو بس خبردار کرنے والے ہو اور ہر قوم کیلئے ایک راہ نما ہوا ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختلف علاقوں اور زمانوں میں مختلف انبیاء و رسل بھیجے۔ ان کے بعد حضرت محمدﷺ کو ایک آفاقی اور عالمگیر نبی کی حیثیت میں مبعوث فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۂ سباء کی آیت 28 میں کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیں ''ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ نبی کریمﷺ نے نزولِ وحی سے قبل کسی مکتب و مدرسہ سے علم حاصل نہیں کیا بلکہ آپﷺ نے براہِ راست اللہ تبارک وتعالیٰ سے علم حاصل کیا۔ اس حقیقت کو سورۃ العنکبوت کی آیت 48 میں کچھ یوں بیان کیا گیا ''اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے اور نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے‘ اگر ایسا ہوتا تو یہ باطل پرست لوگ شک وشبہ میں پڑ سکتے تھے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے علم حاصل کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت 80 میں نبی کریمﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اور ارشاد فرمایا ''جس نے رسول کی اطاعت کی سو درحقیقت اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی‘‘۔ اسی طرح سورۃ الاحزاب کی آیت 21 میں نبی کریمﷺ کے اسوۂ کامل ہونے کا ذکر بھی بڑی صراحت سے فرمایا گیا ''یقینا تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ نبی کریمﷺ کی اتباع کرنے والے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنا محبوب قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی آیت 31 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔
جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو بطورِ قائد‘ رہنما اور ہادی مبعوث کیا وہیں مسلمانوں پر ایک بڑا احسان یہ کیا کہ ان لوگوں کا تعارف بھی قرآنِ مجید میں کرا دیا کہ جن لوگوں نے نبی کریمﷺ کی غیر مشروط اتباع کر کے تاریخ کے سینے پر اپنی عظمت کے نشان ثبت کیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان عظیم ہستیوں کا ذکر سورۂ فتح کی آیت29 میں کچھ یوں فرماتے ہیں ''محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ (ہیں)‘ کافروں پر سخت ہیں (اور) آپس میں رحمدل ہیں‘ تُو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں‘ اللہ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں‘ ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے‘ ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور انجیل میں ہے‘ مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہو گیا‘ پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہو گیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے۔ ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے ایمان کو معیارِ ایمان قرار دیا۔ سورۃ البقرہ کی آیت 137 میں ارشاد ہوا ''اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں‘ اور اگر انحراف کریں تو وہ ہٹ دھرمی میں پڑگئے ہیں‘‘۔ صحابہ کرامؓ کی جماعت میں سے خلفائے راشدین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے جہاں نبی کریمﷺ کی زندگی میں آپﷺ کا بھرپور ساتھ دیا وہیں آپﷺ کی رحلت کے بعد بھی آپﷺ کے اسوۂ کامل پہ چلتے ہوئے زمین والوں کو ایک ایسا نظام دیا جس میں دعوتِ توحید وسنت کو بھی ملحوظ رکھا گیا اور خدمتِ انسانیت کیلئے بھی بھرپور کردار ادا کیا گیا۔ یہ خلفائے راشدینؓ کے خلوص کا نتیجہ تھا کہ جہاں انہوں نے دین اور عوام کی خدمت کی وہیں اُن کی پیش قدمی کی وجہ سے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی سرنگوں ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے خلفاء سے ایسا کام لیا جو محیر العقول تھا کہ جہاں وہ اللہ کے دین اور انسانوں کی خدمت کا فریضہ انجام دیتے رہے وہیں ان کی پیش قدمی کی وجہ سے دنیا کی سپر طاقتیں بھی اسلامی لشکروں کے مقابلوں میں بے بس اور بے کس نظر آئیں۔ خلفائے راشدینؓ کے طرزِ عمل کی وجہ سے کئی سو برس تک زمین پر مسلمان غالب نظر آئے لیکن رفتہ رفتہ ان عظیم روایات کو‘ جو خلفائے راشدین کا طرہ امتیاز تھیں‘ جب مسلم حکمرانوں نے فراموش کر دیا اور ایمان اور ایقان کے راستے کو چھوڑ کر مادہ پرستی کے راستے پر چل نکلے تو مغلوبیت ان کا مقدر بن گئی۔
آج بھی اگر ہم عزت‘ وقار اور رفعت چاہتے ہیں تو ہمیں صحابہ کرامؓ بالخصوص خلفائے راشدینؓ کے اسوہ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر‘ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے طرزِ زندگی سے استفادہ کرنے کی توفیق دے اور ہمیں ایسے حکمران عطا فرما جو خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حکومت کرنے والے ہوں‘ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved