ملک کے معاشی مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ عوام مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں اور حکومت پریشان ہے کہ ملک کا معاشی نظام چلانے کیلئے ڈالرز کہاں سے آئیں گے۔ دونوں کے مسائل حل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ وزیر خزانہ چین کے دورے سے وطن واپس پہنچ چکے ہیں لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دورۂ کتنا کامیاب رہا۔ جب دورے سے واپسی پر خاموشی اختیار کی جائے اور کوئی واضح بیان نہ دیا جائے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو ئے۔ وزیر خزانہ کے دورۂ چین کا مقصد واجب الادا قرضوں اور سود کو ری شیڈول کرانا تھا۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً 15 ارب ڈالرز ری شیڈول کرانے کی درخواست کی گئی مگر یہ سننے میں آیا ہے کہ وہ نجی سرمایہ کار جنہوں نے آئی پی پیز میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی رقم جلد از جلد واپس کی جائے۔ پاکستان کی جانب سے ماضی میں لیے گئے قرضوں پر شرح سود میں کمی اور قرض کی شرائط میں نرمی کا مطالبہ بھی کیا گیاتاکہ بجلی کی قیمتوں میں اعتدال لایا جا سکے اور آئی ایم ایف کو مطمئن کیا جا سکے۔مبینہ طور پر چینی سرمایہ کاروں نے منافع کی شرح کم کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔ سی پیک کے منصوبوں پر مستقبل میں سرمایہ کاری کے وعدے کیے گئے ہیں لیکن قرضوں کی مدت بڑھانے پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ چینی آئی پی پیز کو بروقت ادائیگیوں کیلئے ماضی میں چین کی جانب سے حکومتی سطح پر بھی پاکستان سے کہا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا بھی مطالبہ ہے کہ چینی قرضوں کی مدت بڑھائی جائے تاکہ مالی بوجھ کم ہو سکے۔ اگر چین کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو آئی ایم ایف پروگرام میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ چین سے قرضوں پر رعایت اس لیے مانگی جا رہی ہے تاکہ آئی ایم ایف سے قرض مل سکے۔ کاش یہ رعایت اس لیے مانگی جا رہی ہوتی کہ پاکستان اپنی برآمدات بڑھانا چاہتا ہے اور ریلیف کی رقم سے سرمایہ کاروں کو سہولتیں دینا چاہتا ہے۔ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے لیکن اب شاید اس کا پیمانۂ صبر بھی لبریز ہو چکا ہے۔ہم نے بھی گویا اپنی کل ذمہ داری چین کے کندھوں پر ڈال دی تھی۔ چین کے ساتھ سمندر سے گہری اور پہاڑوں سے بلند دوستی اپنی جگہ مگر حکومت اس دوستی سے حقیقی فائدہ اٹھانے کیلئے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ ساری توجہ چین سے قرض لینے اور پچھلے قرض کی مدت بڑھانے پر ہے۔ پچھلے پانچ برس میں پاکستان کی چین کو برآمدات میں ایک فیصد بھی اضافہ نہیں ہو سکا۔ پچھلے پانچ سالوں سے چین کو برآمدات تقریباً 2.7 ارب ڈالرز کی سطح ہی پر ہیں جبکہ مالی سال 2024ء میں چینی درآمدات تقریباً 13 ارب ڈالر رہیں۔ حکومت کو قرضوں پر ملک چلانے کی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پالیسی کب تبدیل ہو گی‘ اس بارے کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
اس وقت برآمدات کی صورتحال یہ ہے کہ جن ممالک نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کی خصوصی رعایت دے رکھی ہے ان ممالک کو بھی برآمدات بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہیں۔ یورپی یونین کو مالی سال 2024ء کے ابتدائی نو ماہ میں چھ ارب دس کروڑ ڈالرز کی برآمدات کی گئیں جو پچھلے مالی سال کے اسی دورانیے میں چھ ارب 27کروڑ ڈالر تھیں۔ مالی سال 2023ء میں بھی برآمدات مالی سال 2022ء کی نسبت لگ بھگ چار فیصد کم ہوئی تھیں۔ برآمدات میں کمی ایک تسلسل سے جاری ہے اور اس کی وجہ بھارت اور بنگلہ دیش کی کم قیمت مگر اعلیٰ کوالٹی پراڈکٹس ہیں جن کے سبب پاکستانی مصنوعات کی مانگ کم ہو رہی ہے۔ پاکستانی بر آمدکنندگان کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگی بجلی ہے‘ جسے حل کرنے کے لیے سرکار سنجیدہ نظر نہیں آ رہی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ کام بھی اب نجی شعبے کو عدالتی اور عوامی طاقت سے کرنا پڑے گا۔ مہنگی بجلی کی سب سے بڑی وجہ آئی پی پیز کے معاہدے ہیں۔ سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے ان آئی پی پیز کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ ملک میں جو کام کسی ادارے سے نہ ہو رہا ہو وہ عدالت کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ آئی پی پیز کا معاملہ سراسر ناانصافی کا ہے۔ بجلی پیدا کی جائے یا نہ کی جائے‘ ادائیگی کرنا ہو گی وہ بھی ڈالرز میں۔ آئی پی پیز میں سے آدھے 10 فیصد کپیسٹی سے بھی کم پر کام کر رہے ہیں اور ڈالرز پوری استعداد کے وصول کر رہے ہیں۔ تقریباً چار پاور پروڈیوسرز ایسے ہیں جو ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہیں کر رہے لیکن ہر ماہ 10 ارب روپے لے جاتے ہیں۔ ان آئی پی پیز کے پیچھے تقریباً چالیس خاندان ہیں مگر ان چالیس خاندانوں کو خوش کرنے کے لیے چوبیس کروڑ عوام اور ملکی برآمدات کو دائو پر لگا دیا گیا ہے۔ اپنی ایک بوٹی کے لیے پوری گائے ذبح کر دی گئی ہے لیکن شاید کسی کو بھی کوئی ملال نہیں ہے۔ سابق نگران وفاقی وزیر کی کاوش قابلِ ستائش ہے لیکن انہیں اس وقت آواز اٹھانی چاہیے تھی جب وہ خود وفاقی وزیر تھے‘ تب یقینا اس کا زیادہ اثر ہوتا۔ خیر دیر آید درست آید۔ البتہ حکومت اس معاملے پر خاموش ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وزرا‘ مشیران اور ان کے بچے اور رشتہ دار بھی آئی پی پیز کی ملکیت رکھتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک میں بجلی کا بحران جان بوجھ کر پیدا کیا گیا اور پھر اس بحران کو ختم کرنے کیلئے سیاستدانوں نے خود ہی پلانٹس لگا کر ایسے معاہدے کر لیے جن کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ اگر سپریم کورٹ آئی پی پیز کے معاہدے ختم کر کے نئے معاہدے کرنے کا حکم دیتی ہے تو اس سے ملکی انڈسٹری کو بہت بڑا سہارا مل سکے گا اور عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
مہنگی بجلی کے خلاف جماعت اسلامی عوامی آواز بن کر سامنے آئی ہے۔ اگرچہ بجٹ پیش ہونے کے بعد سے تقریباً ہر طبقہ احتجاج کرتا دکھائی دے رہا ہے مگر یہ احتجاج پہلے انفرادی تھے لیکن اب محسوس ہو رہا ہے کہ جماعت اسلامی کی سربراہی میں مہنگائی کے خلاف ہونے والے احتجاج اور دھرنوں میں تمام طبقوں کی نمائندگی ہو گی۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہونے والے لانگ مارچ اور دھرنوں کا موضوع الیکشن میں دھاندلی رہا ہے۔ حالیہ عرصے میں معاشی ناانصافی کے خلاف یہ شاید پہلا دھرنا ہے۔ جماعت اسلامی کااحتجاج ایک مثبت قدم ہے مگر امیر جماعت اسلامی سے گزارش ہے کہ اس احتجاج کو سیاسی نہ بننے دیں بلکہ اپنا تمام فوکس معاشی مسائل پر رکھیں۔ اس سے دیگر سیاسی جماعتوں کے افراد بھی ان کا ساتھ دیں گے اور ملکی معاشی مسائل بھی حل ہونے کی راہ نکل سکتی ہے جبکہ خود جماعت اسلامی بھی اس سے مضبوط ہو گی۔ دھرنے اور لانگ مارچ اسی وقت کامیاب ہوتے ہیں جب لیڈر شپ عوام کے ساتھ سڑکوں پر ہو۔ اس حبس کے موسم میں امیر جماعت اسلامی کا سڑک پر بیٹھ کر عام کارکنوں کی طرح احتجاج کرنا قابلِ ستائش ہے۔ ابھی تک حافظ نعیم الرحمن کی جانب سے دس مطالبات سامنے آئے ہیں اور ان میں سیاسی نوعیت کا کوئی بھی مطالبہ نہیں ہے بلکہ تمام مطالبات معاشی مسائل پر مرکوز ہیں۔ 500 یونٹ تک ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو 50 فیصد رعایت‘ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا خاتمہ‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی فوری واپسی‘ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں 20 فیصد کمی‘ سٹیشنری آئٹمز سمیت بچوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق تمام آئٹمز پر ٹیکس کی واپسی‘ غیر ترقیاتی اخراجات پر 35 فیصد کٹ‘ آئی پی پیزکے ساتھ کپیسٹی پیمنٹ اور ڈالر میں ادائیگی کے معاہدوں کا خاتمہ‘ زراعت اور صنعت پر ٹیکسوں کا ناجائز‘ ناقابلِ برداشت بوجھ 50 فیصد کم کرنا اور صنعت‘ تجارت اور سرمایہ کاری کو یقینی بنانا‘ تنخواہ دار طبقے پر سے ٹیکسوں کا ظالمانہ بوجھ واپس لینا اور مراعات یافتہ طبقہ سے ٹیکس وصول کرنا۔ یہ مطالبات عوام کی آواز ہیں۔ اگر جماعت اسلامی ان میں سے نصف مطالبات بھی منوانے میں کامیاب ہو گئی تو یہ اس کی بہت بڑی جیت ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved