تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     01-08-2024

اسماعیل ہنیہ کی شہادت

اسماعیل ہنیہ کی شہادت بہت بڑا سانحہ ہے۔ وہ اس وقت حماس کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ 1980ء کی دہائی میں حماس کی داغ بیل پڑی تو اسماعیل ہنیہ شیخ احمد یٰسین کی قیادت میں تنظیم میں شامل ہو گئے۔ 2004ء میں شیخ احمد یٰسین کو نمازِ فجر کیلئے جاتے ہوئے ایک اسرائیلی میزائل لگا اور وہ شہید ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد اسماعیل ہنیہ حماس کا سب سے بڑا تعارف تھے۔ کئی سال تک خان یونس کی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتے رہے۔ فصیح عربی کمال روانی سے بولتے تھے۔ عرب دنیا میں ان کا ایک مقام تھا۔ رواں برس اپریل میں ان کے اپنے تین بیٹے‘ تین پوتیاں اور ایک پوتا شہید ہوئے تو ان کے احترام میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ان کے حریف کہا کرتے تھے کہ جنگ غزہ میں ہو رہی ہے اور لیڈر دوحہ (قطر) میں بیٹھا ہے۔ دراصل لیڈر کو پتا تھا کہ ان کی زندگی کو ہر لمحہ خطرہ ہے اور یہ بھی ادراک تھا کہ ان کی رحلت کے بعد حماس کی قیادت کمزور ہو سکتی ہے۔
ہنیہ خاندان بہت اعلیٰ و ارفع اصولوں کا حامل ہے۔ شہادت کے چند ہی گھنٹوں بعد میں الجزیرہ ٹی وی پر شہید کے فرزند عبدالسلام ہنیہ کا انٹرویو سن رہا تھا۔ اینکر نے پوچھا کہ اس اندوہناک خبر کو سن کر آپ کا فوری ردِعمل کیا تھا؟ عبدالسلام نے پُرسکون لہجے میں جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں اور یہ کہ حق کے لیے لڑنے والے عظیم لیڈر اکثر شہید ہی ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے باپ پر فخر ہے۔
اسماعیل ہنیہ 1962ء میں غزہ میں ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔ اسرائیل کی بربریت کا بچپن سے مشاہدہ کیا۔ پانچ سال کے تھے تو 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ شروع ہو گئی۔ غزہ مصر کے ہاتھ سے نکل کر اسرائیل کے زیرِ تسلط آ گیا۔ ہنیہ خاندان کا تعلق فلسطین کے شہر عسقلان سے ہے۔ 1948ء کی جنگ‘ جسے فلسطینی نکبہ یعنی تباہی کہتے ہیں‘ کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور ہنیہ فیملی نے غزہ کے مہاجر کیمپ میں پناہ لی۔ غزہ 1948ء سے 1967ء تک مصر کے زیرِ انتظام رہا۔ 1980ء کی دہائی میں غزہ میں انتفاضہ کا آغاز ہوا تو نوجوان اسماعیل ہنیہ پیش پیش نظر آئے۔ اس کے بعد اساعیل ہنیہ کا سیاسی عروج جاری رہا۔ جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ بھی آزادی کی جنگ جاری رکھنے کے پیغام کیلئے مناسب فورم تھا۔ اسماعیل ہنیہ یہ پیغام تواتر سے دیتے رہے۔ 2005ء میں اسرائیل کو بادل نخواستہ غزہ چھوڑنا پڑا۔ 2006ء میں فلسطینی پارلیمنٹ کے الیکشن میں وہ جیت کر مختصر عرصہ کیلئے فلسطین کے وزیراعظم بھی رہے‘ مگر ایک اور قد آور فلسطینی لیڈر محمود عباس کیلئے وہ قابلِ قبول نہ تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حماس اور پی ایل او کی راہیں کیوں جدا ہوئیں؟ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دونوں تنظیموں کے آزادی کے حصول کے راستے جدا تھے۔ سوچ مختلف تھی۔ 1980ء کی دہائی میں یاسر عرفات نے عسکری جدوجہد کو خیرباد کہہ کر مذاکرات کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔ اوسلو میں پی ایل او اور اسرائیلی قیادت کے خفیہ مذاکرات شروع ہو گئے تھے۔ اس کے برعکس حماس کو یقینِ کامل تھا کہ عسکری جدوجہد ہی فلسطین کی آزادی کا واحد طریقہ ہے۔ اسماعیل ہنیہ اکلوتے فلسطینی لیڈر ہیں جو 2006ء کے الیکشن میں ووٹ کی طاقت سے وزیراعظم بنے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر بطور مبصر یہ الیکشن دیکھنے فلسطین آئے تھے اور اُن کا بیان تھا کہ انتخابات آزادانہ اور شفاف ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ نے اس الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور اسماعیل ہنیہ تادمِ شہادت امریکی حکومت کی نظر میں دہشت گرد ہی رہے۔ اوسلو مذاکرات کے بارے میں حماس کو یقین تھا کہ یہ فریب کا جال ہیں جو اسرائیل کے مغربی ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر بچھایا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ حماس کا مؤقف سچ ثابت ہوا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت کیلئے تہران کا انتخاب اور ٹائمنگ دونوں اہم ہیں۔ اسرائیل نے ایک حملے میں دو اہداف حاصل کیے ہیں۔ اولاً حماس کو اہم ترین لیڈر سے محروم کردیا اور دوم ایران کو بتا دیا کہ اس کا دارالحکومت اسرائیلی میزائلوں کی زد میں ہے اور یہ کہ اسرائیلی میزائل عین نشانے پر لگتے ہیں۔ صدارتی حلف برداری کے وقت اسرائیل کا یہ خوفناک اقدام ایران کیلئے باعثِ شرمندگی بنا ہے۔ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ میزائل کہاں سے داغا گیا؟ ایران کے اندر سے دشمن کے میزائل چلانے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ سکیورٹی کے زاویے سے ایران ایک مضبوط ملک سے۔ غالب خیال یہ ہے کہ میزائل باہر سے داغا گیا اور اس عمل میں اسرائیل کو امریکہ کی تکنیکی معاونت حاصل تھی۔
اہم لیڈر‘ جن کی جان کو خطرہ لاحق ہو‘ ان کی جائے رہائش خفیہ رکھی جاتی ہے یا مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ لبنان کی سول وار کے دوران میری پوسٹنگ دمشق میں تھی۔ سول وار 1975ء میں شروع ہوئی تھی اور سالوں جاری رہی۔ جب سیز فائر ہوتی تھی تو میں بیروت کا چکر بھی لگا لیا کرتا تھا۔ سمیع اللہ قریشی ہمارے وہاں سفیر تھے۔ یاسر عرفات بھی ان دنوں بیروت میں مقیم تھے اور ان کی زندگی کو بھی خطرہ رہتا تھا۔ قریشی صاحب سے یاسر عرفات کے دوستانہ تعلقات تھے۔ مجھے سفیر صاحب نے بتایا کہ یاسر عرفات روزانہ سونے کیلئے مختلف جگہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اب اسماعیل ہنیہ کی ایران میں جائے رہائش کا موساد کو کیسے پتا چلا‘ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔
سابق امریکی صدر اوباما نے چند سال پہلے کہا تھا کہ اب دنیا سمارٹ وارز کے زمانے میں داخل ہو رہی ہے۔ یعنی توپوں اور ٹینکوں کا زمانہ گیا‘ اب ڈرون اور میزائل چلیں گے‘ نفسیاتی جنگیں لڑی جائیں گی لیکن میزائل عین نشانے پر پڑیں گے‘ یہ پچھلے دو تین عشروں میں ممکن ہوا ہے۔ جب امریکہ ہمارے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کرتا تھا تو وہ بھی تیر بہدف ہوتے تھے‘ عین نشانے پر لگتے تھے لیکن دور دراز سے آنے والے یہ ڈرون کسی جادو کی مدد سے اپنا ہدف تلاش نہیں کرتے تھے۔ کوئی نہ کوئی ایجنٹ ہدف پر کوئی معدنی چیز رکھ دیا کرتا تھا اور ڈرون اس معدنی ہدف کو ہِٹ کرتا تھا اور ساتھ ہی امریکہ کی نظر میں دہشت گرد ٹھہرنے والے بھی مارے جاتے تھے۔ اب سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہدف تلاش کیا جاتا ہے اور میزائل عین ہدف کو ہِٹ کرتا ہے۔ تہران میں بھی یہی کچھ ہوا ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ایران کا ایئر ڈیفنس الرٹ کیوں نہیں تھا؟
اسرائیلی حکومت نے اس اہم واقعے پر کوئی بیان نہیں دیا۔ البتہ ایک انتہا پسند وزیر نے ذاتی بیان میں کہا کہ خطہ ایک بڑے خطرے سے پاک ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل اور موساد کیلئے یہ بڑی کامیابی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر سب سے پہلے مذمتی بیان انقرہ اور ماسکو سے آئے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی بھرپور مذمت کرتا ہے‘ ہم ان کے اہلِ خانہ اور فلسطینی عوام کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔غزہ میں امن کی کوششوں کو اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ اسماعیل ہنیہ باعزت امن کے متلاشی تھے اور دائمی جنگ بندی چاہتے تھے لیکن اسرائیل اور امریکہ بضد رہے کہ غزہ کو حماس سے پاک کیا جائے‘ مگر حماس ایک نظریہ ہے جو اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے شاید ختم نہ ہو سکے۔پاکستان کیلئے اس سانحے میں سبق یہ ہے کہ ہر لمحہ ہوشیار رہو۔ اسرائیلی موساد اور بھارتی را مضبوط ہو گئی ہیں اور دونوں میں تعاون بھی ہے۔ بہرحال‘ اللہ مغفرت کرے بہت عظیم بطلِ حریت شہید ہوا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved