یو اے ای کے بعد اب اگلی باری‘ یوں لگتا ہے سعودی عرب کی ہے۔
سرگودھا میں ریسکیو عملے کو اطلاع ملی کہ ایک شخص سڑک پر بے ہوش پڑا ہے۔ ریسکیو والوں نے اسے ہسپتال منتقل کیا۔ تلاشی لینے پر اس کی جیب سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے نکلے اور پاسپورٹ بر آمد ہوا۔ پاسپورٹ پر سعودی عرب کے ویزے لگے ہوئے تھے جن پر وہ کئی بار سعودی عرب کا سفر کر چکا تھا۔ علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ یہ بھیک مانگتا ہے اور اس کا تعلق بھکاریوں کے کسی گروہ سے ہے۔ اس خبر کا آخری حصہ ذرا غور سے سنیے۔ ہسپتال سے یہ بین الاقوامی بھکاری ڈسچارج ہوا تو ریسکیو عملے نے اس کے ساڑھے پانچ لاکھ روپے تو واپس کیے ہی‘ ساتھ ہی پاسپورٹ بھی واپس کر دیا۔ شاید ریسکیو والوں سے غلطی ہوئی ہے۔ انہیں چاہیے تھا کہ پورے پروٹوکول کے ساتھ اسے ایئر پورٹ لے جاتے۔ گارڈ آف آنر دیتے۔ اور سعودی عرب جانے والے جہاز پر بٹھاتے۔ حال ہی میں یو اے ای نے پاکستانیوں کیلئے ویزہ پالیسی سخت کی ہے۔ اس کی متعدد وجوہ بتائی گئیں۔ ایک بڑی وجہ پاکستان سے بھکاریوں کا کثیر تعداد میں ورود تھا۔ سعودی عرب بھی ہمارے ہم وطن بھکاریوں کی زد میں ہے۔ کیا عجب‘ وہاں کیلئے بھی پاکستان کے گرد سرخ نشان لگا دیا جائے۔ کون سا ملک ہے جو ہم پاکستانیوں کے ''کارناموں‘‘ سے متاثر نہیں ہوا۔ کچھ عرصہ سے پاکستانی کثیر تعداد میں پرتگال جا رہے تھے۔ وہاں جا کر ''کارنامے‘‘ دکھائے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پرتگال نے پاکستانیوں کیلئے ویزا پالیسی کا ڈھکنا کَس کر بند کر دیا ہے۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
تاشقند میں سوویت یونین کے زمانے میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔ سزائیں سخت تھیں۔ 1992ء میں یہ ریاستیں آزاد ہوئیں اور راستے کھلے تو ہفتے میں تین تین پروازیں پاکستان سے جاتی تھیں۔ کچھ تجارت کیلئے جاتے تھے‘ کچھ سیاحت کیلئے اور کچھ بادہ نوشی کیلئے۔ انہی دنوں کی بات ہے میں تاشقند کے ہوٹل ''چار سو‘‘ میں قیام پذیر تھا۔ آدھی رات کو دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو ہوٹل کا سٹاف کھڑا تھا۔ کہنے لگے: سیڑھیوں پر ایک پاکستانی نشے میں دُھت گرا پڑا ہے۔ اسے انگریزی نہیں آتی‘ آکر اس سے پوچھ دیں کہ کس کمرے میں رہ رہا ہے۔ پاکستانیوں کا ازبک ہنی مون کچھ عرصے کے بعد ختم ہو گیا۔ ایک تو مذہبی گروہوں کی یلغار نے کام خراب کیا۔ دوسرے کافی ''غیر پاکستانی‘‘ بھی پاکستانی پاسپورٹ پر وہاں جا رہے تھے۔ کچھ دھماکے بھی ہوئے۔ یہ غالباً ازبکستان ہی کا واقعہ ہے کہ ہمارے تبلیغی بھائی وہاں کی مسجد میں داخل ہوئے تو جوتے اتار کر اندر لے گئے۔ مقامی افراد نے حیرت کا اظہار کیا کیونکہ وہاں جوتے مسجد کے باہر ہی ہوتے ہیں۔ جب انہیں بتایا گیا کہ پاکستان میں جوتے ساتھ‘ اندر لے کر جانے کا رواج ہے کیونکہ باہر چوری ہو نے کا خدشہ ہے تو انہوں نے کہا کہ پھر تبلیغ کی ضرورت پاکستان میں زیادہ ہے۔ ترکیہ نے بھی چند برس پہلے ایک تطہیری مہم چلائی اور بہت سے ناپسندیدہ پاکستانیوں کو نکال دیا۔
آپ اندازہ لگائیے۔ اتنی بڑی حکومتی مشینری اور لاتعداد ایجنسیوں کے با وجود بھکاریوں کی ''برآمد‘‘ کو روکا نہیں جا رہا۔ اس کی وجہ ہمارا رویہ ہے۔ سرگودھا والے واقعہ ہی سے معاملہ سمجھ جائیے۔ بجائے اس کے کہ ریسکیو والے متعلقہ حکام کو آگاہ کرکے بھکاری کا پاسپورٹ ضبط کراتے‘ اس کا پاسپورٹ اسے واپس دے دیا گیا۔ یہی وطن دشمن رویہ ہے جس کی وجہ سے ناجائز پاسپورٹ بھی جاری ہوتے ہیں اور ناجائز شناختی کارڈ بھی!! مقتدر حضرات مجرموں کی سفارش کرتے ہیں۔ خاندان‘ برادری‘ پارٹی اور قبیلے کا مفاد سامنے ہو تو میرٹ کو ذبح کرنے میں دیر نہیں کی جاتی۔ رُول آف لاء کی بات بہت کی جاتی ہے مگر سچ یہ ہے کہ رُول ہے نہ لاء! نتیجہ یہ ہے کہ افراد بھی بھکاری بن کر دوسرے ملکوں کو جا رہے ہیں اور حکومتیں بھی‘ کشکول بدست‘ جون ایلیا کے بقول ''اللہ ہی دے گا‘ مولا ہی دے گا‘‘ کا راگ الاپتی ہیں!
جڑواں شہروں کے باشندے جماعت اسلامی کے دھرنے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مشہور شاعر انوری نے کہا تھا:
ھر بلایی کز آسمان آید؍ گرچہ بر دیگران قضا باشد
بر زمین نارسیدہ می گوید؍ خانۂ انوری کجا باشد
آسمان سے جو بلا بھی اُترتی ہے‘ اسے کسی اور پر بھی ٹوٹنا ہو تو زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی انوری کے گھر کا پتا پوچھنے لگتی ہے۔ پنڈی اسلام آباد کے مکینوں کا بھی یہی حال ہے۔ ایک دھرنا ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ دھرنے کے شرکا مبینہ طور پر پلاؤ اور حلوہ پوری سے اور مری کی سیر سے حظ اٹھاتے ہیں اور جڑواں شہروں کے رہنے والے اذیت کے مزے لوٹتے ہیں۔ راستے بند ہونے کا بھی اپنا مزا ہے۔ بندہ ہسپتال پہنچ سکتا ہے نہ کام پر‘ ایئر پورٹ پر نہ ریلوے سٹیشن پر۔ دھرنے کی تکلیف حکومتی عمائدین کو ہوتی ہے نہ آئی پی پی کے مالکان کو! برق گرتی ہے تو بیچارے عام شہریوں پر!! حافظ نعیم الرحمن کے آنے سے خوابیدہ جماعت اسلامی جاگ اٹھی ہے۔ فرشتے تو اس کے اراکین بھی نہیں‘ مگر پھر بھی نیک نامی میں جماعت کا ٹریک دوسروں سے بہتر ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے سے پہلے عمران خان کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہی تھی کہ سب کو آزمایا ہے اور کئی بار آزمایا ہے تو عمران خان کو بھی ایک بار آزمانا چاہیے۔ وہ تو قسمت تھی کھوٹی۔ روکھی تھی روٹی! ہم نے چار ڈکٹیٹروں کو بھی آزمایا تو حافظ نعیم الرحمن کو آزمانے میں کیا حرج ہے؟ اور کچھ نہیں تو بہت سے خرچے تو کم کریں گے! حافظ صاحب ان لوگوں سے یقینا بہتر ہیں جو خود کسی اور پارٹی میں ہوتے ہیں اور ان کے بچے کسی اور پارٹی میں! یوں بھی جماعت کے حوالے سے کراچی کا ریکارڈ پنجاب سے بہتر ہی رہا ہے۔ منور حسن صاحب کے نظریات انتہا پسند تھے مگر ان کی دیانت اور سادہ زندگی مثالی تھی۔ پروفیسر غفور احمد‘ نعمت اللہ خان‘ عبدالستار افغانی یہ سب قابل لوگ تھے اور کراچی سے تھے۔ یہ اور بات کہ جماعت کے بڑے بڑے لکھاری زیادہ تر پنجاب سے تھے۔ ملک غلام علی‘ خلیل حامدی‘ نعیم صدیقی‘ عبد الحمید صدیقی‘ سب Genius افراد تھے اور پنجاب سے تھے۔ مگر یہ سب ماضی کی باتیں ہیں۔ ان رفتگاں کے مقابلے میں جماعت کے موجودہ منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو فرق صاف ظاہر ہے۔ اتنا کہنا ہی کافی ہے:
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے
حافظ نعیم الرحمن صاحب کی افتادِ طبع ہنگامہ پرور ہے۔ کراچی کی سیاست میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو خوب نمایاں کیا۔ یہ تو ظاہر تھا کہ امارت سنبھالنے کے بعد وہ جماعت کے جامد خاکے میں جارحانہ رنگ بھریں گے مگر جڑواں شہروں میں دھرنا دینے کے بعد جماعت بھی پی ٹی آئی اور تحریک لبیک کی سطح پر آگئی ہے اور سیاسی تاریخ میں انہی کی صف میں کھڑی ہو گئی ہے۔ حافظ صاحب اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں تو انتخابات جیتنے کے لیے کوئی نئی اور تازہ حکمت عملی اپنائیں۔ اس امر پر تحقیق اور تجزیہ کرائیں کہ بہت سے مثبت پہلوؤں کے باوجود جماعت کو ووٹ کیوں نہیں ملتے۔ جماعت کی ذیلی تنظیم کی جو منفی شہرت تعلیمی اداروں کے حوالے سے پھیل چکی ہے اس کی اصلاح پر توجہ دیں! جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ اسوۂ مبارک کی پیروکار ہے۔ مگر اسوۂ مبارک میں تو کسی کو تکلیف پہنچانے کے آثار دور دور تک نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved