اگر حال میں بندہ بے حال ہو اور مستقبل میں سوائے بدحالی کے کچھ نظر نہ آئے تو فطری طور پر لوگ آہیں بھر کر کچھ اچھے وقتوں کو یاد کرتے ہیں۔ جب ملک آزاد ہوا تھا اس کے پچیس سال بعد تک بلکہ کچھ دیر آگے تک ہم خوش حال تھے‘ آنکھوں میں چمک تھی‘ دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن تھے۔ ہماری آبادی اگرچہ ہمارے قدرتی وسائل کی نسبت قدرے متناسب تھی‘ ہمارے اس وقت کے منصوبہ سازوں میں آبادی کی شرح افزائش پر تشویش تھی‘ اور چند کروڑ آبادی کے باوجود خاندانی منصوبہ بندی پر بہت زور تھا۔ ہم نے طالب علمی کے اُس دور میں ہر سطح پر ایک منظم اور متحرک تحریک دیکھی۔ افسوس کہ ہماری ایک مذہبی سیاسی جماعت نے خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف مہم شروع کر رکھی تھی۔ شہر صاف ستھرے‘ پُررونق‘ مغل اور برطانوی راج کے فنِ تعمیر کا خوبصورت نمونہ پیش کرتے تھے۔ پہلے دو شہر جو اوائلِ جوانی میں دیکھے وہ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان تھے‘ اور کوٹ مٹھن بھی جہان سرائیکی وسیب کے مشہور صوفی بزرگ اور صاحبِ طرز شاعر خواجہ غلام فرید کا مزار ہے۔ راجن پور چھوٹا سا آموں کے باغوں میں گھرا ہوا قصبہ تھا۔ کوٹ مٹھن اور ڈیرہ غازی خان انگریز دور میں خوبصورت منصوبہ بندی سے تعمیر ہوئے تھے۔ جس طرح ہم اسلام آباد کی بات کرتے ہیں کہ ماہرین کی ایک پوری ٹیم کی خدمات یونان سے حاصل کی گئیں جنہوں نے نقشہ بنایا اور پورا شہر بسایا اسی طرح انگریزی ماہرینِ تعمیرات نے مقامی موسموں‘ آب وہوا‘ بود وباش کو سامنے رکھتے ہوئے کوٹ مٹھن اور ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی۔ عرض یہ کرتا چلوں کہ یہ دونوں شہر دریائے سندھ کے کنارے تھے۔ ایک بڑے سیلاب نے دونوں قصبوں کو دریا برد کر دیا تو کچھ فاصلے پر نئے شہر آباد کیے گئے۔ ان دونوں جگہوں پر درمیان میں ٹائون ہال قسم کی خوبصورت عمارتیں تھیں۔ گولائی میں ہر طرف پانچ وسیع سڑکیں نکلتی تھیں۔ ٹائون پلاننگ کا یہی نمونہ آپ نئی دہلی میں دیکھ سکتے ہیں جہاں تقریباً اُسی دور میں نیا شہر آباد کیا گیا تھا۔ ڈیرہ غازی خان میں اسی طرز پر ایک گول چوک اور پھر اس سے مختلف اطراف کو نکلتی ہوئی کئی سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ ڈیرہ غازی خان میں اب بھی پرانے بلاک موجود ہیں مگر آبادی اور حکمرانوں نے ان کا ایسا حلیہ بگاڑا ہے کہ آپ صرف پرانی منصوبہ بندی کے کچھ آثار ہی دیکھ سکتے ہیں۔
لاہور میں پہلی بار 1969ء میں جامعہ پنجاب میں تقریری مقابلے کی غرض سے آئے تو دل اور دماغ کی آنکھیں کھل گئیں کہ شہر اتنے خوبصورت اور عمارتیں اتنی شاندار بھی ہو سکتی ہیں۔ جامعہ پنجاب کا سینٹ ہال‘ جہاں ہم گرجے برسے تو بہت مگر ٹرافی کسی اور کے ہاتھ آئی‘ آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پرانے کیمپس کی عمارتیں‘ سامنے عجائب گھر اور ٹائون ہال کے علاوہ انگریزی دور کا بنا ہوا گورنمنٹ کالج آج بھی دل خوش کن نظارہ پیش کرتا ہے۔ ایک دو سال بعد جامعہ پنجاب میں داخلہ لیا تو لاہور کے ہر حصے کو بار بار دیکھا اور ساری عمر اب تک اندرونِ شہر ہو یا مغلیہ دور کی نشانیاں‘ وقت ملنے پر دیکھتے رہتے ہیں۔ تاریخی لاہور اب جدید لاہور کے بے ہنگم پھیلائو‘ گرد اور دھویں میں دب کر اپنی شناخت نہ جانے کب تک برقرار رکھ سکے گا کہ ہمارے عوام اور حکمرانوں کو تاریخ اور تہذیب کی قدر نہیں۔ آبادی جس طرح ہر سمت اور ہر علاقے میں پھیلی ہے‘ اس سے کیا کچھ بچ سکتا ہے۔ ویسے اب رہ بھی کیا گیا ہے۔
اسلام آباد گزشتہ نصف صدی سے میرا شہر ہے جس کے ایک کونے میں ہم آسودہ ہیں مگر جس انداز میں اس کے مضافات میں ہمارے حکمرانوں نے سوسائٹیوں کے پھیلائو کی اجازت دی ہے یہ اب مری‘ ٹیکسلا‘ گوجر خان اور فتح جنگ تک پھیل چکا ہے۔ جس طرح راول ڈیم سے لے کر مری تک کی پہاڑیوں کے اندر شاملاٹ‘ سرکاری جنگلات پر قبضہ کروا کے آبادی کا پھیلائو جاری ہے اس کا آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ یہ سب کچھ مال بنانے کی غرض سے کیا گیا۔ سامراجیوں نے یہ کام نہیں کیا تھا بلکہ جنگلات اور شاملاٹ کے لیے زمین مختص کی تھی۔ میرے سامنے جنوری 1967ء اور اپریل 1985ء کے نیشنل جیوگرافک کے شمارے رکھے ہیں۔ کبھی کبھار ان پر نظر ڈال کر کچھ ماضی کے جھروکوں سے ایسے وقت کے اسلام آباد اور لاہور کو دیکھ لیتا ہوں۔ پہلے شمارے میں ایک زبردست تصویر ہے جس میں سیکرٹریٹ کی چند نئی عمارتیں مارگلہ ہلز کے گہرے سبز پس منظر میں ہیں اور سامنے کھیت ہی کھیت ہیں۔ پہلی مرتبہ اسلام آباد دیکھا تو یہ شہر صرف ایمبیسی روڈ اور زیرو پوائنٹ کے درمیان تھا۔ صرف چار مارکیٹیں تھیں‘ کورڈ‘ آبپارہ‘ میلوڈی اور سپر۔ آبپارہ کا کامران ریستوان ہمارا پسندیدہ ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔ دوسرے شمارے کے کور پر ملک کی مایہ ناز گلوکارہ‘ طاہرہ سید کی فوٹو ہے۔ ہاتھ میں ستار‘ روایتی گلابی لباس اور سونے کے زیورات میں سجی‘ پورے ایک دور کی عکاسی کر رہی ہیں۔ پہلے شمارے کے کور پر دو لڑکیاں روایتی سرخ لباس میں جھولے کے مزے لے رہی ہیں۔ اس طرح کی فضا میں اور کور فوٹو ہمارے ملک کے بارے میں اب قصہ پارینہ ہیں۔ اب کیمرے کی آنکھ کچھ اور دیکھتی ہے اور باہر کے لکھنے والے کی توجہ کا ارتکاز کچھ اور باتوں پر ہے۔
بار بار کہتا ہوں کہ ہماری بربادی کے ذمہ دار حکمران ٹولے ہیں ‘جو بہت بڑے فضائی حادثے‘ جو ابھی تک معمہ ہے اور سچ پوچھیں تو یہ کوئی راز نہیں مگر بات کرنے کی ہم میں ہمت نہیں‘ کے بعد بار بار آئے اور لائے جا رہے ہیں۔ سوائے اس ملک کی دولت اور عوام کو لوٹنے کے اور کیا کیا ہے؟ آبادی کو صرف منصوبہ بندی‘ معاشی اور سماجی ترقی کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے مگر کبھی یہ ترجیحات میں شامل نہ تھیں‘ اور نہ اب ہیں۔ اس وقت تو عوام اور حکومت بجلی کے بلوں پر پریشان ہیں‘ اگر نہیں تو وہ جنہوں نے یہ عوام اور ملک دشمن معاہدے کرکے اپنے وارے نیارے کیے ہیں۔ تھوڑا اس آبادی کا بھی موازنہ کر لیں تو شہروں‘ دیہات اور چھوٹے قصبات کی بربادی آپ پر واضح ہو جائے گی۔ روس رقبے اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے مگر اس کی آبادی صرف 14 کروڑ ہے جو گزشتہ تین دہائیوں میں چالیس لاکھ کم ہوئی ہے۔ چین نے کبھی ایک بچہ پالیسی طاقت کے زور پر نافذ کی تھی کہ آبادی کے پھیلائو پر قابو پایا جائے۔ اب اس کی آبادی کم ہونا شروع ہو چکی ہے۔ جاپان‘ جس کا رقبہ تقریباً ہمارے برابر ہے‘ کی آبادی بارہ کروڑ سے کچھ زیادہ ہے‘ اور اس میں کمی آ رہی ہے۔ یورپی ممالک کی آبادی بھی کم ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً اٹھارہ کروڑ یعنی ہم سے چھ کروڑ کم ہے۔ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہمارا سفر کس طرف ہے۔ اس کا اندازہ آبادی کی رفتار سے ہو جانا چاہیے۔ جہاں صنعتیں لگی ہیں‘ معیاری سرکاری تعلیم سب کے لیے ہے اور صحت کے نظام کو بہتر بنایا گیا ہے وہاں آبادی کنٹرول ہوئی ہے۔ اس رفتار سے تو ہم اب پانچواں بڑا ملک بن چکے ہیں مگر کوئی شہر اور قصبہ رہنے کے قابل نہیں۔ ہمارے حکمران طبقات کو اس کا علم ہے‘ اس لیے تو ان کے محلات اور دولت بیرونی ممالک میں ہے۔ ہمیں تو اچھے ماضی کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved