تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     01-08-2024

پٹ سیاپا

بعض اوقات قارئین کی طرف سے اعتراض کے ساتھ ساتھ مجھے بھی خیال آتا ہے کہ آخر ہم لوگ اپنی ہر تحریر میں ہمہ وقت پٹ سیاپا کیوں ڈالے رکھتے ہیں؟ کچھ قارئین کا کہنا ہے کہ آپ لکھنے والوں کو اس ملک میں کوئی اچھی بات کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ جب یہ سوال میں خود سے کرتا ہوں تو جواب ملتا ہے کہ آخر کس اچھی بات کا تذکرہ کروں‘ کیا ٹھیک ہو رہا ہے جس پر شاباش دیں؟ اگر کوئی ملازم مقررہ وقت پر دفتر آ جائے تو کیا اب اسے اس بات پر تمغہ دیا جائے؟ کوئی افسر اگر اپنی میز پر پڑی ہوئی فائل پر نوٹ لکھ کر اسے آگے بھیج دے تو کیا اب اسے اس کارنامے پر سندِ امتیاز عطا کی جائے؟ اور اگر کسی سرکاری ہسپتال کا ڈاکٹر مریضوں کو چیک کر لے تو کیا اسے دو عدد اضافی سالانہ انکریمنٹس دے دی جائیں؟ یہ سب وہ کام ہیں جو ان سب حضرات کی نوکری کی لازمی اقتضا ہے اور انہیں اسی بات کی تنخواہ دی جاتی ہے۔ دوسری طرف اگر سرکار اپنے کسی ملازم کو ماہانہ تنخواہ دیتی ہے تو کیا اب ہر ماہ ملنے والی اس تنخواہ پر سرکار کی مدح میں نظمیں لکھی جائیں اور اخبار میں تہنیتی اشتہار چھپوایا جائے؟ ایسا بھی ہرگز نہیں ہوگا کہ یہ معاوضہ اس محنت کا ہے جو سرکاری ملازم کرتا ہے۔ (ویسے یہ بات میں نے صرف حساب برابر کرنے کی غرض سے لکھ دی ہے وگرنہ ہمارا سرکاری ملازم سارا مہینہ کام نہ کرنے کے عوض تنخواہ لیتا ہے‘ الا ماشاء اللہ)۔ غرض جو کام کسی پر فرض ہیں اور وہ اس کام کے عوض معاوضہ لیتا ہے تو پھر اس کام کی آٹھ دس فیصد انجام دہی ایسا کارنامہ نہیں کہ اس کی تعریف میں کالم لکھے جائیں۔ ہاں! البتہ جو بندہ یا ادارہ اس گئے گزرے دور میں اپنا فریضہ احسن طریقے سے انجام دے تو اس کی تعریف ضرور بنتی ہے مگر کسی ایسے ادارے کا نام تو بتایا جائے۔
اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ سارے معاملات خراب جا رہے ہوں۔ ڈاکٹر ہڑتال کیے بیٹھے ہوں۔ وکلا احتجاج کرتے ہوئے ہسپتال میں جا کر توڑ پھوڑ کر رہے ہوں۔ ترقیاتی اداروں کے افسران مال پانی تو بنا رہے ہوں مگر کام دھیلے کا نہ کر رہے ہوں۔ بیورو کریٹ سرکاری سہولتوں کے علاوہ کروڑوں روپے تو بنا رہے ہوں مگر مخلوقِ خدا کا کام نہ کر رہے ہوں۔ سیاستدان اقتدار کے مزے تو لے رہے ہوں لیکن جن سے ووٹ لے کر آئے ہوں ان کے حال سے لاتعلق ہوں۔ منصف اپنی تنخواہوں میں از خود اپنی مرضی کے مطابق اضافہ کرنے کے باوجود عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوں۔ حفاظت پر مامور بعض لوگ غائب کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوں۔ حکمران ملک کے بجائے اپنی ذاتی ترقی کی فکر میں ہوں۔ جن لوگوں نے اس ملک کے عوام کو آسانیاں دینی تھیں وہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوں۔ استاد تعلیمی ادارے اور طالبعلموں کے بجائے اپنے ٹیوشن سنٹر سے مخلص ہوں۔ اشرافیہ عوام کے ٹیکسوں پر عیاشی کر رہی ہو اور خود ٹیکس نہ دے رہی ہو۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ کرنے والے جب خود مفت بجلی استعمال کر رہے ہوں۔ حتیٰ کہ لوٹ مار کا یہ عالم ہو کہ ایک ریٹائرڈ اعلیٰ عہدیدار گھر میں سولر سسٹم لگوانے کے بعد سرکار سے مطالبہ کرے کہ اس کو ماہانہ دو ہزار یونٹ مفت بجلی کی سرکاری سہولت حاصل تھی اب چونکہ اس نے اپنے گھر سولر سسٹم لگوا لیا ہے اس لیے اس کو ان دو ہزار مفت یونٹوں والی سرکاری سہولت کے عوض ان یونٹوں کی رقم ادا کی جائے۔ تو آپ بتائیں کہ اس بے درد موسم میں کس کام کی تعریف کریں؟ کس بات پر خوشی کے شادیانے بجائیں اور کس بات سے کوئی مثبت نتیجہ کشید کریں؟
یقین کریں یہ عاجز جب بھی واپس آتا ہے ہر بار کسی اچھی تبدیلی کی امید اپنے دل میں لیے آتا ہے۔ اپنے پیچھے گزرے ایک آدھ ماہ میں اس ملک میں کسی بہتری کی توقع لگائے واپس آتا ہے۔ لیکن صورتحال پہلے سے بھی گئی گزری ہو اور معاملات مزید پستی کی طرف گامزن ہوں تو پھر کیا کیا جائے؟ ایک قاری نے میرے تنقیدی کالموں پر مجھے میسیج بھیجا کہ آپ کسی سرکار کی اچھی بات پر اس کی تعریف کیوں نہیں کرتے؟ میں نے اس سے پوچھ لیا کہ آپ کوئی ایسی بات بتا دیں جس کی تعریف کی جائے۔ کوئی ایسا پہلو ہم پر آشکار کر دیں جس سے کسی مثبت پیش رفت کا اشارہ ملتا ہو اور کوئی شعبہ ایسا بتا دیں جس کی تعریف بنتی ہو اور اس عاجز نے اس کے خلاف لکھا ہو۔ جواب میں اس قاری نے جو خوبی بتائی وہ سادہ لفظوں میں یہ تھی کہ اس ملک کی یہ خوبی کیا کم ہے آپ جیسے لوگوں کو بکواس کرنے کی اور لکھنے کی آزادی میسر ہے۔ یعنی یہ واحد منفی اچھائی تھی جو اس نقاد قاری کے ذہن میں آئی۔ اس سے آپ حالات کی خرابی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
دو ماہ بعد واپس آیا ہوں تو حالات ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''اگلے سے چگلے‘‘ ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے عوام کی سہولتوں میں اضافہ کر رہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں ترقیٔ معکوس ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جو سرکاری سہولتیں ہمیں میسر تھیں‘ اب وہ یا تو ختم ہو چکی ہیں یا ختم کی جا رہی ہیں۔ ملتان میں نشتر ہسپتال اس کی ایک روشن مثال ہے۔ 1953ء میں جب ملتان میں یہ ہسپتال بننا شروع ہوا اور ستر کی دہائی میں جب یہ ہسپتال اپنے بنیادی منصوبے کے مطابق مکمل ہوا تو اس کی استعداد تقریباً گیارہ سو بیڈز تھی۔ تب ملتان کی آبادی پانچ لاکھ تھی۔ اب ملتان کی آبادی 20لاکھ سے زیادہ ہے اور ارد گرد دور نزدیک سے آنے والے مریضوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے اور اس ہسپتال کی استعداد 18سو بیڈز کے لگ بھگ ہے۔ تاہم بیڈز میں یہ اضافہ کسی توسیع کا مرہونِ منت نہیں بلکہ پہلے سے موجود وارڈز میں بیڈز کی تعداد بڑھا کر یہ استعداد ڈبل کر دی گئی۔ نشتر ہسپتال میں پہلے 24وارڈز تھے‘ اب 29وارڈز تو باقاعدہ ہیں‘ باقی ہسپتال کے تہہ خانوں میں اور آرتھو پیڈک‘ نیورالوجی اور بچوں کے وارڈز میں ایک ایک بستر پر جو دو دو تین تین مریض پڑے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔
نشتر ہسپتال اس سارے خطے کا واحد Tertiary Care ہسپتال ہے جس میں سندھ کے علاقے شکارپور وکندھ کوٹ‘ بلوچستان سے لورالائی اور کے پی سے ڈیرہ اسماعیل خان تک سے مریض آتے ہیں۔ نشتر ہسپتال کا دباؤ کم کرنے کیلئے شہر کے نواح میں ایک اور ہسپتال بنانے کا منصوبہ کئی سال تک زیر التوا رہنے کے بعد بالآخر شروع ہوا‘ یہ نشتر2 تھا۔ ایک بڑے مستعد اور فعال افسر سے عرض کی کہ نشتر بذاتِ خود ایک ناقابلِ علاج اور ناقابلِ اصلاح حد تک تباہ ہو چکا ہے‘ براہِ کرم اس پر مزید بوجھ نہ ڈالیں۔ اس ہسپتال کو ایک نیا ہسپتال بنائیں۔ تب اس افسر نے بتایا کہ یہ ایک بالکل علیحدہ اور خود مختار ہسپتال ہوگا۔ اس کا نام نشتر 2 محض اس لیے رکھا ہے کہ نام پر فساد نہ پڑ جائے۔ پہلے ہی اس شہر میں پرویزالٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہے‘ محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی ہے‘ محمد نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی ہے‘ محمد شہباز شریف جنرل ہسپتال ہے۔ اب مزید کسی ایسے نام سے بچنے کیلئے اس کا نام نشتر 2 رکھا گیا ہے۔ وگرنہ یہ ایک علیحدہ مکمل ہسپتال ہوگا۔
واپس آیا ہوں تو علم ہوا کہ نئے نشتر ہسپتال یعنی نشتر 2 کو چلانے کیلئے پرانے اور اصل والے نشتر ہسپتال سے آرتھو پیڈک اور نیورالوجی کے شعبے نئے ہسپتال میں منتقل کیے جا رہے ہیں۔ انتہائی نگہداشت اور فوری علاج کے متقاضی ان دونوں شعبوں میں داخلے کے ضرورت مند اس شہر کے مریض اب 20کلو میٹر دور جاتے ہوئے جانبر ہوتے ہیں یا جاں بحق قرار پاتے ہیں‘ یہ ابھی پردۂ غیب میں ہے۔ لیکن کیا عجب منصوبہ بندی ہے کہ 70سال پرانے اس علاقے کے واحد تیسری سٹیج کے ہسپتال میں توسیع و اضافے کے بجائے اس کے دو قدیمی اور اہم شعبے وہ لوگ ختم کر رہے ہیں جو چھینک آنے پر اپنا علاج سرکار کے خرچے پر بیرونِ ملک کرواتے ہیں۔ پھر قاری گلہ کرتے ہیں کہ آپ ہر وقت کہرام مچائے رکھتے ہو۔ بندہ پٹ سیاپا نہ کرے تو اور کیا کرے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved