تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-07-2024

میرااپنا دماغ بھی بھوں گیا ہے

امریکی انتخابات میں وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی وہاں مادر پدر آزاد قسم کی دخل اندازی کا کوئی تصور نہیں۔ آئین‘ روایات‘ سسٹم اور دیگر ادارے اپنے فرائض پوری آزادی سے سرانجام دیتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی کسی امیدوار کو الیکشن سے قبل مقبول کرنے یا خوار کرنے کی غرض سے اس کے اچھے یا بُرے معاملات کی خفیہ ٹیپس‘ گفتگو یا خطوط وغیرہ کو اپنے ذرائع سے میڈیا کے ذریعے عام کرنے کی حد تک تو ہو سکتی ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ نتائج تبدیل کر سکے۔ آپ اسے قبل از الیکشن ''مینجمنٹ‘‘ کا نام دے سکتے ہیں مگر ووٹ کا تقدس پائمال کرنے کی جرأت یہاں ابھی کسی کو نہیں ہوئی۔ یہاں آر ٹی ایس کے کارنامے ‘ فارم 45 یا 47کی چکر بازیاں نہیں چلتیں۔
امریکی الیکشن خاصے کی چیز ہیں۔ دنیا بھر سے انوکھے طریقہ کار اور گھمن گھیریوں سے بھرے ہونے کے باوجود ایک بات طے ہے کہ جو طے ہو گیا ہے اس میں کوئی ہینکی پھینکی نہیں ہوتی۔ امریکیوں نے اپنی ایک علیحدہ دنیا بنائی ہوئی ہے‘ برطانیہ سے آزادی حاصل کی تو تقریباً ہر اس چیز کو الٹ کرکے رکھ دیا جو برطانوی راج میں رائج تھی۔ بجلی کا نظام 220 وولٹ پر تھا‘ امریکیوں نے اسے 110 وولٹ پر منتقل کر دیا۔ بجلی کے سوئچ نیچے کرنے سے آن ہوتے تھے اور اوپر کرنے سے آف ہوتے تھے۔ امریکیوں نے اسے الٹ دیا۔ وزن اب بھی پائونڈز میں اور فاصلہ میلوں میں ناپا جاتا ہے۔ ڈرائیونگ لیفٹ ہینڈ ہے اور سوائے ڈاک کی گاڑی کے‘ ڈرائیور بائیں طرف بیٹھتا ہے۔ یہی حال صدارتی الیکشن کا ہے جہاں ووٹ افراد ڈالتے ہیں لیکن گنتی میں ریاستوں کے ووٹ آتے ہیں۔ ریاستی ووٹوں کی گنتی کا اصول بھی طے شدہ ہے۔ صرف یہی نہیں‘ تقریباً سارے سیاسی امور بھی طے شدہ تاریخوں یا دنوں پر سرانجام دینے کا طریقہ کار بھی بڑا منفرد ہے۔ مثلاً یہ کہ صدارتی الیکشن ہر چار سال بعد نومبر کی پہلی سوموار کے بعد آنے والے منگل کو ہوں گے۔ اسی طرح امریکی صدر اپنا حلف انتخابات کے بعد‘ اگلے سال جنوری کی 20 تاریخ کواٹھائے گا۔ اگر 20 جنوری کو اتوار ہو گا تو پھر وہ حلف 21جنوری کو اٹھائے گا۔ اس سلسلے میں سیاسی پارٹیوں کو الیکشن کی تاریخ لینے کیلئے نہ تو سپریم کورٹ جانا پڑتا ہے اور نہ ہی وہاں کی سپریم کورٹ کو الیکشن وغیرہ کی تاریخ دے کر ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے۔
امریکہ میں ہر دو چار الیکشنز کے بعد کوئی نہ کوئی تیسری پارٹی بھی الیکشن میں کود پڑتی ہے تاہم بنیادی طور پر صرف دو ہی سیاسی پارٹیاں ہیں یعنی ریپبلکن اور ڈیمو کریٹ۔ ریپبلکن پارٹی کا انتخابی نشان ہاتھی ہے اور اس کی حامی ریاستیں سرخ رنگ کی حامل ریاستیں کہلاتی ہیں جبکہ ڈیمو کریٹ پارٹی کا انتخابی نشان گدھا ہے اور اسکی حامی ریاستیں نیلے رنگ کی ریاستیں کہلاتی ہیں۔ امریکی آئین کے آرٹیکل دو کے مطابق امریکی صدر کی اہلیت کی صرف تین شرائط ہیں۔ وہ پیدائشی امریکی ہو‘ وہ امریکہ میں چودہ سال تک رہائش پذیر رہا ہو اور اسکی عمر 35 سال سے کم نہ ہو۔ امریکی آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے امریکہ کے صدر کیلئے دو بار سے زائد صدر بننے پر پابندی ہے۔ یہ دو ٹرمز لگاتار بھی ہو سکتی ہیں اور وقفے کے ساتھ بھی۔ آج تک امریکی سیاسی تاریخ میں صرف کلیولینڈ ہی ایسا صدر گزرا ہے جو پہلی بار 1885ء سے 1889ء تک اور پھر اگلا صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد 1893ء سے 1897ء تک دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوا۔ جب 1888ء میں وہ اپنا صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد وائٹ ہائوس سے رخصت ہو رہا تھا تو اس کی اہلیہ نے وائٹ ہائوس کے کیئر ٹیکر سے کہا کہ تم یہاں کی ہر چیز کی اچھی طرح حفاظت کرنا اور خیال رکھنا‘ میں واپس آکر چیک کروں گی۔ حیران و پریشان کیئر ٹیکر نے پوچھا: میڈم آپ کب واپس آئیں گی؟ تو مسز گروور کلیولینڈ نے کہا: ٹھیک چار سال بعد۔ گمان ہے کہ امریکی تاریخ 132 سال بعد دوبارہ دہرائی جائے گی جب سال 2025ء میں (جو بائیڈن کے صدارتی الیکشن سے فرار نے یہ گمان مزید پختہ کر دیا ہے) ٹرمپ ایک بار صدر بننے کے بعد اگلا الیکشن ہار کر وائٹ ہائوس سے رخصت ہو کر 2024ء کا الیکشن جیت کر بطور صدر اپنی دوسری ٹرم کیلئے وائٹ ہائوس میں واپس آئے گا۔ اسے ''نان کنزیکٹو سیکنڈ ٹرم‘‘ کہا جائے گا۔
قارئین سے درخواست ہے کہ وہ کالم کو کالم سمجھا کریں اور اسے خبر تصور نہ کیا کریں۔ کالم اور خبر بہرحال دو مختلف چیزیں ہیں۔ خبر بہت سے تحقیقی مراحل سے گزری ہوئی شے ہوتی ہے جبکہ کالم میں خیال مرکزی چیز ہے اور بہت سے اگر مگر اس میں گڈمڈ ہوتے ہیں۔ دوستوں کی باتیں‘ عوامی رائے‘ عمومی تاثر‘ کالم نگار کے اپنے غلط سلط اندازے‘ ادھر اُدھر کے خام تجزیے اور بہت سی نیم پختہ خبریں۔ غرض کالم کوئی ایسی حتمی شے نہیں کہ اس کے مندرجات کو تحقیق کے ترازو پر تولا جائے‘ اس میں پیش کیے گئے خیالات کو حساب کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور ان پر ایمان لایا جائے۔ ہر دوسرے روز لکھا جانے والا کالم تحقیق وتفتیش کے ان مراحل سے گزارا جائے جو خبر کیلئے درکار ہیں تو پھر سال میں دس بارہ کالم ہی لکھے جا سکتے ہیں‘ سو قارئین سے درخواست ہے کہ اخباری کالم کو اخباری کالم سمجھیں اور اس کی زبان وبیان کا مقابلہ اور موازنہ سوشل میڈیا سے نہ کریں کہ اخباری تحریر بہرحال اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے لکھی جاتی ہے اور اس تحریر کی ذمہ داری صرف لکھنے والے پر نہیں بلکہ پورے ادارے پر ہوتی ہے‘ جبکہ سوشل میڈیا میں ہر لکھنے والا صرف مصنف ہی نہیں بلکہ منصف بھی ہوتا ہے جو کسی اخلاقی قاعدے‘ قانونی چارہ جوئی اور تہذیبی روایت کا پابند نہیں ہوتا۔
امریکی صدارتی الیکشن ہم جیسا سیدھا سادہ الیکشن بھگتانے والوں کو تو خاصا پُرپیچ لگتا ہے اور اسکا آغاز صدارتی امیدواروں کی اپنی اپنی پارٹی میں ہونیوالے پرائمری الیکشن سے ہوتا ہے۔ پرائمری الیکشن میں ووٹ کون دے سکتا ہے‘ اسکی اہلیت کی تین مختلف درجہ بندیاں ہیں اور پچاس امریکی ریاستوں میں یہی تین مختلف درجہ بندیوں کے تحت پرائمری الیکشن ہوتے ہیں۔ ووٹ عام ووٹر ڈالتا ہے اور جس ریاست میں جو صدارتی امیدوار‘ خواہ ایک ووٹ سے‘ جیت جائے وہ سارے ریاستی ووٹ حاصل کر لیتا ہے۔ ہر ریاست کے ووٹ الیکٹورل ووٹ کہلاتے ہیں اور ہر ریاست کی امریکی کانگریس میں نشستوں کی تعداد‘ جمع دو ارکانِ سینیٹ کے برابر ہے۔ مثلاً چھ ریاستوں ورماؤنٹ‘ ڈیلاویئر‘ الاسکا‘ شمالی ڈکوٹا‘ جنوبی ڈکوٹا اور وائی اومنگ سے ایک ایک ممبر کانگریس اور دو دو سینیٹرز ہیں تو ان متذکرہ بالا چھ ریاستوں میں ہر ایک کے پاس تین تین ووٹ ہیں جبکہ اکیلی ریاست کیلیفورنیا کے باون ارکانِ کانگریس اور دو سینیٹرز کے ساتھ‘ چون الیکٹورل ووٹ ہیں۔ کل امریکی الیکٹورل ووٹ 538ہیں۔
قارئین! اگر آپ ان گنجل دار تفصیلات سے پریشان ہو گئے ہیں تو اس کیلئے میں معذرت خواہ ہوں تاہم میں نے سوچا کہ اگر میں پریشان ہوا ہوں تو اس پریشانی میں اپنے پیارے قارئین کو بھی کیوں نہ شامل کر لوں کہ آخر کالم نگار اور قاری ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ لیکن آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا یہ امریکی صدارتی انتخابات اپنی نوعیت کے اعتبار سے کچھ پیچ دار ضرور ہیں مگر ووٹ ڈالنے سے نتیجہ نکلنے کے دوران کے تمام مراحل بڑے سادہ ہیں اور اس میں کوئی چھل کپٹ نہیں۔ دوسری طرف ہمارا انتخابی عمل تحریری طور پر بڑا ہی سادہ ہے لیکن اس سادہ طریقہ کار کے تحت ووٹ ڈالنے کے بعد نتیجہ آنے کے دوران والے مرحلے از قسم آر ٹی ایس‘ فارم 45 اور فارم 47ٹائپ ایسی محیرالعقول چک پھیریاں ہیں کہ بندے کا دماغ ہی 'بھوں‘ جاتا ہے۔ میرا تو سوچ کر ہی دماغ بھوں گیا ہے۔ آپ کا بھی یقینا 'بھوں‘ گیا ہوگا۔ اجازت دیجئے تاکہ آپ کا اور میرا دماغ ٹھکانے پر آ سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved