تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-07-2024

اس گلّے کی رکھوالی کون کرے گا؟

دنیا کو نئے نئے مسائل کا سامنا ہے اور ہم ہیں کہ ہمیں انہی پرانے مسائل کا سامنا ہے جو عشروں سے ہمیں لاحق ہیں اور ان کا حل ہونا یا بہتری آنا تو رہا ایک طرف‘ ہر گزرتے دن ان میں مزید خرابی پیدا ہو رہی ہے اور اس صورتحال میں کسی بہتری کی کوئی امید بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس ملک میں گزشتہ ایک عرصے سے صرف اور صرف ہائوسنگ سکیموں اور پراپرٹی کے کاروبار نے اپنے پائوں پھیلائے ہیں۔ جس کے پاس وافر دولت تھی اس نے کوئی ہائوسنگ سوسائٹی بنا لی‘ جس کے پاس اس سے تھوڑی کم لکشمی تھی اس نے پلازہ کھڑا کر لیا اور جس کے پاس فالتو پیسے کچھ مزید کم تھے‘ اس نے پلاٹ خرید کر اپنے پیسے بزعم خود کسی کاروبار میں لگا لیے۔
فی الوقت عالم یہ ہے کہ اس صنعتی طور پر کسی حد تک پسماندہ شہر ملتان میں پلازے کھمبوں کی طرح اُگے ہیں۔ نئے بننے والے پلازوں میں سے اکثر کی حالت یہ ہے کہ نیچے کی ایک دو منزلوں کے علاوہ اوپر والی باقی تمام منزلیں مکمل خالی پڑی ہیں بلکہ کئی پلازوں کی تو گرائونڈ فلور کی اکثر دکانیں بھی بند پڑی ہوئی ہیں لیکن فالتو دولت کا یہ عالم ہے کہ اب بھی شہر میں دھڑا دھڑ پلازے تعمیر ہو رہے ہیں۔ جن کے پاس پلازہ تعمیر کرنے کی استطاعت نہیں وہ اپنی برلب سڑک رہائشگاہ کو دکان میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ غرض مارکیٹوں‘ پلازوں اور دکانوں کا ایک جنگل ہے جو ہر روز اچھے بھلے رہائشی علاقوں کو کھائے جا رہا ہے۔ ہمارے عقل سے فارغ کئی نام نہاد معاشی ماہرین کے نزدیک یہ ملک کی اقتصادی ترقی کی علامت ہے کہ دھڑا دھڑ دکانیں بن رہی ہیں۔ چار پانچ ماہ قبل ایک مجبوری آن پڑی تو ملتان شہر سے تھوڑے فاصلے پر اڈہ بوسن جانے کا اتفاق ہوا۔ شہر سے قریب بیس کلو میٹر دور اس عام سے قصباتی اڈے پر بھی سو کے لگ بھگ دکانیں ہیں جن میں سے آدھی دکانیں خالی پڑی ہیں۔جس دفتر میں کام تھا وہ سڑک سے تھوڑا ہٹ کر‘ ڈیڑھ دو سو گز اندر تھا۔ اس دفتر کو جانے والا راستہ بالکل کچا تھا اور بیس پچیس فٹ چوڑی گلی اندر جا رہی تھی۔ جونہی میں سڑک سے اُتر کر اندر گلی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ دائیں طرف ایک قطار نو تعمیر شدہ دکانوں کی ہے یہ دس پندرہ دکانیں تھیں اور بننے کے بعد شٹر وغیرہ لگانے کا تردد کرنے کے بجائے ان کو اینٹوں کی کچی چنائی کرکے فی الحال بند کردیا گیا تھا۔ ان دکانوں کو تعمیر کرنے والے نے اپنے تئیں کسی روشن مستقبل کی امید میں یہ سرمایہ کاری کی تھی۔ اس جگہ پر اگلے پندرہ بیس سال تک بھی کسی ایسے معاشی انقلاب کا امکان دکھائی نہیں دے رہا تھا جس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مردہ سرمایہ کاری کی گئی تھی مگر ایک بھیڑ چال ہے جس نے اس ملک میں فالتو پیسے کو ہائوسنگ سکیموں‘ پلازوں‘ دکانوں اور پلاٹوں میں انویسٹ کرنے کا فیشن متعارف کرا رکھا ہے۔ اس کاروبار کے علاوہ (اگر یہ واقعی کاروبار ہے تو) ملک میں ہر طرف معاشی تنزلی ہے‘ بیروزگاری ہے‘ مہنگائی ہے اور بے چینی و بے اطمینانی ہے۔
اس ملک میں نہ کوئی اربن پلاننگ ہے اور نہ ہی کوئی قانون۔ معاف کیجئے گا! قانون تو ہے مگر اس کی کسمپرسی اور بیچارگی کا یہ عالم ہے کہ نہ کوئی اس پر عمل کرتا ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری محکمہ یا اہلکار اس کو لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تعمیر کرنے والوں اور سرکاری محکمے کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے سارا کام چل رہا ہے اور قومی خزانے پر کروڑوں‘ اربوں روپے کا بوجھ۔ یہ سرکاری ادارے‘ جن کے قیام کا اصل مقصد ہی شہری علاقوں میں قواعد و ضوابط کے تحت تعمیرات اور ان قواعد کے تحت ہونے والی باضابطہ تعمیرات کے ثمرات سے شہریوں کو سہولت اور آسانی دینا تھا‘ شہریوں کے لیے باعث زحمت و آزار بن کر رہ گئے ہیں۔ سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ سرکار کو فیس ادا کرکے کمرشلائزیشن وغیرہ کرانے کے چکروں میں پڑنے کے بجائے ترقیاتی ادارے کے افسر سے مک مکا کرکے بلااجازت تعمیر کر لی جائے اور پھر تھوڑا سا جرمانہ ادا کرکے سب کچھ جائز کرا لیا جائے۔ اگر اس میں کوئی مشکل یا دِقت پیش آئے تو پھر عدالت سے مدد لی جائے اور حکم امتناعی کے امرت دھارے سے فیض یاب ہوتے ہوئے مزے کیے جائیں۔
ساری کی ساری گلگشت کالونی آہستہ آہستہ ایک مارکیٹ بن گئی ہے۔ اب صرف ایک دو سڑکیں ہیں جو بچی ہوئی ہیں مگر کب تک؟ ایک آدھ سال میں یہ رہائشی سڑکیں بھی نمک کی کان میں نمک بن جائیں گی۔ سفید پوش شہریوں اور معزز سرکاری ملازمین کی یہ کالونی فی الوقت ملتان کا سب سے وسیع کمرشل پارک بن چکی ہے۔ بوسن روڈ کی طرف‘ اس کالونی کی اے بلاک والی بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنے والوں نے کافی عرصہ تک اپنی رہائش گاہوں کو اس سیلاب سے بچانے کی کوشش کی مگر اس دوران برلب سڑک واقع ان کوٹھیوں کی زمین کی قیمت میں اتنا اضافہ ہو گیا کہ فی مرلہ آفر ہونے والی قیمت نے بہت سے معززین کی رال ٹپکانے میں بہت بڑا کردار سرانجام دیا اور کوٹھیوں کی یہ قطار بھی اسی زمرے میں آ گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مین بوسن روڈ پر واقع ان کوٹھیوں کی فی مرلہ قیمت پچھتر لاکھ کو عبور کر چکی ہے۔ میرے ایک پرانے دوست کی کئی کنال پر مشتمل کوٹھی جو یہیں واقع ہے‘ وہ اس کیلئے ایک کروڑ روپے فی مرلہ کی آفر کا منتظر ہے۔ گمان ہے کسی روز اس کا یہ انتظار ختم ہو جائے گا اور وہ اپنی کوٹھی فروخت کرکے دوبارہ باہر سدھار جائے گا۔ عالم یہ ہے کہ ایک طرف اس ملک میں لوگوں کو کھانے کیلئے پیٹ بھر کر روٹی میسر نہیں جبکہ دوسری طرف لوگوں نے ہائوسنگ سوسائٹیوں میں چالیس چالیس پلاٹ خرید کر نفع پر فروخت کرنے کیلئے رکھ چھوڑے ہیں۔ ایک ایک کروڑ روپے مرلہ سے زمینوں کے سودے ہو رہے ہیں۔ اربوں روپے کے پلازے کھڑے ہو رہے ہیں اور اس ساری مردہ اقتصادی سرگرمی سے ملکی معیشت پر رتی برابر مثبت اثر نہیں پڑ رہا۔
بجلی کے بلوں کا یہ عالم ہے کہ اب یہ عام آمدنی والے پاکستانی کیلئے بھی ناقابلِ ادائیگی ہو چکے ہیں۔ عام آمدنی والے سے میری مراد ستر‘ اسی ہزار روپے ماہانہ آمدنی والی کلاس ہے۔ اس سے کم آمدنی والوں کے بارے میں تو حیرانی ہوتی ہے کہ وہ آخر اب تک زندہ کیسے ہیں۔ بجلی کی قیمت نے صنعتی پیداواری لاگت کو اتنا زیادہ کر دیا ہے کہ اس قیمت پر استعمال شدہ بجلی سے تیار ہونے والی کوئی بھی شے اب عالمی منڈی میں اپنے مد مقابل دوسرے ممالک کی پیداوار سے مقابلہ ہی نہیں کر سکتی۔ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں جبکہ اس ملک کی اقتصادی حالت میں کسی قسم کی بہتری کی صرف دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ملک کی زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو اور دوسری یہ کہ ملکی برآمدات کم از کم دوگنی کی جائیں۔ بصورتِ دیگر اس ملک کا ضروری خرچہ چلانا بھی ناممکن ہو چکا ہے اور موجودہ معاشی صورتحال کو سامنے رکھیں تو آئندہ ملنے والے قرضوں کا حصول بھی مشکل ہو رہا ہے اور ان قرضوں سے وابستہ شرائط اس ملک کیلئے مزید تباہ کن ثابت ہوں گی۔
آئی پی پیز سے وابستہ کہانیاں‘ جن میں سرفہرست کپیسٹی چارجز والا معاملہ ہے‘ کافی عرصے سے زیرِ گردش تھیں لیکن وہی بات کہ سرکار کچھ بتاتی نہیں اور سوشل میڈیا کی کہانیوں میں حقیقت کتنی ہے‘ یہ کسی کو علم نہیں اس لیے دل مان بھی جائے تو دماغ سوشل میڈیا پر بھروسا کرنے سے باز رکھتا ہے‘ لیکن اب جو حقائق سامنے آ رہے ہیں وہ کافی ہوشربا ہیں۔ گوہر اعجاز نے جو اعداد و شمار دیے ہیں وہ گھر کے بھیدی کے انکشافات ہیں۔ گزشتہ نگران حکومت میں سات ماہ کے لگ بھگ نگران وفاقی وزیر برائے صنعت و تجارت و پیداوار رہنے والے گوہر اعجاز نے کپیسٹی چارجز کے حوالے سے جو بم پھوڑا ہے وہ مصدقہ بھی ہے اور چشم کشا بھی۔ اس ملک کو معاشی طور پر لوٹنے والوں میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو اس ملک کی معاشی صورتحال کو درست کرنے کے دعویدار ہی نہیں بلکہ ذمہ داروں میں بھی شامل ہیں۔ جب چرواہا ہی بھیڑیں کھانی شروع کر دے تو پھر ایسے گلے کی رکھوالی بھلا کہاں ممکن ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved