اس دور میں‘ جب اچھی خبریں ناپید ہیں‘ اچانک ایک خوش کن اور حیران کن خبر سامنے آئی ہے۔ بیجنگ میں فلسطینی دھڑوں کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا ہے جس میں چین نے مصالحت کار کا فریضہ انجام دیا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ‘ جو 1948ء سے عالم اسلام کا ناسور بنا ہوا ہے‘ سے متعلق اچھی خبریں آتی ہی نہیں‘ اور جو خبر آتی ہے‘ فلسطینیوں کی شہادت کی اطلاع لے کر آتی ہے۔ اس لیے اس آشوب میں کوئی امید کی کرن دکھائی دی ہے تو اسے بڑی خبر ہی سمجھا جائے گا۔ اگرچہ اس کے نتائج کا مرحلہ ابھی کافی دور ہے۔
پہلے آپ خبر کی تفصیل جان لیں۔ یہ فلسطینیوں کی یکجہتی اور یکجان ہو جانے کا غیر معمولی اعلان ہے۔ اعلانِ بیجنگ 14 فلسطینی دھڑوں میں سہ روزہ مذاکرات کے بعد سامنے آیا ہے لیکن ظاہر ہے‘ اس کیلئے پس پردہ کوششیں چند روزہ نہیں مہینوں پر محیط ہوں گی اور اس کے حتمی مرحلے پر ہی بڑے نمائندوں نے ایک میز پر بیٹھ کر فیصلے اور اعلامیے پر دستخط کئے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھا جانا چاہیے کہ مہینوں سے اس پر کام ہو رہا تھا۔ ان 14 دھڑوں میں حماس اور الفتح بھی شامل ہیں جو فلسطینیوں کے سب سے بڑے گروپ ہیں۔ مشترکہ اعلان کیا گیا ہے کہ سب دھڑے پی ایل او (Palestine Liberation Organization) کے بینر تلے یکجا ہوں گے‘ مل کر فلسطینی آزادی کیلئے کام کریں گے اور غزہ میں جنگ ختم ہونے کے بعد مغربی کنارے اور غزہ میں ایک ہی پرچم تلے حکومت قائم کی جائے گی۔ فلسطین کی آزادی اور خودمختار ریاست کیلئے مل کر جدوجہد کی جائے گی‘ اس ریاست کا دارالحکومت یروشلم ہو گا۔ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور جنرل اسمبلی کی 11 دسمبر 1948ء کی قرارداد 194 کے مطابق ہو گا۔ یہ تمام دھڑے غزہ میں فلسطینی قتل عام روکنے اور فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کے خلاف قومی سطح پر مل کر کام کریں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ دھڑے‘ جن میں کئی آپس میں برسر پیکار بھی رہے اور ان کے بیچ عشروں پر پھیلی ہوئی خلیج تھی‘ ایک جگہ اور ایک تنظیم کے تحت جمع ہو رہے ہیں۔ ان چودہ دھڑوں میں الفتح‘ حماس‘ پی ایل ایف پی‘ ڈی ایف ایل پی سمیت چھوٹے بڑے تمام گروپس شامل ہیں۔
عالمی منظر نامہ دیکھیں تو چین خاموشی سے عالمی سطح پر امریکی اور امریکی حلیفوں کی پالیسیوں کے توڑ کیلئے کام کر رہا ہے۔ فلسطین بھی اس کی توجہات میں شامل ہے۔ اہلِ فلسطین پر ظلم کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ فلسطینی مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ خاص طو رپر حماس اور الفتح جو دو بڑی جماعتیں ہیں‘ کے درمیان کشمکش کی ایک طویل تاریخ ہے۔ حماس کا نظریہ تھا کہ الفتح کی پالیسیاں فلسطینی مقاصد کیلئے کمزور اور غیر مؤثر رہی ہیں۔ دوسری طرف الفتح کے دل میںحماس کی طرف سے غزہ کی پٹی سے بے دخل کیے جانے کا زخم موجود ہے۔ اسی لیے ان کا ایک جگہ بیٹھنا اور مل کر کام کرنا بڑی خبر ہے۔اپریل میں چینی وزارتِ خارجہ کا اعلان سامنے آیا تھا کہ حماس اور الفتح اختلاف دور کرنے اور فلسطینیوں کو یکجا کرنے پر مذاکرات کیے ہیں۔ اس سے قبل فروری میں ماسکو میں بھی یہ نمائندے ملے تھے اور یہ برف انہی ملاقاتوں سے پگھلی ہے۔ روس بھی اس معاملے میں ایک سہولت کار رہا ہے‘ لیکن ان ملاقاتوں میں کوئی بڑی پیشرفت سامنے نہیں آئی تھی۔ اب اعلانِ بیجنگ کے موقع پر حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مزروق نے کہا ہے کہ ہم ایک تاریخی سنگم پر کھڑے ہیں۔ آج ہم قومی یکجہتی کیلئے ایک معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سفر کی تکمیل کیلئے قومی اتحاد ہی واحد راستہ ہے۔ فلسطینی قومی تحریک کے سیکرٹری جنرل مصطفی برغوتی نے کہا کہ یہ معاہدہ سابقہ تمام معاہدوں سے آگے ہے‘ اس کے چار بنیادی نکات ہیں؛ ایک عبوری قومی حکومت کی تشکیل‘ اگلے انتخاب سے قبل فلسطینی رہنمائوں کی متفقہ کونسل کی تشکیل‘ فلسطین میں آزادانہ انتخابات اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف قومی یکجہتی۔ برغوتی نے کہا کہ غزہ کی جنگ نے ہم سب کو اکٹھا کر دیا ہے اور اس کے علاوہ کوئی راستہ تھا بھی نہیں۔ اعلانِ بیجنگ کا روس نے بھی خیر مقدم کیا ہے اور پاکستان نے بھی۔ ترکیہ کی طرف سے بھی یہی تاثر سامنے آئے گا۔ عرب ممالک کے تاثر کا ابھی انتظار ہے۔
اسرائیل کیلئے یہ برُی خبر ہے۔ ایک طرف تو جو بائیڈن کا اقتدار سے ہٹ جانا اس کیلئے تشویش کا باعث ہے‘ دوسری طرف فلسطینیوں کا ایک بینر تلے اکٹھا ہونا نیتن یاہو کیلئے مشکلات پیدا کرے گا؛چنانچہ اعلانِ بیجنگ پر اس کا ردعمل فوراً ہی سامنے آ گیا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ Israel Katz نے کہا کہ غزہ کی جنگ ختم ہونے کے بعد کوئی اور نہیں بلکہ اسرائیل ہی اسے کنٹرول کرے گا۔ اُس نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ دہشت گردوں کو رد کرنے کے بجائے خود ان سے جا ملے ہیں‘ ان کا اصل چہرہ سامنے آ گیا ہے‘ حما س کو کچل دیا جائے گا اور محمود عباس غزہ کا دور سے نظارہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے۔ امریکہ کا رد عمل بھی یہی متوقع تھا جو اس کے نمائندے میتھیو ملر کے ذریعے سامنے آیا۔ امریکہ نے اعلانِ بیجنگ کو رد کیا ہے۔ اس ردعمل کے مطابق امریکہ فلسطین اتھارٹی کو تسلیم کرتا اور مستقبل میں اسے دیکھنا چاہتا ہے لیکن حماس کا مستقبل میں کوئی کردار غزہ میں اسے قبول نہیں‘ جو (اس کے مطابق) ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔
دراصل بنیادی سوال جنگ کے بعد غزہ کے نظم و نسق کا ہے۔ سیز فائر کے بعد اس کا نظام کون سنبھالے گا؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کے گرد اعلانِ بیجنگ اور اسرائیلی‘ امریکی اور ان کے حلیف یورپی ممالک کا ردعمل گھومتا ہے۔ یہ حما س کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر غزہ میں اس کا کردار نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لحاظ سے فلسطینیوں کا یہ سیاسی قدم بہتر حکمت عملی ہے کہ غزہ پر حکومت میں فلسطینی اتھارٹی شامل ہو گی جسے سب تسلیم کرتے ہیں‘ حماس کا نام نہیں ہو گا بلکہ پی ایل او کے تحت فلسطینی حکومت مغربی کنارے اور غزہ‘ دونوں طرف ہو گی۔ جبکہ حماس اپنے نام کو ترک کرکے معاملات میں بہرحال شریک رہے گی۔ اس مشترکہ تنظیم کو رد کرنا حماس کو رد کرنے کی نسبت کافی مشکل ہو گا۔ معاملے کا ایک رخ امریکی انتخابات کے نتائج بھی ہیں۔ جو بائیڈن کی غیر مشروط اور مکمل حمایت ختم ہونے پر کملا ہیرس یا ڈونلڈ ٹرمپ میں سے جو بھی برسر اقتدار آئے گا‘ کیا اس کی اسرائیل کیلئے حمایت جو بائیڈن سے مختلف ہو گی؟ یہ اسرائیل کیلئے نہایت اہم سوال ہے اور اس کی پیش بندی کیلئے نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتہ امریکہ کا دورہ کیا۔ یہ طے ہے کہ امریکہ کی اسرائیل نوازی میں بہت بڑا فرق آنے والا نہیں لیکن معمولی فرق بھی اسرائیل کیلئے بہت اہم ہوگا کیونکہ وہ امریکی اور یورپی ملکوں کی پشت پناہی کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اعلانِ بیجنگ میں بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں کسی ٹائم ٹیبل کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس کے بغیر یہ معاملات لٹک سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بڑا خطرہ بھی لاحق ہے کہ اعلانِ بیجنگ کو کسی طریقے سے سبوتاژ کرایا جائے گا۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن ایسا ہوتا رہا ہے۔
میں سو چ رہا تھا کہ اعلانِ بیجنگ میں روس‘ چین تو فعال نظر آتے ہیں لیکن مسلم ممالک کہاں کھڑے ہیں؟ انہیں فلسطین کا کتنا درد ہے؟ دوحہ اور کسی حد تک ترکیہ کو نکال دیں‘ کیونکہ دوحہ نے تو اپنا کردار سوئٹزر لینڈ والا کر لیا ہے یعنی عالمی جھگڑوں میں ایک غیر جانبدار ملک‘ جہاں فریقین ملاقات اور مذاکرات کر سکتے ہیں لیکن وہ کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کرے گا۔ ترکیہ اپنی اسلامی حمیت اور محبت کا ثبوت دیتا رہتا ہے لیکن وہ خوفناک معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ ان دو کے علاوہ باقی مسلم ممالک کہاں ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان‘ سعودی عرب‘ ملائیشیا یا انڈو نیشیا میں سے کوئی ملک وہ کردار ادا کرتا جو چین نے کیا ہے۔ لیکن یہ سب تماشائی کا کردار ادا کرنے ہی میں خوش ہیں اور اسی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ سو یہ وہ دنیا ہے جس میں مظلوم کی حمایت ناممکن حد تک مشکل ہو چکی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved