یہودیوں کی اسلام دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ان کی صفاتِ رذائل کا تذکرہ قرآنِ مجید کے کئی مقامات پر آیا ہے۔ آنحضورﷺ کی زندگی میں انہوں نے ہمیشہ چراغِ نبوت گل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ آج بھی یہ چراغِ مصطفوی سے برسرپیکار ہیں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ یہودیوں کے درمیان کچھ اہلِ حق آنحضورﷺ کے دور میں بھی موجود تھے اور آج تک موجود رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت کا تذکرہ ذیل کی سطور میں نذرِقارئین کیا جا رہا ہے۔
آنحضورﷺمکہ سے ہجرت کرکے قبا میں پہنچے تو اہلِ ایمان نے بے پناہ خوشی منائی۔ اس کے برعکس اہلِ کتاب بہت تلملائے کہ بنواسماعیل میں مبعوث ہونے والا نبی مکہ سے ہجرت کرکے ان کے پاس مدینہ آگیا ہے۔ وہ آنحضورﷺکی عداوت میں انگاروں پر لوٹ رہے تھے۔ یہ بدبخت جانتے تھے کہ آپﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں بلکہ قرآن کے الفاظ میں‘ وہ انہیں یوں پہچانتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں‘ اس کے باوجود شدید مخالفت اور عناد ان کے خبثِ باطن ہی کا غماز ہے۔ احکامِ الٰہی سے مسلسل روگردانی اور اللہ کے نبیوں کو قتل کرنے جیسے شنیع جرائم کی وجہ سے ان اہلِ کتاب کے دلوں پر ایسا زنگ چڑھ گیا تھا اور ان کی عقل یوں ماری گئی تھی کہ واضح حقائق کا انکار کرتے ہوئے وہ ذرّہ برابر شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان کے ذہنوں سے خوفِ خدا مکمل طور پر نکل چکا تھا اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی تھی۔
ان لوگوں کی ان جملہ رذیل صفات اور سفلی حرکات کے باجود ان کی صفوں میں کہیں نہ کہیں خیر کی کوئی چنگاری اور نور کی کرن موجود تھی۔ قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ سب ایک جیسے نہیں ہیں‘ ان میں بھی کچھ لوگ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے اور حق بات کا اقرار کرتے ہیں۔ انہی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک‘ یہودیوں کے قبیلے بنوقینقاع کے مشہور عالم حضرت عبداللہ بن سلامؓ تھے۔ ان کی شخصیت بلاشبہ بہت پُرکشش اور عظمت کے بلند مقام پر فائز نظر آتی ہے۔
قبولِ اسلام سے قبل عبداللہ بن سلام کا نام الحصین بن سلام بن الحارث تھا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کی آمد کی خبر اس وقت سنی جب آپﷺ قبا میں پہنچے۔ میں اپنے باغ میں کھجور کے ایک درخت پر چڑھا‘ اس کی کانٹ چھانٹ کررہا تھا کہ اچانک کسی نے کہا: محمد مدینہ پہنچ گئے ہیں اور وہ قبا کی بستی میں بنو عمرو بن عوف کے محلے میں تشریف فرما ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی میں نے کھجور کے اوپر سے اللہ کی کبریائی کا نعرہ بلند کیا۔ اس وقت میری پھوپھی خالدہ بنت حارث کھجور کے سائے میں بیٹھی تھیں۔ جب انہوں نے میری تکبیر سنی تو کہنے لگی: اللہ تیرا ستیاناس کرے ۔ خدا کی قسم! اگر موسیٰ بن عمران علیہ السلام بھی تشریف لے آتے تب بھی تُواتنا خوش نہ ہوتا۔ میں نے کہا: پھوپھی جان! جو تشریف لائے ہیں خدا کی قسم وہ موسیٰ بن عمران کے بھائی ہیں اور انہی کے دین پر ہیں۔ وہی پیغام لے کرآئے ہیں جو موسیٰ بن عمران لائے تھے۔ یہ سن کر وہ کہنے لگیں: اے میرے بھتیجے! کیا یہ وہ نبی ہے جس کے بارے میں ہم سنتے ہیں کہ وہ قیامت سے قبل آئے گا؟ میں نے کہا: جی ہاں‘ یہ وہی نبی ہے۔ اس پر انہوں نے کہا: ''اچھا ٹھیک ہے۔‘‘
میں آنحضورﷺکے بارے میں پوری طرح جانتا تھا اور مجھے مکمل یکسوئی تھی کہ وہ اسی دور میں آنے والے ہیں۔ جب انہوں نے مکہ میں اعلانِ نبوت کیا تو بھی میرے دل میں یقین تھا کہ یہ یقینا وہی نبی ہیں جن کی بشارت دی گئی ہے۔ تاہم میں نے ازراہِ حکمت اس موضوع پر کبھی کسی سے گفتگو یا بحث نہیں کی تھی بلکہ میں نے سکوت اختیار کیے رکھا۔ اس وجہ سے یہودی میرے خیالات سے بالکل بے خبر اور نابلد تھے۔ یوں میری کیفیت یہ تھی کہ میں ہر روز سوچتا کہ وہ نبی کھجوروں کی سرزمین کی طرف ہجرت کریں گے اور عین ممکن ہے کہ یہ یثرب ہی ہو۔ آج ان کی یثرب آمد پر میرے دل کی مراد پوری ہو گئی۔ آپﷺ کی آمد کی خبر سن کر میں فوراً درخت سے نیچے اترا اور تیار ہو کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
میں تو اپنے دل میں پہلے ہی سے مسلمان تھا‘ اب صرف اعلان کرنا باقی تھا۔ پھر بھی حکمت کے تحت میں نے سوچا کہ میں ابھی اپنے قبولِ اسلام کا اعلان نہیں کروں گا۔ میں اہلِ کتاب کا پول کھولنا چاہتا تھا تاکہ آنحضورﷺ ان کے بارے میں مطمئن اور یکسو ہو جائیں۔ جب آپﷺ کے چہرۂ انور پر میری پہلی نظر پڑی تو میں نے کہا: لیس الوجہ بوجہ کذّاب۔ یہ چہرہ کسی جھوٹے شخص کا چہرہ نہیں ہے۔ آنحضورﷺ پر اترنے والی وحی ربّانی کی تو اپنی ہی شان ہے۔ ظاہر ہے کہ خالق بے مثل ہے تو اس کا کلام بھی اسی کی طرح ہے۔ حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے جو سب سے پہلا کلام سنا وہ اتنا جامع اور دل میں اتر جانے والا تھا کہ سبحان اللہ! وہ معجزہ نما کلام یہ تھا: اَیُّہَاالنَّاسُ! اَفْشُوا السَّلَامَ وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ وصِلُوْا الْاَرْحَامَ وَصَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ‘ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِالسَّلَامِ۔ اے لوگو! آپس میں سلام کو عام کرو‘ (مستحقین‘ مہمانان اور احباب کو) کھانے کھلایا کرو‘ صِلہ رحمی کیا کرو‘ راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو اٹھ کر (تہجد کی) نماز پڑھا کرو‘ تم اس کے نتیجے میں سلامتی وعافیت کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ (ترمذی‘ مسنداحمد)
میں نے آنحضورﷺ سے پہلی ہی ملاقات میں عرض کیا: یارسول اللہﷺ! یہود بہت بدکردار قوم اور پست اخلاق لوگ ہیں۔ میں آپﷺ کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں‘ مگر ابھی اعلان نہیں کرتا۔ آپ یہودیوں کے سرداروں‘ علما اور مذہبی رہنماؤں کو بلا لیں۔ پھر ان سے میرے بارے میں ان کی رائے پوچھیں۔ مجھے اس دوران پردے کے پیچھے چھپا دیں۔ نبی اکرمﷺنے ایسا ہی کیا۔ جب یہود کے احبار سرداران آگئے تو ان لوگوں سے آپﷺ نے پوچھا کہ الحصین بن سلام کے بارے میں تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے دیکھا کہ الحصین بن سلام وہاں موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے سوال کے جواب میں کہا: وہ ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں‘ وہ ہمارے بہت بڑے مذہبی رہنما اور بہت بڑے عالم ہیں۔
جب یہودی یہ گواہی دے چکے تو میں پردے کے پیچھے سے نکل آیا اور میں نے کہا: اے معشر یہود! اللہ سے ڈرو اور یہ شخص جو پیغام لے کر آیا ہے اسے قبول کرلو۔ خدا کی قسم! تم بہت اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ تم ان کا تذکرہ ان کے نام اور صفات کے ساتھ تورات میں لکھا ہوا پاتے ہو۔ ''پس میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں‘ میں ان پر ایمان لاتا ہوں‘ ان کی تصدیق کرتا ہوں اور انہیں اچھی طرح پہچانتا ہوں‘‘۔ یہ سننا تھا کہ سب یہود یک زبان بول اٹھے: تم جھوٹے ہو‘ رذیل ابن رذیل ہو اور مجھے وہ جلی کٹی سنائیں کہ خدا کی پناہ۔ اب ان کمینے لوگوں کا دوغلاپن اظہرمن الشمس ہوچکا تھا۔
میں نے آنحضورﷺ سے عرض کیا: ''یارسول اللہﷺ! کیا میں نے آپﷺ کو بتا نہیں دیا تھا کہ یہ بہت گھٹیا لوگ ہیں۔ بغاوت اور جھوٹ کے علمبردار‘ اللہ کی نافرمانی اور حکم عدولی پر جری اور مصر‘‘۔ اللہ کی قدرت دیکھیے کہ انہی حذف ریزوں کے درمیان وہ لعل بدخشاں تھا جسے تاریخ اسلامی میں بے مثال بندۂ مومن ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت الحصین بن سلام کے قبولِ اسلام کے ساتھ ہی آنحضورﷺنے ان کا نام عبداللہ رکھ دیا۔ عبداللہ بن سلامؓ نے پوری زندگی اسلام کے غلبے کے لیے وقف کر دی۔ اپنے علم اور عمل دونوں سے باطل کا مقابلہ کیا‘ وہ عالم ہونے کے ساتھ بہت بہادر مجاہد بھی تھے۔ آنحضورﷺ سے کئی احادیث بھی آپؓ نے نقل کی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved