تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-07-2024

حقیقت میں تو ادارے ختم ہو چکے ہیں

ہر بار جب کچھ روز کے بعد واپس لوٹتا ہوں تو کچھ نہ کچھ بہتر تبدیلی کیلئے امید لگا لیتا ہوں۔ یہ اور بات کہ ہر بار منہ کی کھاتا ہوں مگر دل چھوٹا کرنے کے بجائے اگلی بار پھر وہی احمقانہ امید لگا لیتا ہوں۔ ہر بار فیض کا شعر یاد آ جاتا ہے:
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے؍ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
سوہر بار واپسی پر دل کو ناامید نہیں ہونے دیتے اور اپنی لمبی شام کے ختم ہونے کی امید لگا لیتے ہیں تو کیا اب اس ''امید‘‘ سے بھی ہاتھ چھڑالیں؟ کسی نے لطیفہ سنایا کہ ایک سردار صاحب کا سو روپے کا نوٹ کہیں کھو گیا۔ ہر جگہ تلاش کیا مگر ناکامی رہی۔ بہت پریشان تھے۔ اُن کی بیگم نے پوچھا کہ فلاں جگہ دیکھا‘ فلاں جگہ تلاش کیا‘ سردار جی نے ہر جگہ تلاش کرنے کا بتایا۔ آخر میں بیگم نے پوچھا کہ آپ نے اپنے کپڑوں کی جیبیں دیکھی ہیں۔ سردار نے ہاں میں جواب دیا۔ بیگم نے ایک ایک جیب کا انفرادی طور پر پوچھا‘ جواب ہاں میں ملا۔ پھر اچانک پوچھنے لگیں کہ آپ نے ''سلوکے‘‘ کی جیبیں چیک کی تھیں؟ سلوکا کپڑے سے بنی ہوئی بنیان نما چیز ہوتی ہے جو پنجاب کے دیہات میں کرتے یا قمیض کے نیچے پہنا جاتا ہے اور اس میں عموماً پانچ چھ جیبیں ہوتی ہیں۔ سامنے اوپر اور نیچے دو‘ دو جیبیں اور اندر کی جانب ایک دو مزید جیبیں۔ سردار جی نے باہر والی چاروں جیبوں کے بارے میں بتایا کہ وہ انہوں نے اچھی طرح چیک کی ہیں تو بیگم نے اندر والی جیب کے بارے میں پوچھا کہ وہ دیکھی ہے؟ سردار جی کہنے لگے: نہیں‘ وہ چیک نہیں کی۔ سردارنی نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگے کہ اگر میرا سو روپے کا نوٹ اس اندر والی جیب میں بھی نہ ہوا تو میں تو مر ہی جائوں گا۔ سو قارئین! اس سلوکے کی اندر والی جیب میں نوٹ ہونے کی امید کی طرح اس عاجز نے بھی بس امید سے ہی دل کا چراغ روشن کر رکھا ہے۔ اگر یہ امید بھی چھوڑ دی تو پھر سمجھیں کہ مر ہی جائیں گے۔
ایئرپورٹ سے واپسی رات کے آخری پہر ہوئی۔ ملتان کی سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ زکریا ٹائون میں داخل ہوا تو جس گلی سے دن میں گزرنا مشکل ہوتا ہے‘ بالکل سنسان تھی۔ تمام دکانیں بند تھیں اور کسی جگہ پر کسی نے غلط گاڑی پارک نہیں کی ہوئی تھی۔ کوئی موٹرسائیکل والا افراتفری اور عجلت میں اپنی موٹرسائیکل سٹارٹ حالت میں سڑک کے درمیان نہ سہی‘ مگر عین اس کنارے پر جہاں سے دو رویہ ٹریفک نے ایک دوسرے کو کراس کرنے کیلئے گاڑی مجبوراً سائیڈ پر اتارنا ہوتی ہے‘ کھڑی کردیتا ہے۔ اس وقت ایسی کوئی موٹرسائیکل راستے میں رکاوٹ نہیں بن رہی تھی۔ تاہم یہ دیکھ کر دل ایک بار پھر ملول ہو گیا کہ پہلے سے دکانوں سے بھری پڑی اس سڑک پر‘ بوسن روڈ سے میرے گھر کی گلی تک تقریباً چار سو میٹر کے فاصلے میں چار پانچ مزید دکانیں اور ایک عدد پلازہ تعمیر ہو چکا تھا۔
یہ صرف دو ماہ کی کارکردگی تھی۔ میں تقریباً دو ماہ بعد واپس آیا تو پہلے سے موجود سو سے زائد دکانوں والے ان چار سو میٹروں میں چار پانچ مزید دکانوں کے ساتھ ساتھ ایک عدد منی پلازہ عدم سے وجود میں آ چکا تھا۔ اس پلازے میں پانچ دکانیں تھیں اور اوپر والے دو فلور بھی کمرشل سرگرمی کیلئے تیار تھے۔ آدھی سڑک اینٹوں نے گھیر رکھی تھی اور ان اینٹوں کی ''ترائی‘‘ کے عمل کے دوران چھڑکا جانے والا سارا پانی سڑک پر کھڑا تھا۔ یہ سڑک ہمارے پیارے سابق وزیر اعلیٰ اور حالیہ غائب شدہ عثمان بزدار نے ادھر مقیم اپنے ایک عزیز دوست اور اپنی خواہرِنسبتی کی سہولت اور فرمائش پر بنوائی تھی۔ اچھی بھلی نئی سڑک جو ملتان میں ان کی ساڑھے تین سالہ وزارتِ علیا کے دوران شاید واحد ترقیاتی کام تھا‘ ویسے تو بننے کے چوتھے دن ہی توڑ پھوڑ کا شکار ہونے لگ گئی تھی مگر ان تعمیرات کے دوران سڑک پر اکٹھے ہونے والے پانی نے اس سڑک کا مزید بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے اور سڑک کی حالت تقریباً ویسی ہی ہو چکی ہے جیسی تعمیر سے قبل تھی۔
سوال یہ ہے کہ آخر شہری ترقیاتی ادارے کیا کر رہے ہیں؟ اگر تو وہ ان تعمیرات کی اجازت دے رہے ہیں تو انہیں اس قسم کی عوام کیلئے باعثِ آزار و تکلیف بننے والی تعمیرات کی اجازت دیتے ہوئے شرم آنی چاہئے کہ ان کا بنیادی کام ہی شہر میں بے ہنگم اور عوام کیلئے باعثِ تکلیف بننے والی تعمیرات کو روکنا ہے‘ لیکن وہ اپنا فریضہ سرانجام دینے کے بجائے عوام کیلئے باعثِ تکلیف بننے والی تعمیرات کی اجازت دے کر اس غیر قانونی کام کو قانونی جواز فراہم کر رہے ہیں۔ اور اگر یہ سب کچھ بلا اجازت ہو رہا ہے تو پھر ان اداروں کی موجودگی کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ کروڑوں روپے کی تنخواہ لینے والے ان اداروں کے افسران مال پانی بنانے اور آنکھیں بند کرنے کے عوض نذرانوں کی وصولی کے علاوہ اور کیا کر رہے ہیں؟
قارئین! آپ میری اس تحریر کو صرف میری ذاتی مشکل نہ سمجھیں۔ یہ صرف زکریا ٹاؤن کا حال نہیں ہے۔ یہ اس سارے شہر کا حال ہے جو ایک گلی کی تمثیل آپ کے سامنے رکھا ہے اور یہ صرف ایک شہر کا حال بھی نہیں۔ اس لاوارث ملک کے تمام شہروں کا حال ہے۔ ہر جگہ یہی کچھ ہو رہا ہے اور ہر جگہ مخلوقِ خدا ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔ سنا تھا کہ اسلام آباد میں ایسا ممکن نہیں اور اس شہر کا ترقیاتی ادارہ اپنے قوانین پر بڑی سختی سے عمل کراتا ہے اور کسی کو غیر قانونی تعمیرات کی اجازت تو کجاجرأت بھی نہیں ہوتی۔ لیکن اب تو اس شہر کا حال دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ بیشمار مقامات پر ناجائز تعمیرات ہو چکی ہیں‘ کچی آبادیاں ہیں‘ تجاوزات ہیں اور گندگی ہے۔ غرض اس شہرِ بے مثال میں بھی کیا کچھ نہیں ہے جو ملتان‘ لاہور اور اسی طرح دیگر شہروں میں ہے۔
ہر دوسرے تیسرے روز اپنی پرانی باتوں پر‘ انہی پرانے مسائل پر اور انہی دیرینہ مشکلات پر بار بار لکھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ قارئین بھی سوچتے ہوں گے کہ اس لکھنے والے کے پاس کیا لکھنے کو اور کوئی موضوع نہیں کہ ہر چوتھے دن وہی پرانا رنڈی رونا لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ لیکن کیا کریں؟ سرکاری ادارے اگر کانوں میں کڑوا تل ڈال کر نچنت بیٹھے ہیں تو کیا ہم اس پر لکھنا چھوڑ دیں؟ ان کو احساس دلانے کا کام مؤخر کر دیں؟ یہ وہ ادارے ہیں جو ہماری سہولت کیلئے بنائے گئے تھے اور کسی کے باوا کی امداد سے نہیں‘ ہمارے ٹیکسوں سے چلتے ہیں۔ ان کو چلانے کا سارا خرچہ ہم اپنی جیب سے‘ اپنی ضروریات پر سمجھوتا کر کے ادا کرتے ہیں۔ یہ ادارے حقیقت میں تو ہمارے وہ خادم اور ملازم ہیں جن کو ہم ان کے کام کا عوضانہ ادا کرتے ہیں لیکن یہ کام کرنے کے بجائے عیاشی کرتے ہیں اور وہ یہ عیاشی عوام کیلئے مشکلات پیدا کرنے والوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے عوض کرتے ہیں۔
اس قسم کے سرکاری اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ ان اداروں کے افسران اور ملازم کام نہ کرنے کے عوض سرکار سے تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے کے عوض عوام الناس سے پیسے بٹورتے ہیں۔ شاہ جی سے پوچھا کہ ان اداروں کے افسر‘ ملازمین اور اہلکار جائز کام کرنے کے بجائے ناجائز کام کرنے میں اتنی پھرتی‘ ہوشیاری اور دلچسپی کیوں لیتے ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے: آپ کی طرح جائز کام لینے والے اس اکڑ میں رہتے ہیں کہ ان کا تو کام جائز ہے لہٰذا اس کیلئے نذرانہ کیوں دیں؟ یہ سرکاری ملازم یہ کام کرنے کیلئے ہی تو بیٹھے ہیں نذرانہ کس بات کا؟ جبکہ ناجائز کام کروانے والے اپنی فائل کے ساتھ نوٹوں کا پہیہ لگاتے ہیں اور من کی مراد پاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ ادارے جائز کام کے بجائے ناجائز کام کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ تمہارا کیا خیال ہے ان اداروں کے افسر اور ملازم سرکار کی تنخواہ پر تکیہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں؟ یہ صرف ایک ادارے کا ذکر ہے لیکن حقیقت یہ ہے اس ملک میں تقریباً تمام ادارے ہی ختم ہو چکے ہیں۔ اب صرف ان کی میتیں موجود ہیں جو تدفین کی منتظر ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved