پس مصنوعی ذہانت (AI) ایک حقیقت ہے‘ خواستہ وناخواستہ سب کو اس سے استفادہ کرنا ہو گا‘ لیکن اسے کاملیت تک پہنچنے کیلئے وقت درکار ہے‘ کیونکہ بعض حضرات نے کسی کا مصنوعی ذہانت کے ذریعے پروفائل نکالا تو اس میں سب کچھ مِن وعَن تازہ ترین حقائق کے مطابق نہیں تھا۔ اسلامی عقیدہ یہ ہے: تخلیق (پیدا کرنا)‘ اِحیاء (حیات عطا کرنا) اور اِمَاتَت (حیات کو سلب کرنا) اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے‘ جبکہ سائنسدان کائنات کے سربستہ رازوں کو دریافت (Discover & Explore) کرتا ہے۔ الغرض درحقیقت سائنسدان خالق‘ مُحیِیْ اور مُمِیْت نہیں ہیں‘ بعض اوقات انسانوں کیلئے یہ الفاظ مَجازاً بولے جاتے ہیں۔
انسان اور مصنوعی ذہانت‘ ایک مضبوط تعلق: آج کلArtificial Intellegence کی تیز رفتار ترقی سے یہ بحث عام ہو گئی ہے کہ کیا AI انسانوں کی جگہ لے لی گی‘ گزشتہ کالم میں ہم نے AI کے منفی پہلوئوں پر گفتگو کی تھی‘ مگر ڈاکٹر محمد معظم فراز سیفی مصنوعی ذہانت کو مثبت انداز میں لیتے ہوئے کہتے ہیں: کیا انسان نے کبھی سوچا تھا کہ ایک مشین اس سے بات کر سکتی ہے‘ اس کی ذاتی ضروریات کو سمجھ سکتی ہے‘ بلکہ اس کی مدد بھی کر سکتی ہے۔ یہ سائنسی فلموں کا تصور نہیں‘ بلکہ ہمارے موجودہ دور کی حقیقت ہے۔ AI ایک ایسا تیزی سے ترقی پذیر شعبہ ہے جو کمپیوٹر سائنس اور ریاضی کے اصولوں کو استعمال کرکے ایسی مشینوں کو بنانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو انسانی ذہانت کی طرح سیکھنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ مشینیں بڑے پیمانے پر موجودہ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے اشیا کو سمجھنے اور اس کے مطابق ردعمل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مصنوعی ذہانت ابھی ابتدائی مراحل میں ہے‘ لیکن اس کا اثر ہر شعبے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ AI انسان کی جگہ لینے کی اہل نہیں ہے‘ بلکہ اس کی معاون ومددگار ہے‘ یہ ہمیں بہتر فیصلے کرنے اور ہر شعبہ زندگی میں ترقی اور کارکردگی بڑھانے میں مدد دے گی۔ AI بیشمار اعداد وشمارکا تجزیہ کرتے ہوئے پیچیدہ مسائل کو حل کر کے وہ کام کم وقت میں غلطیوں کے بغیر کر سکتی ہے‘جس کیلئے انسان کو زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ اس سے ہر شعبے میں کام کی رفتار اور درستی میں اضافہ ہو گا۔ بار بار دہرانے والے اور خطرناک کاموں کیلئے AI کا استعمال انسانی خطرات کو کم کرے گا‘ مثلاً فیکٹریوں میں روبوٹس کا استعمال یا خطرناک علاقوں میں معلومات جمع کرنے کیلئے ڈرونز کا استعمال۔ نیز AI وسیع تر اعداد وشمار اور ماضی کے رجحانات کا تجزیہ کر کے انسانوں کو بہتر فیصلے کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ڈاکٹروں کو بیماریوں کی تشخیص میں‘ کمپنیوں کو منصوبہ بندی میں اور حکومتوں کو پالیسی بنانے میں AI سے مدد مل سکتی ہے۔ انسانوں کی اہمیت اس سے کم نہیں ہو گی۔ فی الحال AI تخلیقی نہیں ہو سکتی‘ نئی چیزیں ایجاد کرنا‘ فن پارے تخلیق کرنا اور تخیلاتی سوچ کا استعمال کرنا صرف انسانوں ہی کا کام ہے‘ AI ان صلاحیتوں کو بڑھا سکتی ہے‘ لیکن ان کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اخلاق واقدار پر مبنی فیصلے کرنے کی صلاحیت صرف انسانوں میں ہوتی ہے۔ AI اخلاقی پیچیدگیوں کو سمجھ سکتی ہے اور نہ اس میں انسانوں جیسے جذبات ہوتے ہیں‘ پس اگر کسی مسئلے کے متعدد حل تجویز کیے گئے ہوں تو اخلاقی پہلوئوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے‘ اُن میں سے کسی ایک حل کے انتخاب میں فیصلہ کُن کردار انسان ہی کا ہو گا۔
AI انسانوں کے درمیان تعلقات کی جگہ نہیں لے سکتی۔ ہماری زندگیوں میں ہمدردی‘ محبت اور دوسروں کے احساسات کو سمجھنے کی صلاحیت بہت اہم ہے۔ AI اس کی تقلید کر سکتی ہے‘ لیکن اس میں حقیقی جذبات نہیں ہوتے۔ انسان اور AI کا تعاون ہر شعبے میں ترقی اور خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے‘ یہ تیزی سے ترقی پذیر شعبہ ہے جو ہماری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کارکردگی اور پیداوار بڑھانے‘ درست فیصلے کرنے اور نئی دریافت کرنے میں ہماری مدد کر رہی ہے۔ صحت‘ تعلیم‘ مصنوعات بنانے اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مختلف شعبوں میں مصنوعی ذہانت انقلاب برپا کر رہی ہے‘ اس کے ساتھ ہی یہ نئی ملازمتیں بھی پیدا کر رہی ہے۔ مجموعی طور پر مصنوعی ذہانت ایک ایسا ذریعہ ہے جس کا عقلمندی‘ دور اندیشی اور ذمہ داری سے استعمال کر کے ہم اپنی دنیا کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے: '' اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے (سب کو) پیدا کیا‘ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا‘ آپ پڑھیے! آپ کا رب ہی سب سے زیادہ کریم ہے‘ جس نے قلم سے (لکھنا) سکھایا‘ انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘ (العلق: 1 تا 5)۔ ہم قلم کو اُن تمام آلات کیلئے استعارے کے طور پر لے سکتے ہیں جو آج حصولِ علم میں معاون ہیں۔ یہ آیات مبارکہ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ علم کا سرچشمہ اور بنیاد قرآن مجید ہے۔ اسلام علم کی ترغیب دیتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ خلافتِ اسلامیہ کے غلبے کے دور میں مسلمان ہر شعبہ علم میں سرخیل تھے۔ مسلمان سائنسدانوں نے فلکیات‘ طب‘ ریاضی‘ ہندسہ اور دیگر علوم میں انقلابی کام کیا تھا۔ مغرب نے ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کی بنیاد مسلمانوں کی انہی تحقیقات پر رکھی ہے اور پھر اُنہیں عروج تک پہنچایا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے: آج مسلمانوں نے اپنے دین سے دوری اختیار کر لی ہے‘ جس کی وجہ سے وہ ہر شعبے میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ موجودہ دور کا تقاضا ہے: ہم دینی اور عصری تعلیم کو ہم آہنگی کے ساتھ حاصل کریں‘ دینی تعلیم ہمیں خالق کی معرفت‘ خالق اور مخلوق کے ساتھ تعلق کی حدود اور اخلاقیات سکھاتی ہے‘ جبکہ عصری تعلیم ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی سے آگاہ کرتی ہے۔ دینی اور عصری علوم کے امتزاج سے انسان میں مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے اور وہ مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کو ذمہ داری سے استعمال کرنے کی اہمیت کو سمجھ سکتا ہے۔
وقت کا تقاضا ہے: دینی مدارس کے نصاب میں سائنس اور مصنوعی ذہانت سے متعلقہ علوم کو شامل کیا جائے‘ اس سے طلبہ کی دینی تعلیم تو یقینا مضبوط ہو گی‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ جدید دنیا کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو سکیں گے۔ ایسے تعلیم یافتہ علما سائنس اور ٹیکنالوجی کے ارتقا کے نتیجے میں پیدا شدہ دینی مسائل کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں بہتر طور پر کر سکیں گے۔ اسلام ہمیں علم اور ٹیکنالوجی کے حصول کی ترغیب دیتا ہے‘ بشرطیکہ اسے اللہ کی رضا کیلئے استعمال کیا جائے۔ ہمیں چاہیے کہ قرآن کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی آگے بڑھیں تاکہ ہم دوبارہ علم وفن کے میدان میں سرخیل بن سکیں۔
مصنوعی ذہانت کا صحت کے شعبے میں کردار: مصنوعی ذہانت صحت کے شعبے میں ایک نئی امید بن کر ابھری ہے‘ صحت ہماری زندگی کا سب سے قیمتی تحفہ ہے۔ لیکن نِت نئی بیماریاں ہمیں کسی وقت بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔ خوش قسمتی سے AI اب صحت کے شعبے میں انتہائی مثبت تبدیلی لا رہی ہے اور یہ ہمیں تندرستی کے حصول اور بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ بیماری کی صحیح تشخیص علاج کی طرف پہلا اہم قدم ہے۔ بعض اوقات ڈاکٹروں کیلئے پیچیدہ علامات کی بنا پر درست تشخیص کرنا مشکل ہو جاتا ہے‘ لیکن AI مختلف طبی آلات مثلاً: ایکسرے‘ MRI اور CT سکین کا تجزیہ کرکے بیماریوں کی درست اور تیز تر تشخیص میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ اس سے علاج میں تاخیر سے بچاؤ ممکن ہو جاتا ہے‘ جو صحت کیلئے بہتر نتائج کا باعث بنتا ہے۔ ہر مریض منفرد ہوتا ہے اور اس کا علاج بھی اسی طرح ذاتی نوعیت کا ہونا چاہیے۔ مصنوعی ذہانت طبی ریکارڈ‘ جینیاتی معلومات اور دیگر عوامل کا تجزیہ کرکے انفرادی مریضوں کیلئے بہترین علاج کی منصوبہ بندی میں معاون ہے۔ یہ ہر ایک کیلئے یکساں طریقِ علاج یعنی ''One size fits all‘‘ کے برعکس زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ نئی ادویات کی دریافت ایک طویل اور مہنگا عمل ہے لیکن مصنوعی ذہانت اس عمل کو تیز اور زیادہ مؤثر بنانے میں مدد کر رہی ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved