تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     28-07-2024

دے دھرنے پہ دھرنا

یاد پڑتا ہے کہ زمانۂ طالبعلمی میں‘ پہلے کالج او رپھر یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کا فیورٹ نعرہ ہوتا تھا: دے رگڑے پہ رگڑا۔ سب لڑکے گلا پھاڑ کر یہ نعرہ لگاتے تھے۔ شاید اُن کو لگتا تھا کہ اس نعرے میں اتنی طاقت ہے کہ مخالف گروپوں کو وہی جسمانی اذیت محسوس ہو گی جو کسی کو واقعی رگڑا دینے میں محسوس ہوتی ہے۔ نعرے مار مار کر سب کے منہ لال ہوتے‘ آنکھیں باہر کو نکل آتیں مگر بازو ہلا ہلا کر یوں لگتا جیسے دو میٹر مزید لمبے ہو گئے ہوں۔ ہر موقع پر گلا پھاڑ کر ایک ہی نعرہ: دے رگڑے پہ رگڑا۔ اگر تھکاوٹ کا احساس ہونے لگتا تو ایک تازہ دم طالبعلم کہیں سے نمودار ہوتا اور پوری قوت سے یہی نعرہ لگواتا اور تھکے ہارے ہجوم میں دوبارہ جان پڑ جاتی اور یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا۔ اس دوران ناک سرخ ہو جاتا‘ زبان باہر نکل آتی اور آخرکار دو‘ چار گھنٹے بعد کوئی کہتا: چلو یار کینٹین پر چل کر کچھ کھلائو اور پھر سب اپنی محنت مزدوری کا صلہ انڈا برگر اور ایک بوتل پی کر وصول کرتے اور خوش ہوتے کہ آج انہوں نے مخالفین کی بولتی بند کر دی‘ اب وہ کئی دن تک باہر نہیں نکلیں گے اور اپنے زخموں کو چاٹتے رہیں گے۔ چوبیس گھنٹوں بعد مخالف سٹوڈنٹ وِنگ کے لوگ بھی اپنے لڑکوں کو بہلا پھسلا کر لے آتے۔ وہ بھی دو‘ تین گھنٹے اسی طرح گلا پھاڑتے اور پھر کینٹین پر وہی انڈا برگر اور بوتل پی کر مطمئن ہو جاتے کہ ہم نے مخالفوں کو جواب دے دیا ہے۔ ان تمام واقعات کا میں عینی شاہد ہوں۔
اب رگڑے سے بات دھرنے پہ آگئی ہے۔ دے دھرنے پہ دھرنا۔ اب جو پارٹی دھرنا نہیں دے سکتی‘ اسے کوئی پارٹی ماننے کو تیار ہی نہیں۔ لہٰذا آپ نوٹ کریں کہ پچھلے پندرہ سال سے اب مسلسل اس ملک میں دھرنے اور لانگ مارچ ہو رہے ہیں اور اب تک ہر پارٹی یہ سب کچھ کر چکی ہے۔ اب یہ فیشن اور سیاسی کلچر بن چکا ہے۔ یہ بھی اپنی قسم کا ایک نشہ ہے کہ آپ ہزاروں لوگوں کو اپنے پیچھے لگا کر انکے گھر بار‘ بیوی بچے چھڑوا لیں۔ وہ بھی نوکری اور کام دھندا چھوڑ کر ایک شخص کے پیچھے چل پڑیں کہ ہم ملک ٹھیک کرنے جا رہے ہیں۔
اسلام آباد کی حالت دیکھیں‘ ہر دفعہ ایسا لگتا ہے کہ شاید کوئی غیر ملکی فوج اس طرف چل پڑی ہے۔ قدیم زمانوں میں ہم دیکھتے تھے کہ فوجیں کسی شہر کا گھیرائو کرتی تھیں تو وہ قلعے کے اندر مورچہ بند ہو کر بیٹھ جاتے۔ شہر کی فصیلوں پر تیر انداز اور جنگجو کھڑے کر دیے جاتے اور شہر سے باہر خندقیں کھود دی جاتیں۔ شہر میں راشن اکٹھا کر لیا جاتا اور کئی ماہ تک یہ لڑائی اسی طرح چلتی رہتی۔اسلام آباد بھی اسی طرح کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہر چند ماہ کوئی نہ کوئی جتھا یا گروہ اس پر چڑھائی کرنے آ جاتا ہے۔ شہر کے آنے جانے کے سبھی راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ بھاری کنٹینرز لگا دیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی شہر سے اندر یا باہر نہیں جا سکتا۔ تمام راستے بند! اب یوں لگتا ہے جیسے اس شہر پر حملہ ہونے والا ہے۔ ہر چہرہ خوفزدہ۔ پھر دھرنے والے آتے ہیں‘ پولیس سے لڑائیاں اور جھڑپیں ہوتی ہیں۔ پولیس کے جوان بھی اسی ہجوم یا کلاس یا خاندانوں سے آئے ہیں جس سے دھرنے والے آئے ہوتے ہیں۔ یوں ایک ہی کلاس اور خاندانوں کے جوان ایک دوسرے کی رج کر پھینٹی لگاتے ہیں۔ اپنے تئیں جوانوں کا ایک گروپ اپنے سیاسی لیڈروں کے مفادات کا تحفظ کرنے آتا ہے۔ وہ لیڈر اوراس کے حامی اس ملک کو عظیم بنانے نکلے ہوتے ہیں۔ جبکہ پولیس کے جوانوں کو بتایا جاتا ہے کہ یہ شرپسند ہیں‘ جو اس ملک کو چلنے نہیں دے رہے‘ یہ مسائل کی جڑ اور اصل خرابی ہیں۔ یوں دونوں گروپ ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ ایک گروہ اپنے تئیں ریاست بچا رہا ہے تو دوسر ا اپنے لیڈر کے کہنے پر ریاست کو عظیم بنانے نکلا ہے۔ دونوں جوانوں کا بیک گراونڈ ایک ہی ہے‘ جن لیڈروں کے پیچھے یہ لگے ہوتے ہیں‘ ان کے بچے ہوں یا کاروبار‘ وہ بیرونِ ملک سیٹل ہیں۔ نہ ان لیڈروں نے نو سے پانچ کی نوکری کرنی ہے‘ نہ انہوں نے بچوں کی فیسیں دینی ہے‘ نہ علاج معالجے پر خرچ کی کوئی فکر ہے۔ اور تو اور گاڑیاں‘ ہٹو بچو‘ پروٹوکول اور ترقیاتی فنڈز میں ڈاکے بھی عوام سے ٹیکس لے کر ڈالنے ہیں۔ سب کچھ عوام کی جیب سے لیتے ہیں۔ حکومت میں ہوں تو سرکار سے سب کچھ فری ملتا ہے۔ پٹرول‘ گیس‘ بجلی کے بل‘ سب فری۔ گاڑیاں فری‘ سفر فری‘ ایئر ٹکٹس فری اور بادشاہی الگ۔ ہاں اگر اپوزیشن میں آ جائیں تو پھر ان کے بہت سارے ڈونر زاور چندہ دینے والے ہوتے ہیں جو انہیں فنڈنگ کرتے ہیں۔ یہ مفت کا لنچ نہیں ہوتا‘ ان ڈونرز کو حکومت میں آنے کے بعد بہت سارے فوائد دیے جاتے ہیں۔ ان کے ٹیکس معاف ہوتے ہیں‘ جرمانے معاف ہوتے ہیں۔ ان کے کہنے پر افسران کو عہدے دیے جاتے ہیں‘ جہاں وہ ساتھ مل کر ڈاکے مارتے ہیں۔ ہائوسنگ سوسائٹی والے سب سے بڑے ڈونر ہوتے ہیں کہ اکثر نے قبضے کرنے ہوتے ہیں‘ زرعی زمینو ں کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔ کسی ڈونر کو کروڑوں ڈالرز کی گاڑیاں امپورٹ کرنے کی اجازت مل جاتی ہے‘ چاہے آپ خود دنیا بھر سے ڈالروں کی بھیک مانگ رہے ہوں۔ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارت سے چار فیصد سود پر لائے گئے پانچ ارب ڈالرز میں سے تین ارب ڈالرز اپنے پسندیدہ تاجروں کو بغیر سود کے بانٹ دیے جاتے ہیں کہ جائو بچہ عیاشی کرو۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ ان بزنس مینوں نے تین ارب ڈالرز لے کر مشینری منگوانے کے نام پر اوور انوائسنگ کر کے ڈالرز باہر شفٹ کیے۔ اندازہ کریں کہ تین ارب ڈالرز آپ کو بغیر سود کے مل جائیں اور ساتھ ہی آپ کو امپورٹ کی اجازت بھی مل جائے‘ ایسے وقت میں جب آپ کا ملک پوری دنیا سے بھیک مانگ رہا ہو‘ تو سوچیں کہ پھر کیا ہوگا؟
اسی عوام کو لوٹ کر‘ ان کو ہی اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ جس عوام کو سب سے زیادہ سکون اور استحکام کی ضرورت ہے‘ وہ ان سب کے پیچھے لگ کر اپنے شہر کو خود ہی بند کر دیتے ہیں۔ وہی ہنگامے اور دنگے کرتے ہیں۔ اس ملک میں دھرنے دیکھ کر کس نے سرمایہ لگانا ہے یا نوکریاں دینی ہیں؟ کبھی فیض آباد بند ہے تو کبھی ڈی چوک پر دھرنا ہے۔ ہر طرف کنٹینرز ہی کنٹینرز ہیں۔ پھر سب نے دھرنا بھی ڈی چوک پر دینا ہے تاکہ پوری دنیا دیکھے۔ پورا شہر جب بند ہو جائے تو ان لیڈرں کی آنکھوں میں چمک دیکھا کریں۔ پورا ملک جام کرنے کے بعد ان کی خوشی دیکھا کریں۔ ان کا لب و لہجہ فخر سے بھر جاتا ہے کہ دیکھا! پورا ملک جام کر دیا۔
نواز شریف نے ٹرین مارچ کیے‘ قاضی حسین احمد نے دھرنے شروع کیے۔ پھر طاہر القادری پیپلز پارٹی دور میں دھرنا دینے آئے تو رحمن ملک نے پہلی دفعہ پورے اسلام آباد کو کنٹینروں سے بھر دیا۔ پھر عمران خان نے مشہورِ زمانہ دھرنا دیا۔ پھر لبیک والوں نے فیض آباد پر دھرنا دیا۔ پھر مولانا فضل الرحمن دھرنا دینے پہنچ گئے۔ پھر لبیک والے دوبارہ آن پہنچے، ابھی کچھ ہفتے قبل جماعت اسلامی نے دو ماہ ڈی چوک کو بند کیے رکھا اور دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔ چند دن پہلے ہی لبیک والے فیض آباد سے ہو کر گئے ہیں۔ پانچ دن لوگوں کی زندگیاں عذاب بنی رہیں۔ اب پھر جماعت اسلامی والے دھرنا دینے آ گئے ہیں۔ پھر پورا شہر بند اور پھر وہی کنٹینرز۔
اب بتائیں کہ یہ ملک کیسے چلے گا۔ جب عوام ان لوگوں کے ساتھ اپنے ہی ملک کو لاک اور جام کرنے چل پڑے تو پھر کیا ہو گا؟ یہ لوگ مزید غریب ہوں گے۔ اور یہ لیڈر... یہ ہر دفعہ مقتدرہ سے مل کر حکومت میں آ جاتے ہیں۔ اگر مقتدرہ ایک کو نکال دے تو وہ ناراض‘ دوسرے کو لائے تو تیسرا ناراض۔ یہی عوام اپنے اپنے لٹیروں کو پاور میں لانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بس لٹیرا ہمیں مرضی کا دو۔ اور یہ لٹیرے عوام کی کمائی گئی دولت پر ٹیکس لے کر عیاشی کرتے ہیں۔ اور عوام کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ دے دھرنے پہ دھرنا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved