ہمارے معاشرے اور ملک کے بارے میں دنیا بھر میں لوگ لکھتے رہے ہیں۔ اگرچہ اب تعداد کم ہوتی جا رہی ہے لیکن مشرقی علوم کے سکالر مختلف موضوعات پر قلم اٹھاتے رہتے ہیں۔ زندگی بھر بہت سوں سے مختلف ممالک میں ملاقاتیں رہی ہیں۔ سب لوگ تو کھل کر اس انداز میں باتیں نہیں کرتے جس طریقے سے ہم اپنے ماضی‘ حال اور مستقبل کے بارے میں غیرسنجیدہ تبصرے شروع کردیتے ہیں۔ مغربی ثقافت میں وہ لوگ‘ جو ہمارے پیشہ سے تعلق رکھتے ہیں‘فضول گپ شپ‘ جو اکثر شکایتوں اور دوسروں کی غیبت میں بدل جاتی ہے‘ پر اپنا وقت اور توانائی برباد نہیں کرتے۔ کئی بار کچھ لوگوں نے نجی محفلوں میں ہمارے ملک اور حکمرانوں کے بارے میں جو باتیں کیں‘ وہ سب تو قابلِ بیان نہیں مگر صرف دو کا ذکر کرنا مناسب خیال کرتا ہوں۔ ویسے تو یہ باتیں کسی مغربی‘ مشرقی یا جنوبی حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں مگر جب دوسرے غیرمتعصب اور غیروابستہ لوگ کسی کے بارے میں تفکر اور تحقیق سے بات کرتے ہیں تو اسے معتبر خیال نہ کیا جائے تو نا انصافی ہو گی۔ تمہید کے طور پر یہ عرض کردوں کہ ایسی باتیں ہم روزانہ سنتے اور دیکھتے ہیں مگر ہم چونکہ ان میں اتنے رچ بس چکے ہیں کہ کچھ عجیب و غریب معلوم نہیں ہوتا۔ جب دوسرے ہماری ماضی کی داستانوں‘ دورِ حاضر کے کرشموں اور صاحبِ اقتدار حکمران طبقوں کا جائزہ لیتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اپنے ملک کے سب سے بڑے دشمن ہم خود ہی ہیں۔ اس کی تشریح اور توضیح کرنے کی ضرورت نہیں کہ آج کل پہلی بار 40 خاندانوں کے نجی بجلی گھروں‘ خفیہ معاہدوں‘ استعدادی ادائیگیوں اور ملک کی معیشت کو نچوڑنے کی جو خبریں آپ دیکھ اور پڑھ رہے ہیں‘ تو بات کو سمجھنا مشکل نہ ہوگا۔ دوسری بات جو اکثر میں نے سنی اور پڑھی‘ وہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی کوئی اخلاقیات نہیں اور یہی اکثر مسلمانوں کے بارے میں عالمی سطح پر تاثر پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جھوٹ بولتے ہیں‘ منافقت سے کام لیتے ہیں اور مذہب‘ مسلک‘ نسل‘ قومیت کی بنیاد پر غلط لوگوں کا ساتھ دینا جائز خیال کرتے ہیں۔ اپنے معاشرے‘ اپنے لوگوں اور اپنی بنائی ہوئی اشیا کو خود ہی پست گردانتے ہیں‘ دوسرے لفظوں میں احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔
عام لوگوں کو بھی سوائے دیسی مرغی اور دیسی انڈوں کے کوئی دیسی چیز دل کو نہیں بھاتی۔ ہماری اعلیٰ اشرافیہ تو شام ہوتے ہی ولایتی‘ ولایت اور ولایتیوں کی باتیں کرکے اپنے مقام اور حیثیت کا رعب جھاڑنے لگتی ہے۔ انگریز دور کی بہت سی نشانیوں میں سے احساسِ کمتری اور اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی دیسی اشیا سے نفرت بھی شامل ہے۔ انگریزوں اور ان کے تیار کردہ حکمران طبقات نے دیسی اور دیسیوں کے بارے میں ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت نفرت انگیز سلوک‘ جو ایک عرصہ تک روا رکھا‘ وہ ہماری اشرافیہ نے حکمرانوں کے طور پر مختلف انداز میں جاری رکھا۔ انگریزوں کا مقصد مقامی ادب‘ زبان و ثقافت اور تہذیبوں کو کمتر ثابت کرنا تھا تاکہ اپنا سیاسی‘ انتظامی‘ عسکری‘ معاشی اور تعلیمی نظام آسانی سے قائم کر سکیں۔
نو آبادیاتی نظام کے بعد کے معاشروں کے سکالرز نے کمال کا کام کیا ہے۔ انہوں نے سامراجی تہذیبوں اور معاشروں کی اصل شناخت کو مسخ کرکے اپنی زبان اور اپنے مخصوص تعصبات کی روشنی میں ہمارے سامنے اپنے ملکوں میں متعارف کرایا۔ مغربی استعماری طاقتوں نے ہری بھری کھیتی کو مکمل اُجاڑ کر ایک نئی فصل لگانے کا تجربہ کیا تھا۔ یہ تو ہماری مقامی تہذیبی روایات کا کمال ہے کہ وہ سامراجی جبر اور گھٹن کے ماحول میں کچھ نہ کچھ سانس لیتی رہیں۔ اس میدان میں سکالرز نے ابھی تک کام جاری رکھا ہوا ہے۔ افریقہ ہو یا مشرقِ وسطیٰ‘ کچھ بچا اور کچھ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ اس کے برعکس ایک رویہ جو مجھے پسند ہے اور ایک ہمسائے ملک کے سیاست دانوں‘ دانشوروں اور صحافیوں میں دیکھا ہے کہ وہ ہر دیسی چیز کو‘ جیسی بھی ہو‘ پہننے‘ کھانے اور گھر کی زینت بنانے میں ترجیح دیتے ہیں۔ پہلی دفعہ 1984ء میں بھارت گیا تو کئی اہم لوگوں سے ملاقاتیں رہیں جن میں آنجہانی جسونت سنگھ صاحب بھی شامل تھے‘ جو بعد میں کسی حکومت میں وزیر دفاع رہے اور انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح پر بہت ہی عمدہ کتاب لکھی جو جرأت ِاظہار کی ایک زبردست مثال ہے۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو‘ وہ سابق ریاست جودھ پور کے نوابوں میں سے تھے۔ اُن کے گھر گیا تو جس طرح دیہات میں برآمدے ہوتے ہیں‘ وہاں بٹھایا‘ چائے پلائی‘ کچھ گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ سے اور باتیں کرنی ہیں‘ میرے ساتھ میرے دفتر چلیں۔ جسونت سنگھ صاحب نے ہندوستان کی بنی ہوئی ایمبسڈر کار نکالی‘ خود ڈرائیو کی ۔ اشوکا ہوٹل میں ان کے پاس دو کمروں کا ایک دفترتھااور اس طرح کا فرنیچر‘ جو ہم متوسط طبقے کے گھرانوں اور دفتروں میں دیکھتے ہیں۔ اکثر صحافیوں اور دانشوروں سے بعد میں کئی مرتبہ ملاقاتیں رہیں تو وہ مقامی لباس‘ دیسی کپڑا اور مقامی جوتے استعمال کرتے دکھائی دیے ۔ ان کے گھروں میں کبھی ولایتی دکھاوے والی بات نظر نہ آئی۔ ہو سکتا ہے کہ آج کا بھارت بھی عالمی صارف بن کر ناز کرتا ہو لیکن باشعور شہری افریقہ میں ہوں‘ لاطینی امریکہ یا ایشیا میں‘ وہ سامراجیوں کے طرزِ زندگی کو شعوری طور پر رد کرتے ہیں۔
واضح کرتا چلوں کہ مزاحمت کا ایک راستہ یہ ہے کہ آپ سامراجیوں اور ان کے گماشتوں کا طرزِ زندگی اختیار نہ کریں۔ دیسی ہونے اور دیسی اشیا استعمال کرنے پر فخر کریں۔ خیر‘ یہ کہنا تو آسان ہے مگر عملی زندگی میں بہت دشواریاں ہیں کہ ہمارے حکمران ٹولوں نے ہماری مارکیٹیں درآمد شدہ اشیا سے بھر دی ہیں۔ اور پھر جو نجی بجلی گھر لگا رکھے ہیں‘ وہ مقامی صنعتوں کو ڈبو رہے ہیں۔ اتنی مہنگی بجلی سے کون دوسرے ملکوں یا عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکتا ہے۔
دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اب کچھ پھل بھی دور دراز کے ممالک سے منگوائے جا رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اتنی بھاری قیمت پر بازاروں میں بکتے ہیں تو کاروباری افراد درآمد کررہے ہیں۔ چند دن پہلے اپنے قریبی مرکز کی ایک بڑی دکان پر 'ایوا کاڈو‘ کا پھل‘ ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے اکثر اس کے بارے میں نہ جانتے ہوں‘ دیکھا اورقیمت پوچھی تو ساڑھے چار ہزار روپے فی کلو۔ میری اس پھل سے آگاہی 44 سال پرانی ہے جب میں کیلیفورنیا میں پڑھتا تھا۔ معاف کرنا‘ میں کوئی مارکیٹنگ نہیں کر رہا مگر ایواکاڈو کے پندرہ بیس درخت اپنے جنگل میں اُگا رکھے ہیں‘ اور ان میں سے تین بیس سال پرانے ہیں۔ اسلام آباد کے علاقے میں ہماری طرح کے معمولی کاشتکار اسے شوق اور کامیابی سے اُگا رہے ہیں۔ پیداوار ہمارے ذاتی اور دوست احباب کے استعمال سے قدرے زیادہ ہے۔ ویسے ہی دکاندار سے پوچھا کہ مجھ سے خریدے گا؟ تین سال قبل اسے دس کلو کے قریب بیچے تھے۔ کہا کہ ابھی نہیں‘ یہ ختم ہوں تو پھر۔ نرخ پوچھے تو کہا چھ‘ سات سو روپے فی کلو۔ سر پیٹ کر رہ گیا۔ کہا کہ بھائی میرے تو دیسی ہیں۔ کوئی کھاد یا سپر ے بھی استعمال نہیں کیا۔ بالکل تازہ۔ تو نرخ اتنے کم کیوں؟ کہنے لگا: ''سر آپ کے دیسی ہیں‘ جس طرح آپ کہہ رہے ہیں اور یہ ولایتی ہیں‘‘۔ خیر ایواکاڈو بیچنے کی کہانی خاصی طویل ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے۔ اصل مسئلہ ہمارے دیسی ہونے کا ہے۔ ہم اپنے ہی دیس میں مار کھا رہے ہیں۔ ولایتیوں کے اس دور میں ہم کہاں جائیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved