طبی اور سماجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی کا بم پھٹنے والا ہے‘ اسے اگر فی الفور کنٹرول نہ کیا گیا تو بہت بڑی تباہی ہو گی۔ بات تو بالکل درست ہے‘ اگر کوئی سمجھے تو۔ یہ کوئی پیچیدہ نہیں بلکہ بالکل سیدھا سادہ معاملہ ہے۔ اگر روٹیاں پانچ ہوں اور کھانے والے تین تو سب اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں لیکن اگر روٹیاں پانچ ہی رہیں مگر کھانے والے بیس ہو جائیں تو ظاہر ہے کہ ایک ایک‘ دو دو نوالے تو شاید سب کو مل جائیں لیکن پیٹ کسی کا بھی نہیں بھر سکے گا۔ کم وسائل میں گنجان آبادی نہ صرف ملک اور وہاں برسرِ اقتدار حکومت کے لیے ایک بڑے دبائو کا باعث ہوتی ہے بلکہ عوام بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ کیا یہ بات شرمندہ کر دینے والی نہیں کہ ہم آبادی تو مسلسل بڑھاتے چلے جا رہے ہیں لیکن دنیا کا ہر وہ آٹھواں بچہ جو سکول نہیں جاتا‘ اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ طبی اور سماجی ماہرین نے جو کچھ کہا‘ ادارۂ شماریات نے اس کی گواہی دی ہے‘ تائید کی ہے۔ ادارہ ہٰذا نے چند روز پہلے ریلیز کی گئی ملک کی ساتویں لیکن پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کی تفصیلی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان کی کل آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 90 ہزار ہو چکی ہے‘ جس میں 51.5 فیصد مرد اور 48.5 فیصد خواتین ہیں۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بدستور پانچواں بڑا ملک ہے‘ جہاں دیہی آبادی کا تناسب 61 فیصد ہے جبکہ شہری آبادی 39 فیصد ہے۔ آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح 2.55 فیصد ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اور اگر یہ شرح اِسی طرح برقرار رہی تو 2050ء تک پاکستان کی آبادی دُگنا ہو جائے گی۔ ادارۂ شماریات کی یہ رپورٹ ایک ہمہ جہت رپورٹ ہے جو جنس‘ عمر‘ قومیت‘ زبان‘ ازدواجی حیثیت‘ تعلیم‘ معذوری‘ شہری اور دیہی آبادی کے تناسب‘ ہائوسنگ‘ پانی اور حفظانِ صحت سے متعلق قومی‘ صوبائی‘ ضلعی اور تحصیل سطح کی معلومات کا احاطہ کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر آبادی اس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں تو اس کی رفتار روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی جا رہی؟ نوجوان نسل کو کیوں نہیں تعلیم دی جاتی کہ کتنی آبادی بڑھانے سے وہ اچھا اور کامیاب کنبہ بنا سکتے اور اپنے بچوں کی اچھے طریقے سے نگہداشت کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہر درجے کی تعلیم کے نصاب میں مضامین کیوں شامل نہیں کیے جاتے؟ یہ کون نہیں جانتا کہ ایک عرصے تک چین دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک رہا۔ تب وہ معاشی طور پر غریب تھا‘ پس ماندہ تھا اور غیر ترقی یافتہ بھی۔ پھر چین میں آبادی کی بڑھتی رفتار کو روکنے کے لیے 35 سال تک 'ون چائلڈ‘ پالیسی نافذ رہی جس کے تحت فی خاندان ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین کی آبادی بڑھنے کی رفتار کم ہو گئی اور آج چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور بھارت سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا ہے۔ بہرکیف‘ جب حالات کچھ قابو میں آ گئے تو چین نے اپنی ون چائلڈ پالیسی میں تبدیلی کی۔ پانچ سال قبل چینی حکومت نے جوڑوں کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی۔ جب حالات کچھ مزید بہتر ہو گئے تو اس پالیسی میں مزید نرمی کی گئی اور حال ہی میں چین میں شادی شدہ جوڑوں کو تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ پاکستان میں پرویز ہود بھائی کے نام سے کون ناواقف ہو گا۔ وہ طبیعیات کے معروف ماہر ہیں۔ آبادی میں اضافے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اگر آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو 150 سال بعد پاکستان میں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں رہے گی۔
آبادی کا تیزی سے بڑھنا محض پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ حقیقتاً یہ تیسری دنیا کے کئی ممالک کا مسئلہ ہے اور ان ممالک کی بڑھتی آبادی عالمی سطح پر بھی آبادی میں تیزی سے اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1800ء میں دنیا کی آبادی ایک ارب نفوس پر مشتمل تھی جو 200 برسوں بعد‘ 2000ء میں بڑھ کر سات ارب سے بھی زائد ہو گئی۔ دنیا کا آٹھ ارب واں بچہ نومبر 2022ء میں پیدا ہوا اور آج دنیا کی آبادی 8 ارب 19 کروڑ 87 لاکھ 6 ہزار 189 ہو چکی ہے‘ جس میں ہر سیکنڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ آج یعنی 2024ء میں دنیا بھر میں ہر سیکنڈ میں اوسطاً 4.3 افراد کی پیدائش اور دو لوگوں کی موت ہو رہی ہے‘ یعنی اموات کے باوجود 2.3 افراد فی سیکنڈ کے حساب سے آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اب دنیا کی آبادی کو کرۂ ارض پر پائے جانے والے مجموعی وسائل کے کافی یا ناکافی ہونے کے تناظر میں دیکھا جانے لگا ہے اور یہ سوال بار بار دہرایا جا رہا ہے کہ جس تیزی سے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے‘ اس کا اخیر کیا ہو گا‘ یعنی دنیا کتنے افراد کی رہائش اور خوراک کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہے؟ دنیا کی آبادی کی حد کیا ہے کہ آبادی اس حد سے زیادہ ہو جائے تو دنیا اور اس کے وسائل کی بس ہو جائے۔ یہ سوال بھی بار بار پوچھا جا رہا ہے کہ آیا دنیا کی آبادی کبھی 10 ارب کا ہندسہ پار کر سکے گی اور اگر پار کر گئی تو دستیاب وسائل کی تقسیم کا کیا عالم ہو گا؟ جیرڈ ڈائمنڈ یاد آتے ہیں‘ اپنی تصنیف Collapse: How Societies Choose to Fail or Succeed میں لکھتے ہیں کہ جب کوئی آبادی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتی ہے تو وہ وسائل سکڑتے سکڑتے معدوم ہو جاتے ہیں اور نتیجہ اس تہذیب یا آبادی کی معدومیت کی صورت میں نکلتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کی رفتار کو کم کرنے کے لیے اتنے ٹھوس اقدامات نہیں ہوئے جتنا گمبھیر یہ مسئلہ ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کا ایک پورا ادارہ ہوا کرتا تھا جس کے تحت 'بچے دو ہی اچھے‘ کا سلوگن بلند کیا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس ادارے کے تحت ایک رسالہ بھی شائع ہوتا تھا جس کا عنوان 'سکھی گھر‘ تھا۔ اس رسالے میں خاندان کو چھوٹا اور محدود رکھنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا تھا۔ بہبودِ آبادی کے ادارے کے تحت ریڈیو پاکستان پر 'سکھی گھر‘ کے عنوان سے ایک پروگرام بھی ہر ہفتے نشر کیا جاتا تھا۔ اس رسالے میں ملک کے نامور ادیبوں اور مصنفین کی نگارشات شائع ہوتی تھیں۔ معلوم نہیں کہ اب یہ ادارہ ہے یا نہیں اور خاندان کو دو بچوں تک محدود رکھنے کے سلسلے میں حکومتی سطح پر اب کچھ ہو بھی رہا ہے یا نہیں‘ لیکن میں اس بات کا قائل ضرور ہوں کہ جو بھی ہو‘ معیاری ہونا چاہیے۔ چھ ننگ دھڑنگ‘ بھوکے اور غیر تعلیم یافتہ بچے پیدا کرنے کے بجائے اگر دو یا تین پڑھے لکھے اور باشعور بچے ہوں اور ان کی اچھی پرورش کر کے انہیں قوم کا ایک کارآمد فرد بنایا جائے تو یقینا اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔
وفاقی وزارتِ تعلیم کی امسال جنوری میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دو کروڑ 62 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ برس اپریل تک یہ تعداد دو کروڑ 30 لاکھ تھی‘ یعنی اس تعداد میں کمی ہونے کے بجائے صرف آٹھ ماہ کے دوران مزید 32 لاکھ بچے تعلیم سے دور ہو گئے۔ اقوامِ متحدہ کے چلڈرن ایمرجنسی فنڈ کے مطابق سکول نہ جانے والے بچوں کی عالمی فہرست میں پاکستان سب سے اوپر ہے۔ تعلیم و تربیت سے محروم یہ گلیوں میں پھرنے والے بچے بڑے ہو کر جرائم پیشہ کے سوا اور کیا بن سکتے ہیں؟ اگر ملک کو درپیش معاشی مسائل حل کرنے ہیں‘ اگر مہنگائی پر قابو پانا ہے‘ اگر پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک بنانا ہے تو آبادی کے اس بم کو پھٹنے سے پیشتر ناکارہ بنانا ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved