تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     25-07-2024

ٹرمپ ؟ چار ماہ بعد ؟

ایک ڈرامائی قدم کے ذریعے امریکی صدر جو بائیڈن نے وہی کیا جس کی وہ پہلے تردید کرتے چلے آ رہے تھے۔ وہ صدارتی انتخابات کی دوڑ سے دستبردار ہوکر ایک طرف بیٹھ گئے ہیں‘ اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کے مدمقابل نہیں ہوں گے۔ یہ امریکی انتخابات کیلئے ایک اہم خبر ہے اور شاید اسی خبر کے تحت مستقبل کے امریکی صدر کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ جوبائیڈن انتخابی تجزیے میں ٹرمپ سے تین‘ چار فیصد پیچھے تھے۔ اب ڈیمو کریٹس کی صدارتی امیدوار یقینا کہیں پیچھے ہو گی۔ جو بائیڈن نے نائب صدر کملا ہیرس کو نیا صدارتی امیدوار قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا کہ انہیں نائب صدر مقرر کرنا ان کا بہترین فیصلہ تھا۔ تاہم ڈیمو کریٹس نے ابھی اپنے نئے صدارتی امیدوار کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا۔ یوں لگتا ہے کہ بائیڈن نے ڈیمو کریٹس فیصلہ سازوں سے مشورے کے بغیر دستبرداری اور نئے امیدوار کا اعلان نہیں کیا ہو گا‘ انہیں پارٹی کی تائید حاصل رہی ہو گی۔ کملا ہیرس نے کہا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی میں صدارتی امیدوا ر کے لیے اپنی نامزدگی میں انہوں نے کافی حمایت حاصل کر لی ہے‘ اور اب صرف رسمی اعلان کا انتظار ہے‘ تاہم جب تک ڈیمو کریٹس باقاعدہ اعلان نہیں کرتے‘ انہیں صدارتی امیدوار نہیں کہا جا سکتا۔
دو گراوٹیں بالکل سامنے نظر آ رہی تھیں۔ ایک تو جو بائیڈن کی گرتی ہوئی مقبولیت اور بہت سے حلقوں میں ان کے لیے ناپسندیدگی۔ دوسری اُن کی گرتی ہوئی صحت۔ جہاں تک بائیڈن کے غیر مقبول ہونے کی بات ہے‘ اسرائیل کی پشت پناہی اور غزہ کے بے گناہوں کا خون اس کی بہت بڑی وجہ ہے‘ جس کی وجہ سے امریکہ بھی دنیا بھر میں بدنام ہوا اور جو بائیڈن بھی۔ عرب امریکیوں اور دیگر امریکی مسلمانوں کی بائیڈن سے نفرت کی حد تک پہنچی ہوئی ناپسندیدگی چھپی ہوئی نہیں۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ منصف مزاج غیر مسلم امریکی بھی سراپا احتجاج بنے رہے۔ یقینا اس کا خمیازہ ڈیمو کریٹس کے اگلے صدارتی امیدوار کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ امریکی ووٹرز کے علاوہ بھی دنیا بھر میں بائیڈن انتظامیہ پر کڑی تنقید ہوتی رہی۔ 83 سالہ جو بائیڈن کے بارے میں یہی تاثر تھا کہ وہ اگر 2024ء کا الیکشن جیت بھی جائیں تو شاید اس عمر میں زیادہ کام کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ کملا ہیرس پر بھی یہ الزام ہے کہ انہوں نے بائیڈن کی خراب ذہنی صحت سے متعلق باتیں چھپائے رکھیں۔ ویسے تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس وقت 78 سال کے ہیں لیکن بائیڈن سے چار‘ پانچ سال کم عمر ہونے کے باوصف ان کی صحت بہت بہتر ہے۔ وہ حیرت انگیز طو رپر تمام مقدمات کا سامنا کرکے نکل آئے ہیں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ سمیت مقتدر حلقوں کی ناپسندیدگی کے باوجود عوامی سطح پر مقبول ہیں۔
ڈیمو کریٹس کے سامنے صدارتی امیدوار کا انتخاب بڑا چیلنج ہے۔ ذہن میں رکھیے کہ 19 اگست کو ڈیمو کریٹس نیشنل کنونشن میں مندوبین صدارتی امیدوار کے لیے اپنے ووٹ ڈالیں گے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا ڈیمو کریٹس کیلئے ہیلری کلنٹن ایک بہتر نام ثابت نہیں ہوگا؟ وہ خاتونِ اول کے طور پر دس سال وائٹ ہائوس میں گزار چکی ہیں اور اس کے بعد اوباما کی سیکرٹری آف سٹیٹ کے طور پر بھی نمایاں رہیں۔ 2021ء میں ڈیمو کریٹس کی جانب سے وہی صدارتی امیدوار تھیں۔ ہیلری کلنٹن دنیا بھر میں اپنی پہچان رکھتی ہیں اور ٹرمپ کے مقابلے میں بہتر امیدوار ثابت ہو سکتی ہیں۔ لیکن اسی دوران بل کلنٹن کی طرف سے 'ایکس‘ پر کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان سامنے آگیا۔ ہیلری کلنٹن کے صدارتی امیدوار نہ بننے کی وجہ ذاتی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ ٹرمپ سے ایک بار صدارتی مقابلہ ہار چکی ہیں اور ممکن ہے پارٹی نے انہیں دوبارہ نامزد کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔ اسی طرح سپیکر نینسی پلوسی بھی‘ جو ممکنہ امیدوار ہو سکتی تھیں‘ کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر چکی ہیں۔ تاہم کچھ اور ممکنہ امیدواروں کے نام بھی لیے جا رہے ہیں‘ جیسے پنسلوینیا کے گورنر Josh Shapiro‘ کینٹیکی کے گورنر Andy Beshear‘ ایریزونا کے سینیٹر Mark Kelly‘ نارتھ کیرولینا کے گورنر Roy Cooper اور مشی گن کی گورنر Gretchen Whitmer وغیرہ۔ ایسے نام دس سے زیادہ ہیں لیکن وائٹ ہائوس کا عملی تجربہ‘ امریکہ میں شہرت اور عالمی سطح پر پہچان جیسے بہت سے عوامل ہیں جن میں کملا ہیرس ان سب سے آگے ہیں۔
کملا ہیرس کے نام کے ساتھ بہت سے مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بائیڈن انتظامیہ کی کھلی اسرائیلی پشت پناہی اور اس پر شدید احتجاج کے اثرات کملا ہیرس پر بھی پڑیں گے کیونکہ وہ نائب صدر تھیں اور ذمہ داری سے بچ نہیں سکتیں۔ بات صرف انتظامیہ ہی کی نہیں‘ ڈیمو کریٹس کو بھی اسرائیلی جارحیت کی بڑی قیمت چکانا پڑی ہے۔ ڈیمو کریٹ پارٹی‘ کلنٹن اور اوباما سمیت جس کے صدر مقبول ترین رہے‘ اس وقت غیر مقبول جماعت ہے۔ امریکی صدور کی طرف سے اسرائیل نوازی کوئی نئی بات نہیں لیکن غزہ میں اسرائیل کی طرف سے تیس ہزار سے زیادہ مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے قتل عام میں کھلی امریکی حمایت اس معاملے کو الگ حیثیت دے دیتی ہے۔ کملا ہیرس اس تمام عرصے میں مسلسل اسرائیلی 'حقِ دفاع‘ کی بھرپور حمایت کرتی رہیں‘ تاہم کچھ بیانات سیز فائر کے حق میں بھی دیے مگر ایک عام آدمی کی نظر میں بائیڈن اور کملا ہیرس میں اس پالیسی کے حوالے سے کوئی فرق نہیں۔ دوسری طرف برطانوی اخبار گارڈین میں 23 جولائی کو Lilly Greenberg Call کا ایک آرٹیکل شائع ہوا۔ لِلی گرینبرگ پہلی یہودی نژاد امریکی ایکٹوسٹ ہیں جو امریکی وزارتِ داخلہ میں تعینات تھیں اور جنہوں نے بائیڈن کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا۔وہ لکھتی ہیں کہ میں کملا ہیرس کے ساتھ کام کر چکی ہوں اور جانتی ہوں کہ وہ بائیڈن کو بہت سے اقدامات سے روکتی رہی تھیں‘ لیکن بائیڈن انتظامیہ نے ان کی ایک نہیں سنی۔ ان کی توقع ہے کہ وہ بطور صدر امریکہ کی اسرائیل پالیسی پر نظرثانی کریں گی۔ لیکن کملا ہیرس کا عمومی طرزِ عمل اس آرٹیکل کی تائید نہیں کرتا۔ اگر وہ برسرِ اقتدار آئیں تو اس حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیں ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس صورتحال میں پریشان نظر آتا ہے اور بائیڈن کی دستبرداری کے بعد وہ تمام مصروفیات چھوڑ کر امریکہ چلا گیا ہے‘ جہاں کملا ہیرس سے اس کی ملاقات متوقع ہے۔ اس وقت بڑا سوال یہی ہے کہ کیا کملا ہیرس ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے سکتی ہیں؟ ایک جملے میں تو یہی تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی انقلابی تبدیلی نہ ہوئی تو ڈونلڈ ٹرمپ ہی اگلے امریکی صدر ہوں گے۔ کملا ہیرس پہلی سیاہ فام نائب امریکی صدر ہونے کا منفرد اعزاز پہلے ہی حاصل کر چکی ہیں۔ بھارتی نژاد ماں اور جمیکن باپ کے گھر پیدا ہونے والی 60 سالہ کملا شادی شدہ لیکن بے اولاد ہیں۔ قانون دان ہیں اور کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں۔ بطور نائب صدر وہ زیادہ نمایاں نہیں رہیں اور زیادہ تر پس منظر میں کام کرتی رہیں۔ کیا وہ ٹرمپ کے مقابل جیت سکیں گی؟ یہی سب سے بڑا سوال ہے جو اس وقت ڈیمو کریٹس کے سامنے ہے۔ اکانومسٹ کے سروے کے مطابق ٹرمپ؍ بائیڈن مقابلے میں ٹرمپ 43؍ 41 کے تناسب سے جیت رہے تھے‘ جبکہ نئے سروے میں کملا ہیرس کو ٹرمپ کے مقابلے میں 44؍ 42 کے تناسب سے برتری ملی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ دونوں امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔ ڈیمو کریٹس کو امید ہے کہ سیاہ فام ووٹ کملا ہیرس کے حق میں جائے گا‘ جو صدر بائیڈن کے حق میں نہیں تھا۔ میکسیکو بارڈر سے غیر قانونی تارکین وطن اور امیگریشن کے معاملات ٹرمپ کے کمزور پوائنٹ سمجھے جاتے ہیں۔ اہم بات یہ کہ کملا ہیرس کی شخصیت میں وہ عوامیت نہیں پائی جاتی جو ٹرمپ کے مخالف امیدوار میں ہونی چاہیے۔
فی الحال ایک جملے میں یہی تجزیہ ہے کہ اگر کوئی انقلابی تبدیلی نہ ہوئی تو ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہائوس میں ہوں گے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved