کبھی کبھی تو دل کرتا ہے کہ بندہ جیلوں میں پھرے‘ قیدیوں سے ملے۔ وہاں انسانی المیوں کی ہزاروں کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ پھر خود کو روک لیتا ہوں کہ اتنی دردناک کہانیاں سن کر آدمی کی اپنی زندگی کتنی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ وہاں کتنی کہانیاں آپ کی منتظر ہیں‘ لیکن ان کو اکٹھا کرنے کیلئے عظیم بنگالی ادیب رابندر ناتھ ٹیگور جیسا حوصلہ اور ہمت کہاں سے لائیں جس نے قریہ قریہ‘ نگر نگر گھوم کر بنگال کی کہانیاں اکٹھی کیں اور پھر ان شاندار کہانیوں کو امر کر دیا۔ یا مشہور انگریز رائٹر جیفری آرچر کی طرح دنیا بھر کا سفر کون کرے‘ جس نے اپنی شارٹ سٹوریز کی ایک کتاب میں لکھا تھا کہ یہ تمام کہانیاں سچی ہیں۔ ان کے سب کردار سچے ہیں۔ وہ جس ملک بھی گیا اور جہاں بھی لوگ ملے‘ وہ ان کی کہانیاں سنتا اور افسانوی ٹچ کے ساتھ لکھتا رہا۔ کیا شاندار کہانیاں ہیں اور کیا Twists ہیں ان کہانیوں میں۔ جیفری آرچر خود بھی کسی جرم میں کچھ عرصہ برطانوی جیل میں گزار چکا تھا۔
آئی جی جیل خانہ جات پنجاب نے بتایا کہ پنجاب کی جیلوں میں نو سو کے قریب بچے مختلف جرائم میں قید ہیں۔ جو حیران کن انکشاف انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ کئی بچے قتل کے الزامات میں بھی قید ہیں۔ یہ سن کر میں ایک لمحے کیلئے سُن ہوگیا کہ ایک دس‘ بارہ یا پندرہ‘ سولہ سال کا لڑکا کسی کو کیسے قتل کر سکتا ہے؟ اُس میں اتنا حوصلہ اور ہمت کہاں سے آ جاتی ہے کہ وہ کسی انسان کو گولی مار دے۔ پتا چلا کہ پنجاب میں ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کیلئے اکثر خاندان کے بڑے بچوں کے ذریعے مخالفین کو قتل کراتے ہیں۔ اس منطق کے پیچھے جواز یہ ہے کہ قانون کے تحت اس جرم پر بچوں کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔ زیادہ سے زیادہ چند برس کی قید ہوتی ہے‘ پھر وہ چھوٹ کر باہر آجاتے ہیں۔ مخالفین بھی یہ دیکھتے ہیں کہ جس نے قتل کیا ہے اسے پھانسی تو لگنے والی نہیں‘ زیادہ سے زیادہ چند برس قید ہو گی تو وہ راضی نامے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ راضی نہ بھی ہوں تو قتل کرنے والا بچہ کچھ عرصے بعد رہا ہو ہی جاتا ہے۔
یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے کس کے ذہن میں یہ خیال آیا ہوگا کہ اگر بچوں سے مخالفین کو قتل کرایا جائے تو کمال ہو جائے گا۔ دشمن کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور بندہ بھی پھانسی نہیں چڑھے گا۔ یقینا کسی وکیل نے یہ مشورہ اُس خاندان کو دیا ہوگا جو اپنے مقتول کا مقدمہ لے کر گئے ہوں گے کہ کن چکروں میں پڑ گئے ہو‘ دشمن مکاؤ اور کسی بچے سے گولی مروا دو‘ باقی میں سنبھال لوں گا۔ یقینا کسی بھی خاندان کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ کسی دس‘ پندرہ سالہ بچے کو پستول تھما کر مخالف کو گولی مروا دی جائے؟ یقینا اس پر پورے خاندان اور گھر میں کئی دن تک بحث ہوئی ہو گی۔ ہو سکتا ہے پورا گھرانہ اس بحث میں شامل ہوا ہو اور مشترکہ فیصلہ کیا گیا ہو کہ بدلہ لینے کا یہی سب سے بہتر طریقہ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ گھر کی خواتین کو اس بارے نہ بتایا گیا ہو‘ بچے کی ماں کو تو بالکل ہوا نہ لگنے دی گئی ہو۔اسے قتل کے بعد بتایا گیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ماں نے ہی اپنے بچے کو تیار کیا ہو کہ غیرت مند ہو تو باپ کے قتل کا بدلہ لو۔ دیہات میں اکثر مرد دشمنیوں کے فیصلے کرتے وقت خواتین کو اعتماد میں نہیں لیتے کیونکہ میرا مشاہدہ ہے کہ پرانی خاندانی دشمنیوں میں خواتین ہمیشہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ اپنے مردوں کو خون بہانے سے منع کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے اپنے گاؤں میں اگر مردوں کا جھگڑا ہو جاتا تو خواتین بھاگ کر اپنے اپنے مردوں کو کھینچ کر گھر واپس لے جاتی تھیں‘ یا انہیں گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتی تھیں۔ اگرچہ بعض خواتین بارے کہا جا سکتا ہے کہ وہ مردوں کو طعنے دے دے کر قتل کرا دیتی ہیں‘ لیکن عموماً خواتین کو علم ہے کہ اگر ان کے مردوں یا بچوں کو کچھ ہوگیا تو ان کی ساری زندگی عذاب بن کر رہ جائے گی۔ ان کا گھر کون چلائے گا‘ وہ بچوں کی دیکھ بھال کیسے کریں گی۔ انہیں یہ فکر مخالف خاندان کے بیوی بچوں کی بھی ہوتی تھی۔ خواتین بخوبی جانتی ہیں کہ مردوں کے چھوٹی موٹی لڑائیوں‘ جس میں سارا مسئلہ اونچے شملے یا پگ کا ہوتا تھا‘ اصل نقصان خواتین کا ہی ہوتا ہے‘ جو رُل جاتی ہیں۔ جن کا بندہ قتل ہو جائے وہ بھی رُل جاتے ہیں اور جن کا بندہ قتل کرے‘ وہ بھی کسی جوگے نہیں رہتے۔ اس دشمنی میں دونوں خاندان برباد ہو جاتے ہیں۔ مقتول کے وارث سب کچھ بیچ کر مہنگا وکیل کرتے ہیں تاکہ قاتل کو پھانسی لگوا سکیں۔ ادھر قاتل کے گھر والے بھی سب کچھ بیچ کر اس کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گھر کے جانور بیچنے سے شروع ہونے والا سلسلہ خواتین کے زیوارت سے ہوتا ہوا آخرکار زمین بیچنے پر ختم ہوتا ہے۔ اگر گاؤں کے کچھ لوگ کبھی صلح کرا دیں تو اکثر اوقات قاتل خاندان کو اپنی کسی بیٹی کا رشتہ اور زرعی زمین مقتول کے خاندان کو دینا پڑتی ہے۔ یوں غیرت‘ اَنا اور پگ کا ایشو ایک خاتون پر جا کر سیٹل ہوتا ہے۔ مردوں کی اس اَنا کا شکار اور وِکٹم ہمیشہ خاتون ہوتی ہے لہٰذا کوشش کی جاتی ہے کہ خواتین کو ان ایشوز بارے پتا نہ چلے۔
اس لیے ممکن ہے کہ ان بچوں کو خاندان کے بڑوں نے برین واش کر کے تیار کیا ہو۔ اسے منع کیا ہو کہ ماں یا دادی کو نہیں بتانا۔ بچوں کو اکثر باپ یا بھائی یا قریبی عزیز کا بدلہ لینے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ شروع میں بچہ ڈر جاتا ہو لیکن پھر خاندان کا کوئی بڑا‘ بھائی یا قریبی کزن اسے قتل کا بدلہ لینے کیلئے تیارکر رہا ہو اور تسلی دے رہا ہو کہ کچھ بھی نہیں ہو گا‘ ہم تمہیں چھڑا لیں گے‘ تو پھر وہ بچہ بھی بہادر ہو جاتا ہے۔ یوں اس بچے کو آسمان پر چڑھا کر پورا خاندان پستول ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔ بچہ بھی اپنے باپ یا بھائی کے قتل کی وجہ سے شدید جذباتی دباؤ کا شکار ہوتا ہے لہٰذا اسے لگتا ہے کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کر رہا۔ پھر لوگوں کے بزدلی کے طعنے بھی چین سے نہیں رہنے دیتے کہ دیکھو! بزدل بیٹا اپنے باپ کا بدلہ نہیں لے سکا۔ یوں خاندان کی مجبوری بن جاتی ہے کہ اگر خود کو بہادر ثابت کرنا اور گاؤں میں اونچی ناک کے ساتھ رہنا ہے تو پھر دشمن کو مٹانا ہوگا۔ اب یا تو خاندان کا بڑا ہمت کرے اور خود بدلہ لے لیکن اگر وہ جیل چلا گیا اورپھانسی چڑھ گیا تو پھر پیچھے کمائے گا کون اور گھر کیسے چلے گا۔ لیکن اگر کوئی ٹین ایجر بچہ قتل کرکے جیل چلا جائے تو وہ سب خود کو تسلی دیتے ہیں کہ کون سا پھانسی لگ رہا ہے‘ چند برس کی بات ہے۔ اس کے علاوہ باقی اولاد تو گھر میں ہے۔ ایک بیٹا نہ بھی رہا تو کیا‘ دشمن کا گھر تو اُجاڑ دیں گے۔ یوں دو مخالف خاندان ایک دوسرے کے لوگوں کو اپنے اپنے بچوں کے ذریعے قتل کراتے ہیں۔
ذرا تصور کریں ان لوگوں کی نفسیات بارے جو خود اپنے بچے کے ہاتھ میں گن تھما رہے ہیں تاکہ وہ اپنی اَنا کی تسکین کر سکیں۔ انسانی اَنا کتنی خوفناک چیز ہے جو آپ کو اپنے ہاتھوں سے اپنے بچے کو ایک ایسا قتل کرنے کیلئے بھیجنے پر آمادہ کر لیتی ہے جہاں وہ خود بھی مارا جا سکتا ہے۔ انسان کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو وہ ہمیشہ سے اپنی وحشی جبلتوں اور اَنا کے ہاتھوں شکست کھاتا چلا آیا ہے۔ بس لوگ ہمیں کمزور یا بزدل نہ سمجھیں‘ چاہے خاندان ہی کیوں نہ اُجڑ جائیں۔ جانور بھی اپنے بچوں کی حفاظت کرتے ہیں‘ وہ بھی اپنے بچوں کو یوں موت کے منہ میں نہیں دھکیلتے جیسے انسان دھکیل دیتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved