تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     02-08-2024

Enemy at the Gates

دنیا ہمیشہ سے ہی مشکلات کا شکار رہی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں ملتا جب جنگیں نہیں ہو رہی تھیں یا انسان ایک دوسرے کا گلا نہیں کاٹ رہے تھے۔ عام انسانوں نے اپنے لیڈروں کی اَنا اور نرگسیت کی قیمت اپنا لہو دے کر ادا کی اور ان فیصلوں کا ایندھن بنے جن میں ان کا کوئی حصہ یا کردار نہیں تھا۔ اگرچہ پہلے بھی اس کتاب The Better Angels of Our Nature: Why Violence has Declined کا ذکر ہو چکا‘ جس میں کہا گیا تھا کہ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ میں سب سے پُرسکون دور یہی ہے جس میں ہم زندہ ہیں۔ اس کتاب کے مصنف کے مطابق انسان جتنی پُر تعیش‘ پُرسکون اور آرام دہ زندگی اب گزار رہا ہے‘ زندگی پہلے کبھی ایسی نہ تھی۔ اس کی وہ درجنوں مثالیں دیتا ہے‘ ایک مثال ہی کافی ہے کہ اب انسان سرحدوں کے اندر محفوظ ہیں۔ ماضی کی طرح کوئی بھی آپ کی دھرتی پر چڑھائی نہیں کر سکتا‘ نہ ہی لوٹ مار اور قتلِ عام کر سکتا ہے۔ بیماریوں کے علاج دریافت ہو گئے ہیں۔ ویکسین اور اینٹی بائیوٹکس نے انسانی زندگی کا معیار بہت بلند کر دیا ہے۔ انسان کی طبعی عمر بڑھ گئی ہے۔ دنیا کے چند ایک ممالک کو چھوڑ کر کہیں بھی خانہ جنگی نہیں ہو رہی۔
میرے ایک دوست نے کہا تھا کہ جو جدید سہولتیں اب گاؤں کے ایک مکان میں رہنے والے عام سے بندے کے پاس ہیں وہ تو اکبر بادشاہ کے پاس بھی نہیں تھیں۔ بادشاہ سلامت کی طاقت‘ رعب‘ دبدیہ ایک طرف لیکن سہولتیں دیکھیں تو ایک عام آدمی بھی اُس وقت کے بادشاہ سے بہتر زندگی گزارتا ہے۔ اگرچہ اپنے دور کے حساب سے اکبر بادشاہ کے محل میں سب عیاشی اور کمفرٹ کا سامان موجود ہوگا‘ لیکن اگر آج کی دنیا میں موجود سہولتوں کو سامنے رکھیں تو اکبر بادشاہ آپ کو بہت غریب لگے گا جس کے گھر میں بجلی تھی نہ گیس۔ فریج‘ موٹر سائیکل‘ کار‘ ایئرکنڈیشنر‘ ٹی وی‘ یوٹیوب‘ ٹویٹر‘ فیس بک‘ موبائل فون اور وائی فائی وغیرہ بھی نہ تھا۔ آج کے بچے کو اگر بتایا جائے کہ اکبر‘ بادشاہ ہو کر بھی ان سب چیزوں سے محروم تھا تو وہ حیرانی میں ڈوب جائے گا کہ پھر وہ بادشاہ ہی کیوں تھا۔لیکن کیا کریں‘ ہم چونکہ ان زمانوں میں زندہ نہ تھے لہٰذا ہمیں ان ادوار کی مشکلات کا قطعاً کوئی احساس نہیں ہے۔ ہر انسان کو اپنا وقت اور دور ہی مشکل لگتا ہے کیونکہ وہ اس سے ڈیل کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے ان تمام تر پُرسکون معاشروں اور ملکوں کے باوجود ہمیں لگتا ہے کہ ہم سب سے زیادہ مشکلوں کا شکار ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں دو‘ تین جگہیں یا ملک ایسے ہیں جہاں تشدد‘ خون خرابہ یا جنگ ہو رہی ہے۔ فوری طور ہمارے ذہن میں یوکرین اور غزہ آتا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ اب تک پراکسی قوتوں کی مدد سے لڑی جا رہی تھی بالآخر وہ براہِ راست جنگ کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ ماضی میں دونوں ممالک مختلف تنظیموں کو فنڈنگ کرکے ایک دوسرے کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ اب وہ دیوار بھی گر چکی۔ اب براہِ راست حملے ہورہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال تہران میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کی رہائشگاہ پر اسرائیلی حملہ ہے جس میں ان کی شہادت ہوئی ہے۔ اس حملے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جدید تاریخ میں اب تک کسی ملک کے دارالحکومت میں اس طرح حملہ کرکے کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔ ایسا حملہ ہمیشہ اعلانِ جنگ سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل نے یہ حملہ کرکے واضح طور پر جنگ کا اعلان کیا ہے۔ اب سارا بوجھ ایران پر آن پڑا ہے کہ وہ اس حملے کا کیا جواب دے کہ اس کو جتنی ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کا مداوا ہو سکے۔ ایرانی عوام کے اندر بھی عدم تحفظ بڑھا ہے۔ انہیں محسوس ہوا ہو گا کہ وہ بھی اب غزہ کی طرح اسرائیل سے محفوظ نہیں ہیں۔ اسرائیل اب ایران اور اس کے شہریوں کو اسی طرح نشانہ بنا سکتا ہے جیسا وہ روز فلسطین کے شہریوں کو بنا رہا ہے۔ ایران نے مڈل ایسٹ میں اب تک تو اپنی پراکسی تنظیموں کے ذریعے اپنے دشمنوں کو جواب دیا ہے۔ تو کیا اب بھی ایران اسی روش پر قائم رہے گا اور حزب اللہ اور حماس کے ذریعے اسرائیل کے حملے کا جواب دے گا یا پھر براہِ راست اس جنگ میں ملوث ہوگا؟
اگر ایران کسی تنظیم سے اسرائیل پر حملہ کراتا ہے تو اس کے قومی وقار کو جو ضرب لگی ہے اس کا مداوا نہیں ہوسکے گا۔ ایرانی قیادت بری طرح پھنس چکی ہے۔ اب تک اسرائیل کے خلاف جنگ حماس اور حزب اللہ کے ذریعے ایران کی سرحد سے بہت دور لڑی جا رہی تھی۔ جو نقصان ہورہا تھا وہ اسرائیل‘ حماس اور حزب اللہ کا ہو رہا تھا۔ اس لیے ایران نے ڈٹ کر ان پراکسی تنظیموں کی حمایت کی۔ ایران کو سوٹ کرتا تھا کہ وہ پراکسی جنگ لڑتا رہے۔ لیکن اسرائیل نے ایران کو اس جنگ میں لانے کا فیصلہ کیا اور دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر بمباری کرکے وہاں درجن بھر ایرانیوں کو نشانہ بنایا جس پر ایران نے بھی سینکڑوں ڈرون اسرائیل کی طرف بھیج دیے جو امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی ملکوں نے گرا دیے۔ ایک آدھ اسرائیل کے فوجی اڈوں پر گرا بھی تو زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے بھی میزائل داغ کر جوابی کارروائی کی۔ یوں پہلی دفعہ ایران اسرائیل آمنے سامنے آئے اور شاید اسرائیل یہی چاہتا تھا کہ ایک دفعہ راستہ کھل جائے تو پھر وہ روز حملے کر سکتا ہے۔ اسرائیل کو یہ بھی اعتماد ہے کہ مڈل ایسٹ میں ایران کے ساتھ کوئی ملک نہیں کھڑا۔ ایران کے خطے میں ہر اہم ملک کے ساتھ ایشوز ہیں۔ بچ بچا کے ایران کو جو سپورٹ ملتی ہے وہ روس اور چین سے ملتی ہے۔ تو کیا چین اور روس محض ایران سے تعلقات کے نام پر امریکہ‘ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ شروع کر سکتے ہیں؟ دیکھا جائے تو پہلی عالمی جنگ ایک قتل ہی سے شروع ہوئی تھی جب ویانا سلطنت کے ایک ڈیوک کو بوسنیا میں کسی نے سڑک پر گولی مار دی جس پر جنگ شروع ہوگئی اور لاکھوں لوگ مارے گئے۔
اس وقت ایران بری طرح پھنس گیا ہے۔ ایک تو عالمی برادری ایران کے ڈیفنس سسٹم سے مایوس ہوئی ہے کہ وہ سرحد پار سے اُڑتے اسرائیلی میزائل کو انٹرسیپٹ نہیں کر سکا۔ پھر اس کی انٹیلی جنس اتنی کمزور نکلی کہ اسے پتا ہی نہ چلا کہ تہران میں اس اہم موقع پر‘ جب دنیا بھر کی اہم شخصیات نئے صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شریک ہیں‘ کسی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسماعیل ہنیہ تو ٹارگٹ پر تھے تو انہیں کیوں سخت سکیورٹی حصار میں نہیں رکھا گیا؟ موساد کے ایسے آپریشنز بارے تو کئی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ کیسے وہ یورپ‘ مڈل ایسٹ اور دیگر ملکوں میں ہائی ویلیو ٹارگٹس کو نشانہ بناتی ہے۔ اس تناظر میں ایران کو بہت زیادہ احتیاط کرنا چاہیے تھی۔ اس واقعہ کے بعد ایران کے نومنتخب صدر کیلئے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ اگر وہ اس وقت اسرائیل پر جوابی حملہ نہیں کرتے تو ان پر شدید تنقید ہو گی لیکن اگر وہ جوابی حملہ کرتے ہیں تو اس سے اسرائیل کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ حماس کے لیڈر کو نشانہ بنا کر ایران کو ایک بڑا سرپرائز تواسرائیل نے پہلے ہی دے دیا ہے۔
پیغام بڑا واضح ہے کہ جو جنگ اب تک ایران کی سرحدوں سے دور لڑی جارہی تھی وہ اب ایران کے اندر لڑی جائے گی۔ اب تک تو ایرانی حکمرانوں نے بڑی سمجھداری سے عوام کو اس جنگ سے محفوظ رکھا تھا اور پراکسی سے کام چلاتے رہے لیکن اب وہ اسرائیل کو فلسطین‘ لبنان اور شام کی سرحدوں سے کھینچ کر اپنے گھر تک لے آئے ہیں۔
اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے‘ وہ بعد کی بات ہے۔ ابھی تو اس ساری صورتحال پر مجھے خوبصورت کلاسک فلم Enemy at the Gates یاد آ رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved