تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     26-07-2024

دلدل سے نجات کے لیے چند تجاویز

پاکستان اس وقت گھٹنوں گھٹنوں تک سیاسی‘ اقتصادی اور اخلاقی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے سے کُٹی کی ہوئی ہے۔ سیاسی مکالمہ ناپید ہے۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور مشکل سے سانس لے رہا ہے۔ آئی ایم ایف یا کسی دوست ملک سے قرضہ مل جائے تو ہم سکون کا سانس لیتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے اخلاقیات کے بخیے ادھیڑ دیے ہیں۔ اور اب اخلاقیات نام کی چیز عوام میں بھی عنقا ہے۔ جو ایک آدھی جماعت مذہب اور اخلاق کو بنیادی اصول مانتی ہے‘ عوام اسے ووٹ نہیں دیتے۔
سیاست‘ معیشت اور اخلاقیات تینوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس وقت 50 فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگ بیرونِ ملک جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ فارن آفس میں کاغذات کی تصدیق کرانے والوں کی لمبی قطاریں روزانہ لگتی ہیں۔ مڈل کلاس‘ جو عموماً اخلاقیات کی امین ہوتی ہے‘ تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ وہ غریب شہری جس کے ووٹ کی قیمت ایک قیمے والا نان ہے‘ سمجھتا ہے کہ یہاں ہر شے قابلِ خرید ہے۔
تو آئیے سیاست سے شروع کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی ڈائیلاگ ایک عرصے سے رُکا ہوا ہے۔ جو بیان بازی ہوتی ہے اس میں اکثر سوقیانہ زبان استعمال ہوتی ہے۔ ہم نے کتنے لوگوں کو غدار کا لقب دیا‘ کتنی سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی‘ کتنے سیاسی حریفوں کے گھروں کی دیواریں پھلانگیں۔ سیاست میں پھبتیاں کسنے کا عمل بھٹو صاحب نے شروع کیا‘ اپنے کسی حریف کو آلو خان پکارا تو کسی کو ڈبل بیرل خان کہا۔ ہمارے عہد میں تحریک انصاف نے اس رویے کو اوجِ ثریا تک پہنچا دیا‘ جو جتنا جارحانہ رویہ اختیار کرتا ہے اتنا ہی بڑا عہدہ پاتا ہے۔ مہذب سیاسی زبان اور برداشت جناحؒ اور اقبالؒ کے ملک سے غائب ہو گئی ہیں اور یہ دونوں لیڈر انتہائی شائستہ مزاج تھے۔
حکمران جماعت کا خیال ہے کہ 2018ء کے الیکشن دھاندلی زدہ تھے جبکہ عام تاثر یہ ہے کہ 2024ء کے الیکشن میں فارم 47کا جھرلو بڑی محنت سے پھیرا گیا ہے۔ حال ہی میں برطانیہ میں الیکشن ہوئے۔ 14سال سے حکمران کنزرویٹو پارٹی ہار گئی۔ نتائج خوشدلی سے تسلیم کیے گئے۔ وزیراعظم رشی سوناک 10 ڈاؤننگ سٹریٹ سے رخصت ہوئے اور لیبر پارٹی کے رہنما کیئر سٹارمر نے عہدہ سنبھال لیا‘ سارا عمل سکون سے مکمل ہوا۔ ہر ایک نے الیکشن قوانین کی پاسداری کی اور نتائج کو خوشدلی سے تسلیم کیا۔
اس سے قبل ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں الیکشن ہوئے۔ مودی حکومت نے توقع سے کم نشستیں حاصل کیں۔ وہاں کوئی عبوری حکومت نہیں بنی۔ الیکشن کمیشن نے اچھے سے انتخابات کرائے۔ اس کے برعکس پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ ووٹ کے ذریعہ حکومت بدلنا ناممکن ہے۔ پاکستانی جمہوریت کے لیے یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ عوام کی اُمنگوں کے برعکس نتائج نکالنے سے حکومت تو مضبوط ہو سکتی ہے لیکن ریاست کمزور ہو جاتی ہے۔ حریف پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانا اور مخالفین کو غدار اور ملک دشمن کے لقب دینا بھی اسی زمرے کی قبیح حرکات ہیں۔ سیاسی تناؤ کو کم کرنے کیلئے سپیکر صاحب کو اسمبلی میں تمام پارٹیوں پر مشتمل ایک مجموعی کمیٹی (Committee of the whole) بنانی چاہیے جو سیاسی اور معاشی حالات پر ڈائیلاگ شروع کرے اور ان مسائل کا حل تجویز کرے۔ اس سے پہلے بھی یہ تجویز سامنے آ چکی ہے۔
اقتصادی مسائل میں اولین مسئلہ مہنگی بجلی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ آبی وسائل اور کوئلہ کے وسیع ذخائر والے ملک پاکستان میں بجلی بھارت اور بنگلہ دیش سے کہیں مہنگی ہے۔ اس ریٹ پر نہ تو نئی انڈسٹری لگ سکتی ہے اور نہ ہی ہماری برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ البتہ ایک بات یقینی ہے کہ آبادی میں ہر سال پچاس‘ پچپن لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ غربت مزید بڑھے گی۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کی آدھی وزارتیں ختم ہو جانا چاہئے تھیں مگر کئی سال بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا۔ ایک غیرمستحکم ماحول میں اقتصادی فیصلے ڈنگ ٹپاؤ قسم کے ہوتے ہیں۔ کوئی دور رس پلاننگ نہیں ہوتی۔ حکومت کے تمام دعووں کے باوجود اللے تللے جاری ہیں۔ وزیراعظم جہاز بھر کر ایک بڑا وفد لے کر دو شنبے اور آستانہ گئے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں وزیراعظم ہاؤس کی پانچ‘ چھ بھینسیں تو نیلام کردی گئیں اور خوب تشہیر کی گئی لیکن قصرِ صدارت میں باڈی گارڈز کے سو گھوڑے اب بھی موجود ہیں‘ جو صرف 23مارچ کو صدرِ مملکت کو شاہی بگھی میں پریڈ گراؤنڈ لے کر آتے ہیں یا غیر ملکی سفیروں کو اسناد پیش کرنے کے لیے گاہے گاہے قصرِ صدارت لے کر جاتے ہیں۔
ہماری آبادی 2.55کی سالانہ شرح سے بڑھ رہی ہے۔ 2050ء میں پاکستان کی آبادی دوگنا ہو جائے گی۔ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر آبادی کے جن کو قابو کرنے کا سوچنا ہوگا۔ ہمیں اپنے ماہرین کو بنگلہ دیش بھیجنا چاہیے کیونکہ فیملی پلاننگ میں بنگلہ دیش بہت کامیاب رہا ہے۔ اپنے علما کرام کو ایران بھیجیں کیونکہ وہاں کے فیملی پلاننگ پروگرام کو علما کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اگر ہم آج نیک نیتی اور عزمِ صمیم سے کام شروع کریں تو اچھے نتائج پانچ سے دس سال میں سامنے آ جائیں گے۔
دہشت گردی کا سانپ پھر سے سر اٹھانے لگا ہے۔ جب تک ہم ملک کو اس لعنت سے نجات نہیں دلاتے‘ بیرونی سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ صرف طاقت سے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے تو یہ غلط فہمی ہوگی۔ ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ جن سرحدی علاقوں میں دہشت گردی پھر سے پنپ رہی ہے‘ وہاں کے سیاسی اور معاشی مسائل کیا ہیں‘ کیا ہم نے وہ وعدے پورے کیے ہیں جو قبائلی علاقوں کو ضم کرتے وقت ان نے کیے تھے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بزرگ سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر ان اضلاع کے مسائل کو پوری سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کا حل نکالیں۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبال ؒ دونوں روشن خیال اور وسیع المشرب مسلمان تھے۔ علامہ اقبال ؒ نے ملائیت کو ان عناصر میں شمار کیا تھا جو مسلمانوں کے لیے مضر ہیں۔
اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری
دنیا مذہبی رویوں میں اعتدال کی طرف جا رہی ہے۔ خلیجی ممالک میں مندر اور گرجا گھر بن رہے ہیں اور ہمارے ہاں مذہبی نفرتیں پھن پھیلائے پھنکار رہی ہیں۔ ترکیہ‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں جمہوری رویے توانا ہوئے ہیں‘ ان برادر ممالک سے ہی ڈھنگ کے الیکشن کرانے کا طریقہ سیکھ لیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے بعد چند سالوں میں یورپ ہنر مند افراد کو امیگریشن کے لیے بلائے گا۔ پرتگال میں یہ عمل شروع ہو چکا ہے۔ میری تجویز یہ ہو گی کہ انٹرنیشنل لیول کی لیبر فورس ٹرین کریں جو آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت سے مکمل واقف ہو۔ اپنا نظامِ تعلیم بہتر کریں۔ بھارت‘ ملائیشیا اور ترکیہ ہم سے ٹیکنالوجی میں آگے نکل گئے ہیں۔ جدید علوم اور جمہوری رویوں کو اپنا کر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved