یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی اور شکر گڑھ گورداسپور کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک خاموش سا قصبہ تھا جہاں ابھی تیز رفتار زندگی کے قدم نہیں پہنچے تھے۔ یہاں کے ایک معروف وکیل پشوری لال آنند تھے جن کے تین بیٹے تھے۔ کیسا اتفاق ہے کہ یہ تینوں بیٹے بڑے ہو کر بالی وڈ میں اپنی بے مثال کارکردگی کی وجہ سے پہچانے گئے۔ بڑے بیٹے کا نام چیتن آنند اور چھوٹے بیٹے کا نام وجے آنند تھا‘ یہ دونوں بالی وڈ کی بہت سی کامیاب فلموں کے ڈائریکٹر تھے۔ منجھلا بیٹا دھرم دیو پشوری لال تھا‘ جو بڑا ہو کر دیو آنند کے نام سے پہچانا گیا۔ وہی دیو آنند جس نے بالی وڈ پر چھ دہائیوں تک راج کیا۔ وہ محض ایک عام اداکار اور پروڈیوسر نہیں تھا بلکہ دلوں پر راج کرتا تھا۔ وہ جو کپڑا پہنتا‘ جس انداز سے سر ہلاتا‘ جس رفتار سے بولتا لوگ اس کی نقل کرتے۔ اس کی جیکٹ‘ اس کا سکارف‘ اس کا مفلر نئے فیشن کا پتا دیتا۔ یہ اسی دیو آنند کی کہانی ہے۔
دیو آنند نے ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کی اور میٹرک کا امتحان ڈلہوزی کے سیکرڈ ہارٹ سکول سے پاس کیا۔ اس کے بعد وہ دھرم شالہ کے گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا اور آخرکار اپنے خوابوں کے شہر لاہور کے گورنمنٹ کالج آ گیا۔ اسے انگریزی سے خاص دلچسپی تھی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں اس نے بی اے انگلش آنرز میں داخلہ لیا۔ یہاں اسے کھل کر غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ گورنمنٹ کالج کے ماحول سے اس نے بہت کچھ سیکھا۔ چار برس کا عرصہ بہت ہوتا ہے‘ ان چار برسوں میں گورنمنٹ کالج کا رنگ اس کے اندر رچ بس گیا۔ یوں تو دیو آنند پہلے سے ایک پُراعتماد نوجوان تھا لیکن گورنمنٹ کالج کی تربیت نے اس کے اعتماد میں مزید اضافہ کر دیا۔ اس کی انگریزی بولنے کی صلاحیت جو ڈلہوزی کے سیکرڈ ہارٹ سکول میں پروان چڑھی تھی گورنمنٹ کالج نے اسے مزید نکھار دیا۔
دیو آنند کے والد مزاجاً ایک سخت گیر انسان تھے اور بچے اُن سے ڈرتے تھے لیکن دیو آنند کی والدہ بہت حلیم طبیعت کی مالک تھیں اور دیو کو ان سے بہت پیار تھا۔ وہ بیمار ہوئیں تو دیو نے ماں کی خدمت کرتے ہوئے دن رات ایک کر دیے۔ وہ جون کی تپتی دوپہروں میں امرتسر جاتا جو اس کے گائوں سے کوئی 35 میل دور تھا۔ صبح چار بجے اٹھتا اور امرتسر سے ضرورت کی اشیا لے کر آتا۔ اسے گرمیوں کی وہ دوپہر اچھی طرح یاد ہے جب ماں کی دوائیں لینے امرتسر گیا تھا۔ چلچلاتی دھوپ میں اُسے بادام کے شربت کی ایک ریڑھی نظر آئی جہاں سے اس نے شربت لیا۔ جب ریڑھی والا اسے شربت کا گلاس تھما رہا تھا تو اس کی نگاہیں دیو آنند کی پیشانی پر اٹک گئیں۔ اس نے پنجابی میں دیو آنند سے کہا ''بائو (بابو) میں تمہارے ماتھے پر سورج دیکھ رہا ہوں‘ دیکھنا ایک دن تم بڑے آدمی بنو گے‘‘۔
اسی طرح ایک دن دیو آنند اپنی ماں کی چارپائی پر بیٹھا تھا‘ اس نے ماں کو کہا ''ماں اگر تم چلی گئیں تو میرا کیا بنے گا؟‘‘ ماں نے مسکراتے ہوئے بیٹے کو دیکھا اور پیار سے بولی ''پاگل! میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گی‘‘۔ لیکن وہ محض طفل تسلی تھی ‘ کچھ مہینے بعد ماں ہمیشہ کی نیند سو گئی اور دیو کی دنیا یکلخت ویران ہو گئی۔ لیکن یہ اُن دنوں کی بات ہے جب وہ ہوش میں تھی اور باتیں کر رہی تھی۔ ایک روز دیو کی ماں نے اپنے شوہر سے کہا ''آپ دیکھیں گے میرا بیٹا آنند بڑا آدمی بنے گا‘‘۔ دیو آنند اس دن کو یاد کرتے ہوئے سوچتا ہے کہ پتا نہیں میں ماں کی پیشگوئی کے مطابق بڑا آدمی بنا یا نہیں لیکن میں زندگی میں ایک کامیاب آدمی ضرور بنا اور یہ سب میری ماں کی دعائوں کا نتیجہ ہے۔
گورنمنٹ کالج سے بی اے انگلش آنرز کا امتحان پاس کرنے کے بعد دیو کالج کی عمارت سے باہر نکلا تو یوں لگا جیسے وہ بھری دنیا میں اچانک اکیلا رہ گیا ہے۔ اس کی ماں اب اس دنیا میں نہیں تھی اور باپ سے اس کی رسم وراہ نہ تھی۔ اس نے سوچا کیوں نہ بمبئی کا رُخ کیا جائے۔ ایک انٹرویو میں دیو آنند نے بتایا کہ وہ بمبئی میں کسی کو نہیں جانتا تھا‘ ایک روز وہ ہارن بی روڈ پر چل رہا تھا کہ سڑک پار کرتے ہوئے اسے اپنا کالج کا ایک دوست دکھائی دیا۔ دونوں گرم جوشی سے ملے۔ دوست اسے اپنے ٹھکانے پر لے گیا اور دیو کو بھی وہاں رہنے کی پیشکش کی۔ اندھے کو کیا چاہیے‘ دو آنکھیں۔ دیو آنند اس کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ ہر روز شام کو ایک دودھ کی دکان پر جاتے جہاں دوستوں کی محفلیں جمتیں۔ یہاں اس کی ملاقات نئے نئے لوگوں سے ہوتی۔ وہیں ایک روز اسے پتا چلا کہ پرابھت فلمز والوں کو اپنی فلم کے ایک کردار کے لیے ایک لڑکے کی تلاش ہے۔ دیو آنند اگلے ہی روز فلم کمپنی کے دفتر پہنچ گیا اور بابو رائے سے اپنا تعارف کرایا کہ میں گورنمنٹ کالج لاہور کا گریجویٹ ہوں اور مجھے پورا یقین ہے میں ہی وہ لڑکا ہوں جس کی آپ کو اپنے کردار کے لیے تلاش ہے۔ بابو رائے اس لڑکے کے اعتماد سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں تیز چمک تھی۔ اس نے دیو آنند کو دو روز بعد آنے کو کہا۔ جب وہ دو روز بعد فلم کمپنی کے دفتر پہنچا تو اسے کہا گیا کہ اسے پونا میں آڈیشن کے لیے جانا ہو گا۔ اسے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اسے پونا تک جانے کے لیے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ بھی دیا گیا۔ دیو آنند نے آڈیشن کا ٹیسٹ پاس کر لیا اور یوں اس کے لیے فلمی دنیا کا دروازہ کھل گیا۔
اس کی پہلی فلم ''ہم ایک ہیں‘‘ تھی جو 1946ء میں ریلیز ہوئی۔ اسی فلم کی شوٹنگ کے دوران اس کی ملاقات گرو دَت سے ہوئی جو فلمی دنیا میں ڈائریکشن کے شعبے میں اپنے سفر کا آغاز کر رہا تھا۔ اس دوران دیو آنند اور گرودت کی ملاقاتیں گہری دوستی میں بدل گئیں۔ دیو آنند کی اگلی منزل فلم ''ودیا‘‘ تھی جس میں اس کے مقابل ہیروئن ثریا تھی۔ ثریا اس وقت ایک معروف اداکارہ تھی جبکہ نوجوان دیو آنند کے فلمی سفر کا یہ آغاز تھا۔ ''ودیا‘‘ کا ایک گیت ''کنارے کنارے چلے جائیں جی‘‘ تھا۔ اس گیت کی شوٹنگ کے دوران ثریا اور دیو آنند ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ اس فلم کے بعد دیو آنند اور ثریا نے کئی فلمیں اکٹھی کیں جن میں جیت (1949ء)‘ شاعر ( 1949ء)‘ افسر (1950ء)‘ نیلی (1950ء)‘ صنم (1951ء) اور دو ستارے (1951ء) شامل ہیں۔ دیو آنند اکثر ثریا کے گھر جاتا جہاں سب اسے پسند کرتے تھے۔ دوستی کے اس عرصے میں دونوں ایک دوسرے کے مزاج سے آشنا ہو چکے تھے۔آخر کار دیو آنند نے فیصلہ کیا کہ وہ ثریا کو باضابطہ پرپوز کرے گا۔ ان دنوں فلم افسر (1950ء) کی شوٹنگ ہو رہی تھی‘ اس فلم میں بھی دونوں اکٹھے کام کر رہے تھے۔ فلم کی شوٹنگ کے دوران دیو آنند نے ثریا کو باقاعدہ پرپوز کیا۔ یہ ثریا کے لیے ایک یادگار لمحہ تھا۔ وہ بھی دیو آنند کو دل کی گہرائیوں سے چاہتی تھی۔ دیو آنند کا تعلق شکر گڑھ اور ثریا کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ دونوں اس پنجابی کلچر کا حصہ تھے جس میں شادیوں کا فیصلہ گھر کے بزرگ کرتے تھے۔ دیو آنند نے روایت کے مطابق ثریا کو انگوٹھی بھجوائی۔ یہ ہیروں سے جڑی ایک قیمتی انگوٹھی تھی لیکن ثریا خود سے شادی کا فیصلہ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے گھر میں فیصلوں کا اختیار صرف اس کی نانی کے پاس تھا۔ ادھر دیو آنند شدت سے اپنی تقدیر کے فیصلے کا منتظر تھا۔ اس کے لیے ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved