لاہور کی مال روڈ پر گورنر ہائوس اور ایچی سن کالج کے درمیان رومن ستونوں والی ایک عمارت ہے جس میں پاکستان کی بیوروکریسی کی آخری تربیت کے لیے چھ ماہ کا ایک کورس کروایا جاتا ہے۔ انہیں دنیا کے مختلف ممالک میں گھمایا جاتا ہے اور ان کے ہاں انتظامی مشینری کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کورس کے بعد یہ بیوروکریٹ سرکاری محکموں کے اعلیٰ ترین عہدوں پر تعینات ہونے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ تربیت کے دوران دنیا جہان کے ماہرین ان لوگوں کو حکمرانی کے گُر سکھاتے اور دنیا بھر میں ہونے والے واقعات‘ سانحات اور ان سے جنم لینے والی انتظامی مشکلات پر قابو پانے کے طریقے بھی بتاتے ہیں۔ کیسے کیسے لوگ کیسی کیسی تھیوریاں پیش کرتے ہیں۔ پرانے گرو بھی آتے ہیں اور نئے شہسوار بھی۔ عالمی اقتصادی پس منظر کے ماہر بھی تشریف لاتے ہیں اور مقامی سیاست کے کیڑے بھی۔ سفیر بھی وہاں اپنے ملکوں کا دفاع کرتے ہیں اور دنیا کے بڑے بڑے تھنک ٹینکوں میں بیٹھے مفکرین بھی حیران کن تجزیے آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ دو سال قبل یعنی 2011ء میں مجھے نوکری کے لوازمات کے طور پر اس کورس میں تربیت حاصل کرنا پڑی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈرون حملے عروج پر تھے اور ہر کوئی اس ٹیکنالوجی کے گُن گا رہا تھا۔ حکومت عوام کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کر رہی تھی لیکن اندرونِ خانہ انہیں ایک نعمت تصور کیا جاتا تھا۔ اسی معاملے پر اسی رومن ستونوں والی عمارت جسے عرفِ عام میں سٹاف کالج کہتے ہیں‘ خیبرپختونخوا میں فاٹا کے ایک اعلیٰ ترین ذمہ دار فرد نے حالات و واقعات پر ایک طویل بریفنگ دی۔ یوں تو اس میں بہت سے معاملات کو سرکاری زبان میں ’’خفیہ‘‘ یا سٹیٹ سیکرٹ کا درجہ حاصل تھا لیکن ڈرون حملوں کے بارے میں ان کی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ منہ سے نکلنے والا جملہ ایسا تھا کہ میں سر سے پائوں تک لرز گیا۔ انہوں نے کہا ’’یہ ڈرون نہیں ’’ابابیلیں‘‘ ہیں بالکل ویسی ہی جیسی اللہ نے ابرہہ کے لشکر پر بھیجی تھیں اور انہیں کنکریاں مار کر کھائے ہوئے بھُس کی مانند کردیا تھا‘‘۔ یہ ایک ایسی دلیل تھی جس پر انتظامی امور کے ماہرین تو بہت ہی خوش تھے لیکن ان لوگوں کی بھی حسرت دیکھنے کے قابل تھی جو یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کی طاقت اس ملک میں ہر اس شخص کا خاتمہ کردے جس کے منہ پر اللہ کا نام ہو اور دل میں اسلام سے محبت۔ یہ خواہش صرف پاکستان میں موجود لبرل یا سیکولر افراد اور دانشوروں کی نہیں بلکہ یہ بیماری عالمی ہے۔ سیکولرازم اور لبرل ازم کے سب سے بڑے پرچارک ایچ جی ویلز نے بار بار اس کا اظہار کیا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اس کی تقریر تو دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس نے کہا تھا کہ ہمیں حکومتوں پر قبضہ کر کے سیکولر اخلاقیات اور لبرل خیالات کو زبردستی نافذ کرنا چاہیے اور طاقت کے ساتھ مذہبی تصورات کی بیخ کنی کرنی چاہیے ورنہ مذہبی خیالات والے چھا جائیں گے۔ ایچ جی ویلز کی اس ’’شاندار‘‘ منطق پر بہت سے مسلمان ملکوں میں زبردستی عمل کروایا گیا اور ہر دور کے دانشوروں نے اس تھیوری کا ساتھ دیا۔ مصر میں جمال عبدالناصر برسراقتدار آیا تو اس ظالم فوجی ڈکٹیٹر کو روشن خیال کہا گیا اور اخوان المسلمون کو فتنہ پرداز۔ یہی رویہ شام میں حافظ الاسد‘ عراق میں صدام‘ لیبیا میں قذافی اور دیگر سیکولر ڈکٹیٹروں اور آمروں کے ساتھ روا رکھا گیا۔ پاکستان میں اس کی مثال پرویز مشرف تھی۔ ان سب کی حمایت میں ایک دلیل دی جاتی ہے کہ ’’دیکھو ان کے زمانے میں عالمی برادری میں ہماری کتنی عزت ہے‘‘ یہ لوگ ماورائے عدالت قتل کریں‘ ہزاروں افراد کو لاپتہ کردیں‘ بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں‘ اپنے ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم کردیں‘ ان کے تمام قصور صرف اس بنیاد پر معاف کر دیے جاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے عالمی برادری میں ہمارا امیج بلند ہو رہا ہے۔ یہ تمام کے تمام سیکولر ڈکٹیٹر اس عالمی برادری سے تعریف کی سند صرف اس وجہ حاصل کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ملک میں مذہبی قوتوں کی بیخ کنی کی ہوتی ہے۔ ان کا جینا دوبھر کیا ہوتا ہے۔ ان کے لیے زندگی اذیت ناک بنائی ہوتی ہے۔ انہیں صفحۂ ہستی سے غائب کیا ہوتا ہے۔ انہی سیکولر ڈکٹیٹروں کے حواری ڈرونز کو ابابیلوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ سٹاف کالج میں جب وہ ذمہ دار شخصیت یہ منطق پیش کر رہی تھی اور اس کے لیے میرے دین کا سہارا بھی لے رہی تھی تو میں نے سوال کیا ’’کیا ابرہہ کے لشکر میں بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ کی طرف سے مامور ابابیلیں اور ان کے ہاتھوں میں موجود کنکر اسی طرح غلطی کرتے تھے کہ جیسے امریکہ کے ڈرون کرتے ہیں؟ ابرہہ کے لشکر کا مقام مکہ سے چند میل کے فاصلے پر تھا۔ کیا کوئی ایک ا بابیل بھی اڑ کر یا راستہ بھٹک کر مکہ گئی اور اس نے قریش کے کسی شخص یا گروہ پر کنکریاں پھینکیں؟‘‘ اس سوال کا جواب نہ اس اعلیٰ افسر کے پاس تھا اور نہ ہی ڈرونز کی وکالت کرنے والے کسی بھی شخص کے پاس ہے۔ وہ سینکڑوں بے گناہ جو ان ڈرون حملوں میں مارے گئے ان کے بارے میں میرے ملک کا میڈیا اس قدر بے حس ہے کہ ان کے خاندانوں کے المیے پر ایک رپورٹ تک شائع نہ ہوئی۔ بغداد‘ بیروت اور کابل جا کر جنگوں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے والے اینکر پرسنوں اور کالم نگاروں نے کبھی بھی ان گھروں کی روئیداد بیان نہ کی جن میں معصوم بچوں اور عورتوں کے جسم چیتھڑے بن گئے تھے۔ ان لوگوں سے تو مغرب میں بسنے والے صحافی ہی بہتر نکلے کہ گارڈین نے 25 اکتوبر 2013ء کی اشاعت میں ایک ایسے خاندان کی کہانی شائع کردی جن کے گھر پر 24 اکتوبر 2012ء کو ڈرون حملہ ہوا تھا۔ یہ خاندان میرے ملک میں اپنی کہانی لیے لیے گھومتا رہا لیکن کسی صحافی‘ اینکر پرسن اور انسانی حقوق کے علمبردار کو ان کا خیال نہ آیا۔ ان لوگوں نے اس ملک سے باہر موجود انسانوں کو پکارا اور کہانی چھپ گئی جو یوں تھی۔ جس دن ان کے گھر پر ڈرون حملہ ہوا اس وقت ان کی 65 سالہ ماں مومنہ بی بی عید سے پہلے سویاں تیار کر رہی تھی۔ رفیق الرحمن کے تین بچے 13 سالہ زبیر‘ 9 سالہ نبیلہ اور 5 سالہ اسماء باہر کھیل رہے تھے جو شدید زخمی ہوئے۔ اگلے دن اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ ڈرون حملے میں 5 شدت پسند مارے گئے اور ڈرون حملہ ایک گاڑی پر کیا گیا حالانکہ اس پورے علاقے میں کوئی سڑک ہی نہیں ہے۔ مومنہ ایک بزرگ خاتون تھی جو پورے گائوں میں واحد دائی تھی جبکہ اس گائوں سے میلوں دور بھی کوئی ہسپتال نہیں ہے۔ یہ صرف ایک کہانی ہے۔ ہر ڈرون حملے کی ایسی ہی کئی کہانیاں ہیں۔ ایسے ہی جھوٹ ہیں جو پہلے امریکہ بولتا ہے پھر پاکستانی میڈیا ان کو اٹھاتا ہے کہ اتنے دہشت گرد مارے جا رہے ہیں۔ کیا شاندار منطق ہے کہ ڈرون حملے طالبان کی کمر توڑ سکتے ہیں۔ اگر یہی دلیل پورے ملک کے لیے مان لی جائے تو پھر ہر تھانے کے ایس ایچ او کو چند میزائل‘ بم یا توپیں دے دی جائیں کہ جائو فلاں مجرم کے گھر پر حملہ کرو اور وہاں جو بھی موجود ہے اس کو ماردو۔ عین ممکن ہے کہ بچوں کے ساتھ مجرم بھی مارا جائے۔ نہ مارا جائے تو پھر بھی تمہارے حامی صحافی اور دانشور اس کے مرنے کا اعلان کر ہی دیں گے اور تمہارے اس قاتلانہ فعل کی حمایت بھی کریں گے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اس ملک کے سیکولر اور لبرل طبقے کے سر سے پہلے پرویز مشرف کا سایہ اُٹھا اور اب امریکہ بھی اپنا بوریا بستر لپیٹ کر جا رہا ہے۔ ان کی حالت سعادت حسن منٹو کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پاگل خانے کے دو کرداروں جیسی ہو گئی ہے۔ یہ کردار یوروپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی۔ یوروپین وارڈ رہے گا یا اڑا دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاتی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved