تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     26-07-2024

قیدی کتاب کی تلاش میں

ویسے تو صحافت کی دنیا میں کئی واقعات ہوتے ہیں جو آپ کو ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ انہونی بھی بہت ہوتی ہیں لیکن دھیرے دھیرے آپ ان باتوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔ پھر کوئی بات آپ کو چونکنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ تاہم اس کے باوجود کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے جو آپ کو حیران کر دیتا ہے۔ اس لیے جب آئی جی جیل خانہ جات نے فون کر کے کہا کہ انہیں پنجاب بھر کے قیدیوں کے لیے کتابوں کی ضرورت ہے تو مجھے حیرانی ہوئی۔ آج تک شاید ہی کسی افسر یا ادارے نے اس کام کے لیے رابطہ کیا ہو۔ میں نے پوچھا: جیل میں قیدی کتابیں پڑھتے ہیں؟ ہم تو سمجھتے ہیں کہ صرف بڑے سیاستدان جیل جائیں تو کتابیں پڑھتے ہیں یا یادداشتیں لکھتے ہیں۔ نہرو اور بھٹو کی مثال سامنے ہے۔ ورنہ عام بندہ ایک دفعہ جیل جائے تو وہاں جا کر مزید بگڑ جاتا ہے۔ وہ کبھی ریفارم نہیں ہوتا اور ایک آپ ہیں کہ ان قیدیوں کے لیے کتابیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔
فاررق نذیر کہنے لگے: سب سے پہلے یہ تاثر دور کریں کہ لوگ بار بار جرائم کر کے جیل جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ جیل میں گزار کر رہا ہوتے ہیں تو شاید دوبارہ جرم کرتے ہیں‘ یوں جیل آنے جانے کا سلسلہ لگا رہتا ہے۔ آئی جی صاحب نے حیران کن بات بتائی۔ کہنے لگے: میرے پاس موجود جیل ریکارڈ کے مطابق صرف پانچ فیصد قیدی رہا ہونے بعد دوبارہ جرم کرتے ہیں اور وہی دوبارہ جیل جاتے ہیں۔ بچوں میں یہ اوسط ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جو پانچ فیصد واپس جیل پہنچ جاتے ہیں‘ ان میں سے بھی اکثر منشیات یا چوری چکاری کے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ جیلیں لوگوں کو ریفارم کرنے کے بجائے انہیں کریمنل بنا کر باہر بھیجتی ہیں۔ جیل میں ریفارم کے کئی مواقع ملتے ہیں۔ وہ بتانے لگے کہ یہی دیکھ لیں کہ جیل میں کتابیں پڑھنے کا رجحان زیادہ ہوگیا ہے۔ اتنا زیادہ کہ ہم قیدیوں کی ڈیمانڈ کے مطابق کتابیں نہیں دے پا رہے۔ میں نے جیل میں کتابوں کی بڑھتی ڈیمانڈ کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے: دراصل جیل میں قیدیوں کے پاس بہت وقت ہوتا ہے‘ وہ کب تک ٹی وی دیکھیں۔ لہٰذا جو پڑھے لکھے ہیں‘ وہ کتابوں کی طرف آتے ہیں۔ سب سے زیادہ قرآن پاک جیلوں میں پڑھا جاتا ہے۔ لوگ نماز کی طرف راغب ہوتے ہیں اور پھر وقت گزارنے کے لیے دیگر کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ انکشاف بھی سامنے آیا کہ جیل میں ایسے قیدی بھی ہیں جو باقاعدہ کالم لکھتے ہیں اور ان کے وہ کالم اخباروں میں چھپتے ہیں۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا: وہ کیسے‘ نام بتائیں گے؟ وہ بولے: وہ اپنے حقیقی ناموں سے نہیں لکھتے لیکن ان کے علم میں ہے کہ چند قیدی باقاعدہ کالم نگار ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ پنجاب کی جیلوں میں ساٹھ ہزار قیدیوں کی کتابوں کی ڈیمانڈ کیسے پوری کی جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس کام میں مخیر حضرات آگے بڑھیں اور محکمۂ جیل کی مدد کریں۔ امیر لوگ انہیں جیلوں میں لائبریریاں قائم کر کے دیں‘ جیلوں کے لیے کتابیں خرید کر دیں۔ بیرکوں کے ساتھ لائبریریاں بنائی جا سکتی ہیں تاکہ قیدی وہاں سکون سے بیٹھ کر پڑھ سکیں۔ میں کہا: ناراض نہ ہوں‘ لیکن میں پوچھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ کو قیدیوں کو کتابیں پڑھانے سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ پہلا جیلر دیکھ رہا ہوں جو جیلوں میں لائبریریاں بنا کر قیدیوں کو پڑھانا چاہتا ہے۔ شاید ہی کبھی پنجاب میں کوئی آئی جی جیل خانہ جات ایسا آیا ہو جس کے دل میں قیدیوں کو کتابیں پڑھانے کا شوق پیدا ہوا ہو یا اس نے لائبریریاں بنانے کا سوچا ہو۔ آئی جی جیل کہنے لگے: اولاً قیدی اب خود کتاب مانگتا ہے۔ دوم‘ انہیں لگتا ہے جو قیدی کتابیں پڑھتے ہیں وہ ان قیدیوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں جو کتابیں نہیں پڑھتے یا نہیں پڑھ سکتے۔ کتابیں پڑھنے والے انسان یا قیدی کا رویہ بہت مختلف ہو جاتا ہے اور اس کے اندر بہت خوبصورت صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس کے دل میں نرمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر قیدی زیادہ کتابیں پڑھ کر جیل سے واپس جائیں گے تو یقین کریں وہ بہتر انسان ثابت ہوں گے اور بہتر طور پر ایڈجسٹ ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں خود بھی اس طرح جیلوں کو مینج کرنا آسان لگتا ہے کیونکہ کتاب پڑھنے والے قیدی دوسروں سے زیادہ انڈر سٹینڈنگ اور عقلمند ہوتے ہیں لہٰذا ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جتنی کتابیں قیدیوں کو فراہم کر سکتے ہیں‘ انہیں کر دیں۔ اگرچہ ٹاسک مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ آئی جی صاحب کی یہ بات سن کر مجھے لندن کے دوست شعیب بٹھل کی ایک بات یاد آ گئی‘ جسے جنید مہار اکثر دہراتے ہیں کہ دنیا میں صرف دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے لٹریچر پڑھا ہے اور دوسرے وہ جنہوں نے نہیں پڑھا۔ تیسری اور کوئی قسم نہیں ہے۔
آئی جی صاحب کی ایک بات جو مجھے کچھ بے چین کر گئی وہ یہ تھی کہ جیل کے اندر قیدی آرام سے رہتے ہیں لیکن باہر انکے ورثا رُل جاتے ہیں۔ انکی مشکلیں دیکھ کر دل دُکھتا ہے۔ کوئی ماں اپنے بچوں کو لے کر جیل میں قید اپنے خاوند سے ملنے جائے گی‘ پھر مقدمات کی فیسیں اور اخراجات کا انتظام یا پھر جیل جاتے ہوئے اپنے عزیزوں کیلئے کھانے پینے کی چیزوں کا بندوبست کرنا۔ زیادہ تر لوگ غریب گھرانوں سے ہوتے ہیں لہٰذا ان کیلئے بیشمار مسائل ہوتے ہیں۔ پہلی مشکل تو یہی ہوتی ہے کہ اکثر جیل جانیوالا ہی گھر کا اکیلا کمانیوالا فرد ہوتا ہے۔ یوں پورا گھر‘ بیوی بچے اور والدین مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر وکیلوں کی فیسیں دینے کیلئے گھر کا سامان یا ڈھور ڈنگر بیچنے پڑ جاتے ہیں۔ گھر کا خرچ چلانے کیلئے کوئی نہ کوئی روزگار تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اب یا تو قیدی کے بچے کہیں مزدوری کریں یا پھر ان بچوں کی ماں خود مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پالے۔ یوں کبھی کبھار یہ بچے یا ماں کسی منشیات فروش کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور پورا گھر جیل جا پہنچتا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جنکا حل کم از کم آئی جی جیل خانہ جات کے پاس نہیں ہے۔ میں نے پوچھا: یہ جو جیل عملے کے خلاف شکایتیں آتی ہیں کہ وہ قیدیوں کے لواحقین کو تنگ کرتے ہیں‘ اس حوالے سے آپ کا کیا کہنا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ اگر شکایتیں آتی ہیں تو اس پر عملے کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا: جو میرے بس میں ہے‘ وہ میں کر رہا ہوں۔ کھانے کا معیار بہتر کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں تاکہ انہیں بہتر اور معیاری خوراک دستیاب آئے۔ یقینا آئیڈیل صورتحال تو نہیں‘ تاہم آج کل وہ کتابوں کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ کوئی دور تھا کہ جب حکومتیں لائبریریوں کیلئے الگ سے فنڈز مختص کرتی تھیں۔ کیا حکومت اب بھی فنڈز دیتی ہے تاکہ کتابیں خریدی جاسکیں؟آئی جی جیل کا تو کہنا تھا کہ جیل کے اندر لوگ زیادہ کتابیں پڑھتے ہیں بہ نسبت ان کے جو جیل سے باہر آزاد زندگی گزارتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جیل کے باہر لوگ نوکری یا محنت مزدوری میں مصروف رہتے ہیں مگر جیل کے اندر بیٹھا شخص خود کو فارغ سمجھتا ہے۔ بہرکیف‘ ایک طرف معاشرے میں یہ گلہ عام ہے کہ یہاں لوگ کتاب نہیں پڑھتے‘ لوگ ہزار روپے کا برگر یا تین ہزار کا پیزا کھا لیں گے لیکن کتاب خریدتے وقت انہیں مہنگائی یاد آ جاتی ہے۔ اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شاید یہ کتابوں کی آخری صدی ہے۔ مطلب جتنی تیزی سے ڈیجیٹل ایج آگے بڑھے گی‘ لوگ کتابیں پڑھنا مزید کم کرتے جائیں گے اور بہت جلد وہ دور آنے والا ہے کہ لوگ چھپی ہوئی کتابوں سے مکمل دور ہو جائیں گے۔ سب کچھ فون اور دیگر الیکٹرانک ڈیوائسز پر میسر ہو گا۔
یہ بات یقینا دلچسپ ہے کہ ایک طرف شکایت ہے کہ لوگ کتابیں پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے جبکہ دوسری طرف پنجاب کا آئی جی جیل خانہ جات اپنے ساٹھ ہزار قیدیوں کے لیے کتابیں تلاش کر رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved