کوئی نئی حکومت جب اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتی ہے تو عوام کے دلوں میں نئی امیدوں کی ایک لہر دوڑجاتی ہے۔ یہ امیدیں کبھی کبھی آسمان سے بھی اونچی ہوتی ہیں۔ عوام کو توقع ہوتی ہے کہ نئی حکومت ان کی زندگیوں میں بہتری لائے گی۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں‘ انہیں صحت کی بہتر سہولتیں میسر آ سکیں‘ روزگار کے مواقع مل سکیں اور وہ محفوظ ماحول میں زندگی گزار سکیں۔ لوگ یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ ملک کی معیشت مضبوط ہو اور مہنگائی کم ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور دنیا میں اپنا نام روشن کرے۔ عوام امن و امان کی خواہش بھی رکھتے ہیں کہ ملک میں امن و سکون قائم رہے اور انہیں کسی قسم کے خوف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے آزادانہ طور پر کھیل سکیں اور زندگی میں آگے بڑھ سکیں۔ انتخابات سے قبل ہر سیاسی جماعت نے اپنے منشور کے مطابق عوام سے وعدے بھی کیے ہوتے ہیں اس لیے یہی وہ وقت ہوتا ہے جب حکومت کے لیے عوام کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے نئی حکومت کے لیے ابتدائی ایام انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ اگر حکومت شروع کے دنوں میں عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرے تو اس سے عوام میں حکومت کے حوالے سے اعتماد پیدا ہوتا ہے کیونکہ جب عوام محسوس کرتے ہیں کہ حکومت ان کی آواز سُن رہی ہے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے تو عوام توقع کرنے لگتے ہیں کہ دھیرے دھیرے ان کے دیگر مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ عوام کے اعتماد ہی سے دراصل حکومت مضبوط ہوتی ہے اور ملک میں سیاسی استحکام کا تاثر قائم ہوتا ہے۔
اگر فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی موجودہ حکومت کے ابتدائی 100 دنوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ معیشت کی بحالی حکومت کی ترجیح رہی ہے۔ حکومت نے انتظار کیے بغیر وہ اقدامات کیے جو اقتصادی ترقی کیلئے ضروری تھے‘ لیکن کیا یہ المیہ نہیں کہ حکومت کو قائم ہوئے ابھی چھ ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے اور اسے ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اصل عدم استحکام یہ ہے کہ حکومتوں کو اپنی پوری آئینی مدت کیلئے کام نہ کرنے دیا جائے۔ماضی میں تقریباً ہر جماعت کی حکومت کو کام کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کی۔ مسلم لیگ (ن) وفاق میں اپوزیشن جماعت تھی۔ چونکہ طویل عرصہ کے مارشل لاء کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تھی اس لیے مسلم لیگ (ن) نے پاکستان پیپلز پارٹی کو موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے منشور اور ایجنڈے کے تحت کام کر ے۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام بھی لگا مگر مسلم لیگ (ن) نے بطور اپوزیشن پارٹی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے حکومت کو کمزور کرنے کا تاثر ملتا ہو۔
2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے وفاق میں حکومت بنائی اور پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعت تھی لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایوان کے اندر اصل اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی ہے۔ تحریک انصاف اپوزیشن جماعت نہ ہونے کے باوجود ایوان کے اندر اور ایوان کے باہر خود کو اصل اپوزیشن جماعت قرار دیتی رہی۔ یہ ہنگامہ آرائی اس قدر بڑھی کہ منتخب حکومت کو یکسو ہو کر کام کرنے کا موقع نہ ملا لیکن چونکہ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ (ن) کو سپورٹ حاصل رہی تو مسلم لیگ (ن) نے حتی الامکان ڈِلیور کرنے کی کوشش کی جس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے۔ مطلب یہ کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو پیپلز پارٹی کی سپورٹ سے کچھ عرصہ تک کام کرنے کا موقع مل گیا۔ اسی طرح 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی اور مسلم لیگ (ن) اپوزیشن جماعت تھی۔ پی ٹی آئی حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ اسے اپوزیشن اور مقتدرہ سمیت ہر سطح پر تعاون حاصل رہا بلکہ مقتدرہ نے جتنی سپورٹ پی ٹی آئی حکومت کی کی شاید ہی ماضی میں کسی حکومت کو اس قدر سپورٹ حاصل رہی ہو۔ پی ٹی آئی کو اپنے منشور اور معاشی ایجنڈے کے مطابق چلنے کیلئے تمام وسائل میسر رہے۔ عمران خان کے وزیر خزانہ اسد عمر کو کھل کر کام کا موقع ملا لیکن وہ ناکام رہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں اس قدر تاخیر کر دی گئی کہ اس کے اثرات آج بھی معیشت پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت شاید پہلی حکومت تھی جس میں چار وزیرِ خزانہ مقرر ہوئے۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی دو تین برسوں میں عوام اور اپوزیشن کی جانب سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا‘ تاہم 2024ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی موجودہ حکومت بدقسمت ہے کہ اسے عوام اور اپوزیشن چند ماہ کی بھی مہلت دینے کیلئے بھی تیار نہیں۔ ایسے ماحول میں حکومت ڈِلیور کیسے کرے؟ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے پہلے 100 روز کی کارکردگی تسلی بخش رہی ہے مگر چونکہ چیلنجز کا پہاڑ ہے تو ظاہر ہے ان کے حل ہونے میں وقت لگے گا۔ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن اور خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کے فیصلے ماضی میں بھاری پتھر سمجھ کر نہیں اٹھائے گئے‘ حکومت یہ مشکل فیصلے بھی کر رہی ہے۔ گو معاشی میدان میں ابھی طویل سفر طے کرنا ہے مگر عام شہری محسوس کر سکتا ہے کہ معاشی اشاریے بتدریج بہتر ہو رہے ہیں۔
مناسب تو یہ تھا کہ جس طرح ماضی میں حکومتوں کو ابتدائی برسوں میں کام کرنے کا موقع دیا گیا‘اس حکومت کو بھی ویسے ہی موقع فراہم کیا جاتا مگر حکومت قائم ہوتے ہی عدم استحکام کی فضا پیدا کر دی گئی۔ اب تو حد ہی ہو گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ موجودہ سیٹ اَپ مکمل ناکام ہو گیا ہے۔ جو حکومت پانچ سال کیلئے منتخب ہوئی ہے اور 2029ء میں اس کی آئینی مدت ختم ہونی ہے‘ وہ اقتدار کے پہلے چند ماہ میں ہی ناکام کیسے ہو گئی؟ اگر کسی کی خواہش کے مطابق حکومت کو قبل از وقت ہٹا دیا جاتا ہے تو اس کے بعد جو حکومت قائم ہو گی کیا وہ مشکلات پر قابو پا لے گی؟ کیا فی الفور ملک نئے انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اگر بالفرض انتخابات ہو بھی جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک بار پھر منقسم مینڈیٹ ملتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟ بہتر ہے کہ اسی حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے دی جائے اور اپوزیشن ایوان کے اندر رہ کر اپنا آئینی کردار ادا کرے۔
حکومت کی کارکردگی پر تنقید ہونی چاہیے‘ یہ اپوزیشن کا بنیادی حق ہے مگر دو تین سال کے بعد‘ جیسا کہ پی ٹی آئی نے خود اپنے لیے یہ معیار سیٹ کیا تھا۔ ایک بات جس سے حکومت کو گریز کرنا چاہیے وہ ہے اپوزیشن کے خلاف غیر ضروری مقدمہ بازی۔ پی ٹی آئی یہ غلطی کر چکی ہے‘ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا‘ الٹا اس سے سیاسی انتقام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔ آج موجودہ حکومت اسی غلطی کو دہراتی نظر آتی ہے۔ یاد رکھیں اگر پی ٹی آئی کو ساڑھے تین سالہ احتسابی عمل سے کچھ حاصل نہیں ہوا تو اس حکومت کو بھی اس عمل سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ عوام اب سیاسی انتقام کے نعروں سے تنگ آ چکے ہیں‘ وہی جماعت عوامی نظروں میں مقبول ہو گی جو حقیقی معنوں میں عوامی ترجیحات کا خیال رکھے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved