وہ لمبی میز پر‘ سناٹے سے بھر پور اونچی دیواروں میں نیم شب کو تنِ تنہا کرسی پر ڈٹا ہوا تھا۔ آج اس نےSuleiman the Magnificentکی تاریخ بدلنی تھی اور بہت مشکل فیصلہ لینا تھا۔ اتنا مشکل جو اس بطلِ حریت کے سوا کوئی اور نہ لے سکے۔ تازہ تاریخ گواہ ہے کہ کیسے اپنے لوگوں کو سستا آٹا دینے کے لیے اس نے اپنے کپڑے تک بیچ ڈالے۔ مگر یوکرین کے امپورٹرز کا کرنا ایسا ہوا اس آٹے میں زندہ کیڑے اور بارود کی بُو نکل آئی۔ رات کے گھپ اندھیرے میں ایک گاڑی چڑھائی چڑھتی اس کے آفس کے سامنے آن پہنچی۔ انجن بند ہونے کی آواز آئی۔ پھر قدموں کی چاپ گونجنے لگی‘ تین لوگ اس کے سامنے آکر سینہ پھلائے کھڑے ہو گئے‘ ایک نے فائل اس کی میز پر دے ماری۔ اس کے چہرے پہ فاتحانہ غرور تھا کہ میں نے 24 کروڑ لوگوں کیلئے دلیرانہ مشکل فیصلہ لے لیا۔ اس نے فائل کھولی‘ لکھا تھا: پٹرول کی قیمت میں دس روپے فی لٹر اضافہ ہوگا‘ ایک مہینے میں تیسرا اضافہ۔ مگر وہ ڈٹ گیا‘ ان تینوں کے سامنے فوراً ہاتھ پھیلایا اور قلم مانگا۔ تین میں سے ایک نے سبز سیاہی والا بال پوائنٹ اسے پکڑایا۔ اس نے چھاتی یوں پھلائی جیسے ابھی شرٹ کے بٹن ٹوٹیں گے‘ ٹائی اُڑ کر دور جا گرے گی اور اس میں سے Hulkنکل آئے گا۔ وہ بولنا شروع ہوا: دیکھو میری قوم سو رہی ہے‘ میں قوم کے لیے آدھی رات کو جاگ رہا ہوں‘ لو! میں مشکل فیصلہ کرتا ہوں‘ تاریخ یاد رکھے کہ میں کسی کے دباؤ میں نہیں آؤں گا۔ وہ فائل پر جھکا اور لکھا: پٹرول کی قیمت دس روپے فی لٹر نہیں بڑھنے دوں گا۔ میں صرف 9روپے 99پیسے فی لٹر قیمت بڑھانے کی اجازت دیتا ہوں۔ عین اسی وقت اس سے 443 کلو میٹر دور‘ قوم کا ایک اور غمخوار بیٹھا تھا۔ ارد گرد تین حواری لیے۔ ایک خاتون‘ ایک مرد اور ایک یوگی ٹائپ لگ رہا تھا‘ جس نے مریل سی آواز نکالی: سر بجلی کا بل ۔ اس ''حاتم طائی ٹو‘‘ نے جب پہلی بار 12کروڑ لوگوں کے صوبے کی وزارتِ خزانہ کی کنجی اپنی جیب میں ڈالی تب عیسوی کلینڈر میں سال 1984ء تھا۔ اب جولائی 2024ء اس کے لیے بھی مشکل فیصلہ لینے کا وقت آ گیا تھا۔ اس نے اپنے Platelets پر ہاتھ پھیرا‘ سامنے پڑی لاتعداد پلیٹوں پر الوادعی نگاہ ڈالی۔ پھر اپنے دور کے لگائے گئے مہنگے IPPs یونٹس کو عقیدت کا خراج تاریخی الفاظ میں پیش کیا ''بجلی کا بل کوئی نہیں دے سکتا‘‘۔ بجلی کا بل نہ دے سکنے کے بار ے جو سائنسی انکشاف‘ ٹام کروز میزائل کی طرح‘ (ن) لیگ کے اوّل و آخر قائد نے کیا‘ آئیے اُس کی وجوہات میں چلیں۔
بجلی کا بل نہ دے سکنے کی پہلی وجہ: پاکستان میں سیاست کاروں کے ہاتھ آیا ایک شعبہ ایسا ہے جس نے پچھلے 33 سال سے ہمیں بحیثیت ریاست و معیشت موت کے دروازے تک پہنچا دیا۔ آپ درست سمجھے‘ بجلی پیدا کرنے والے 90 پرائیویٹ ادارے۔ چلئے جانتے ہیں ان اداروں کے مالک کون ہیں۔ 28فیصد کا مالک لاہورکا وہ خاندان ہے جسے جنرل جیلانی والے مٹھائی کے ٹوکرے سے اقتدار کی چاشنی ملی۔ 16فیصد کا مالک نواب شاہ کا ایک خاندان ہے جو 17سال سے اپنے صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ 8فیصد پڑوسی دوست ملک کے سرمایہ کاروں کی ملکیت ہیں۔ 7 فیصد ایک عرب ملک کا سرمایہ۔ 16 فیصد لاہوری حکمران خاندان کے وزیر‘ مشیر اور قریبی رہنما۔ 8 فیصد سندھ کے حکمران خاندان کی سنٹرل لیڈرشپ۔ 10فیصد ملکیت پنجاب اور مقتدر اشرافیہ۔ سلیس اردو میں پیداوارِ بجلی کا 78 فیصد سیاسی حکمران اسٹیبلشمنٹ کے تین گروپوں اور مقتدرہ کی جیب میں ہے۔
قائد مسلم لیگ کو چاہیے کہ وہ فوراً ان سب کی میٹنگ کال کرکے ملتِ سرمایہ کاری کے بے تاج بادشاہ کی حیثیت سے انہیں حکم دیں کہ بجلی کا بل کوئی نہیں دے سکتا‘ IPPsکے معاہدے ویسے ڈرافٹ کیے جائیں جن ریٹس پر ایشیا اور مغرب کے دیگر ممالک میں معاہدے ہوئے۔ اس سلسلے میں ہم انہیں تیونس کا بُوعزیزی بننے کا مشورہ ہر گز نہیں دیتے بلکہ ان کے لیے ایک لوکل مشورہ ابو سعید بنگلہ دیشی کا کافی رہے گا۔ ابوسعید نے بنگلہ دیش میں نوکریوں کی تقسیم میں دھاندلی کے خلاف اکیلے ڈٹ کر اپنے جوان لہو سے جو تاریخ لکھی وہ یقینا ان کی بہادری کے لیے ایک کیس سٹڈی ہے۔
بجلی کا بل نہ دے سکنے کی دوسری وجہ: رپورٹ شدہ حقائق کہتے ہیں IPPs کے ادارے‘ پاکستان کی کل ضرورت کا 125فیصد پیدا کرنے کی صلاحیت بتا کر لگائے گئے مگر اس وقت وہ قومی ضرورت کا صرف 48 فیصد حصہ پیدا کرتے ہیں۔ یہ بات نواز شریف سے زیادہ اور کوئی نہیں جان سکتا کیونکہ پچھلے پانچ سال میں شہباز شریف حکومت کی دو مرتبہ اور ان کی بنائی کیئر ٹیکر حکومت کی کمان ایک دفعہ ان کے پاس رہی۔ ان پانچ سال میں 48 فیصد بجلی پیدا کرنے والے IPPs کو 125 فیصد بجلی کی نقد قیمت دی گئی۔ سادہ گنتی بتاتی ہے کہ پچھلے پانچ سال میں IPPsکو کلرک‘ کسان‘ مزدور‘ دیہاڑی دار‘ چھوٹے دکاندار سمیت ہم سب نے چھ ہزار ارب کا ''بھتہ‘‘ دیا۔ اس کے باوجود بھی ملک ان کا 2900 ارب روپے کا مقروض ہے۔ نواز شریف کے لیے ایک یاد دہانی ضروری ہے کہ جہاں فارم 47 کی بدولت ان کی صاحبزادی کو اقتدار دیا گیا‘ اُس صوبے میں نوازی اور شہبازی ادوار میں سرکاری انڈیپنڈنٹ پاور پروجیکٹس بھی لگے۔ عوام حیران ہے کہ نواز شریف فوراً یہ بجلی پنجاب کے عوام کو پیداواری لاگت پر بیچنے کا حکم کیوں نہیں دے رہے؟
دو آئیکون یاد آرہے ہیں۔ چار جون 2009ء کو ناردرن رشیا میں اولی گارک اولیگ ڈیری پاسکا کی سیمنٹ فیکٹری میں ہڑتال اور روڈ بلاک ہوا۔ صدر پوتن خود وہاں پہنچے‘ میٹنگ بلائی۔ پتا چلا فیکٹری سیمنٹ کی قیمت خود بڑھاتی رہتی ہے لیکن ورکرز کو انڈر پے دیتی ہے۔ درجنوں افسروں کی موجودگی میں پوتن نے پروجیکٹ کا معاہدہ اولی گارک کے سامنے رکھا۔ اپنا پین اسے دیا اور کہا: پڑھو اور اس پہ دستخط کرو‘ ورنہ یہ فیکٹری میں ابھی قومی ملکیت میں لے لوں گا۔ یوں عوام جیت گئے۔
دوسرئے آئیکون انقلابی رہنما لینن کا تاریخ ساز قول‘ ریاست اپنی ناکامی کے آخری دور میں انتہائی پُرتشدد ہو جاتی ہے۔ ہم کہاں پہنچ گئے کون نہیں جانتا۔ عوامی وسائل پر بے رحمانہ ڈکیتی مارنے والوں کے چہرے بھی لوگ خوب پہچانتے ہیں۔ نواز شریف صاحب! شکریہ آپ نے قوم کو اطلاع دی کہ وہ بجلی کا بل نہیں دے سکتے۔ یہی اطلاع اپنے چھوٹے بھائی کو پہنچائیں‘ جس کی حکومت نے 66روپے فی یونٹ بجلی کر دی ہے۔ اور اس کو دیںجس کی چنیوٹ پاور کو تین ماہ میں مبینہ طور پر 63کروڑ روپے سے زائد کپیسٹی پیمنٹ کا تحفہ ملا۔
چمن میں اب تک بہار پہنچی نہیں خدایا!
خزاں کے سارے حصار دکھ ہیں‘ ہزار دکھ
عروج پر ہیں یہ نرخ نامے‘ غریب سے جب
ادا نہ ہوں تو ادھار دکھ ہیں‘ ہزار دکھ
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved