تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     31-07-2024

جماعت اسلامی کا دھرنا اور خوفزدہ حکومت

اتوار کی صبح راولپنڈی میں ہلکی بارش ہوئی۔ اس بوندا باندی کے نتیجے میں زمین سے بھاپ اُٹھ رہی تھی‘ دوپہر اڑھائی بجے اوپر سے سورج آگ برسا رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ گرمی کی اس شدت میں جماعت اسلامی کے قائدین کہیں آس پاس جماعتی دوستوں کے گھروں میں پناہ لے رہے ہوں گے اور بیچارے کارکنان کہیں سائے کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے۔
عین اس وقت میں نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم صاحب کو فون کیا۔ اُن سے ہماری قدرے بے تکلفی ہے۔ میں نے پوچھا: حضور! آپ کہاں ہیں؟ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے نہایت اطمینان سے جواب دیا کہ ہم دھرنے میں ہیں۔ ان دنوں اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور ٹھکانا نہیں۔ وہ دھرنے کی کامیابی کے بارے میں بہت پُرامید تھے۔
مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ امیرِ جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن بھی موسم کی حدت اور شدت میں اپنے کارکنوں کے ہمراہ نصف النہار سورج تلے لیاقت باغ کے باہر سڑک پر بیٹھے تھے۔ یقینا اوپر کوئی شامیانہ ہوگا۔ میں نے براہِ راست حافظ صاحب سے عرض کیا کہ آپ تو اسلام آباد ڈی چوک پر دھرنا دینے نکلے تھے مگر آپ نے راولپنڈی لیاقت باغ میں ڈیرہ لگا لیا۔ حافظ صاحب نے جواب دیا :ہمارا خیال تھا کہ حکمران عقلِ سلیم سے کام لیں گے اور ہمارا راستہ نہ روکیں گے مگر انہوں نے دانشمندی سے کام نہیں لیا اور ہمارے راستے میں کنٹینرزکھڑے کر دیئے‘ ہم کنٹینرز ہٹا کر بھی اسلام آباد جانے کی افرادی قوت رکھتے تھے مگر ہم نے تصادم سے گریز کیا۔
حکمران جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی سب سیاسی پارٹیوں سے بڑھ کر قانون پسند اور پُرامن جماعت ہے جو طاقت کے بجائے عوامی سپورٹ سے جمہوری مزاحمت پر یقین رکھتی ہے۔ ہم نے حافظ صاحب سے پوچھا کہ کب تک یہاں قیام کا ارادہ ہے؟ اُن کا کہنا تھا کہ اپنے مطالبات کی منظوری تک۔ میں نے عرض کیا کہ اس طرح تو آپ کا قیام بہت طویل ہو سکتا ہے۔اس پر حافظ صاحب نے کہا: آپ ہمارے دھرنوں کی تاریخ سے واقف تو ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چھٹتی نہیں... حافظ صاحب نے مسکراتے ہوئے مصرع مکمل کر دیا۔
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
فی الواقع بجلی کے بلوں کی ادائیگی غریبوں اور سفید پوشوں کیلئے تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔ روزانہ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ گھروں میں یہ بجلی پیغامِ موت بن کر گر رہی ہے۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل بجلی کے بل کی ادائیگی پر گوجرانوالہ میں ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ لوگ سونے کی اشیا‘ گھر کے اثاثے اور موٹر سائیکل وغیرہ بیچ کر نہ جانے کیسے یہ بل ادا کر رہے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پارلیمنٹ کے یخ بستہ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں اور اپوزیشن لیڈروں کو کوئی پروا نہیں کہ خلقِ خدا زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ وہ اپنے اقتدار کی کشاکش میں مگن ہیں۔
جماعت اسلامی نے مذاکرات کیلئے آنے والی سہ رکنی حکومتی ٹیم کو دس نکاتی مطالبات پیش کر دیے ہیں۔ چند نمایاں مطالبات کے مطابق: 500 یونٹ تک ماہانہ بجلی استعمال کرنے والوں کو بل میں 50 فیصد رعایت دی جائے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ فی الفور واپس لیا جائے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں 20 فیصد کمی لائی جائے۔ اہم ترین مطالبہ یہ ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے منسوخ کیے جائیں۔
کم از کپیسٹی چارجز کی ادائیگی والی شق کو تو فی الفور ختم کرایا جائے۔آئی پی پیز کی مہنگی بجلی کی بنا پر گھر گھر کہرام بپا ہے۔ہم قومی سطح کے کالا باغ جیسے ہائیڈرو پاور پلانٹس نہیں لگا سکے۔ چند سال قبل جب بجلی کی لوڈشیڈنگ بارہ بارہ اور سولہ سولہ گھنٹے تک جا پہنچی تو انڈی پینڈنٹ پاور پلانٹس لگائے گئے۔ آئی پی پیز ملکی ہو ں یا غیر ملکی‘ ان کے پیچھے ملک کے سرکردہ سیاستدان اور کئی ارب پتی کاروباری شخصیات ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے پرائیویٹ پاور پلانٹس کن کی ملکیت ہیں؟ مختلف ثقہ ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق ملک میں اس وقت 100کے قریب آئی پی پیز کام کر رہے ہیں جن میں سے 51پاکستانی حکومت کی ملکیت ہیں‘اسی طرح سی پیک کے تحت لگنے والی چینی کمپنیوں کے ہیں‘ البتہ شوگر ملوں میں گنے کے پھوک سے بجلی تیار کرنے والے بعض پلانٹس جہانگیر ترین‘سلمان شہباز اور منشا گروپ کی ملکیت ہیں۔
گنے کے پھوک سے چلنے والے پاور پلانٹس بھی کرشنگ سیزن میں اس غریب قوم پر کپیسٹی چارجز کا ناقابلِ برداشت پہاڑ لاد دیتے ہیں۔ سابق نگران وزیر تجارت اورآل پاکستان ٹیکسٹائلز ملز ایسوسی ایشن کے رہنما گوہر اعجاز نے کپیسٹی چارجز وصول کرنے والے پلانٹس کی جو فہرست جاری کی ہے اس میں چنیوٹ پاور پلانٹ کے مالک سلمان شہباز بھی شامل ہیں۔گوہر اعجاز کپیسٹی چارجز ختم کرانے کیلئے سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔
اس ملک کے حکمران بیک وقت سیاستدان بھی ہیں‘ صنعتکار بھی‘ تاجر بھی ہیں اور زمیندار بھی ہیں‘ اور نہ جانے ملک کے کتنے منفعت بخش کاموں میں ان کا حصہ ہے۔ شوگر ملیں بھی اُن کی اپنی ہیں کیونکہ اجازت دینے کا اختیار انہوں نے اپنے پاس رکھا ہے۔ ان ملوں میں استعمال شدہ گنے سے چلنے والے پاور پلانٹس بھی ان کی ملکیت ہیں۔ ٹیکسوں میں بھی حسبِ منشا چھوٹ لے لیتے ہیں اور بھاری بجلی کے بلوں کی ادائیگی کیلئے عوام کی چمڑی ادھیڑ دیتے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران ایک پارٹی کے شہزادے بلاول بھٹو زرداری اور دوسری پارٹی کی شہزادی مریم نواز نے غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کیلئے دو سو اور تین سو یونٹ بجلی فری دینے کا وعدہ کیا تھا‘ مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ خوفزدہ حکمرانوں نے اسلام آباد ڈی چوک کو اپنے ہم وطنوں کیلئے ممنوعہ علاقہ قرار دے رکھا ہے۔اگر حکمرانوں کے حکمران امریکہ کے وائٹ ہاؤس کے باہر آئے روز احتجاجی جلسے اور مظاہرے ہو سکتے ہیں تو ڈی چوک اسلام آباد میں کیوں نہیں ہو سکتے؟ ابھی چند روز قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو جب وائٹ ہاؤس میں صدر امریکہ جوبائیڈن سے ملاقات کر رہے تھے عین اُس وقت باہر ہزاروں امریکی نیتن یاہو کے خلاف ''شیم شیم‘‘اور'' بچوں کے قاتل واپس جاؤ‘‘ جیسے نعرے بلند کر رہے تھے۔ وہاں کنٹینرز لگائے گئے نہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں‘مگر عوام پر ظلم ڈھانے والے خوفزدہ حکمران اس طرح کی کارروائیاں کرتے ہیں۔
پیر 29 جولائی کو لیاقت باغ میں حافظ نعیم الرحمن نے خواتین کے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی عورت جتنی جفاکش ہے ایسی کسی اور ملک کی نہیں۔ وہ گھر کے سارے کام کاج کرتی ہے‘ کھانا پکاتی ہے‘ صفائی کرتی ہے۔ دیہاتی عورت تو کھیتوں میں کام بھی کرتی ہے اور مال مویشی کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں جبکہ شہری عورت گھر کے سارے کاموں کیساتھ ساتھ جاب بھی کرتی ہیں۔اب وہی خاتون اپنے زیورات بیچ کر بجلی کا بل اداکر رہی ہیں‘ آج اسی لیے ہماری بہنیں اور بیٹیاں بہت بڑی تعداد میں دھرنے میں آئی ہیں تاکہ اس عذابِ مسلسل سے انکی جان چھوٹ سکے۔
حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے مطالبات تسلیم کرنے میں تاخیر کی تو ہم اسلام آباد ڈی چوک بھی جا سکتے ہیں۔ حکومت کو ہمارا مشورہ ہوگا کہ وہ اپنے ملک کے قانون پسند شہریوں کو بلارکاوٹ اسلام آباد آنے دیں۔حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ وہ جماعت کے عوامی مطالبات بلاتاخیر تسلیم کریں اور عوام کو کم از کم اتنا ریلیف تو فوری طور پر ضرور دیں کہ وہ بھی زندہ رہ سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved