چچا جان کہنے لگے: ''میں نے حماس کے رہنما خالد مشعل صاحب کو اسماعیل ہنیہ کی تعزیت کے لیے فون کیا تھا۔
انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ تعزیت نہ کیجیے‘ ہمیں تہنیت دیجیے‘‘۔ کل رات فون پر میری یہ بات اپنے محبوب چچا جان مفتی محمد تقی عثمانی صاحب سے ہو رہی تھی۔ بدھ کے روز‘ صبح آنکھ کھلتے ہی دل نے یہ زخم کھایا تھا کہ اسماعیل ہنیہ تہران کی رہائش گاہ پر حملے میں شہید ہو گئے۔ زخم اتنا گہرا تھا کہ بالکل ایسا لگا جیسے اپنے کسی قریبی رشتہ دار کے سانحے کی خبر ملی ہو۔ جھلملاتی آنکھوں سے ان کی ہنستی مسکراتی تصاویر دیکھتا رہا۔ اس غم میں جس کسی سے بات ہوئی ایسا لگا کہ اس کا گھاؤ مجھ سے کہیں گہرا ہے۔ اندازہ پہلے بھی تھا لیکن اب زیادہ احساس ہوا کہ یہ شخص پورے عالمِ اسلام کا کیسا محبوب تھا۔ کیسے ہر دل میں بستا تھا۔ عزم‘ بہادری اور استقامت کی کیسی علامت کے طور پر دلوں میں گھر کر چکا تھا۔ ایک ایسا نڈر آدمی جو غلاموں اور کفش برداروں کے اس جمِ غفیر میں الگ پہچانا جاتا تھا۔ وہ مثال جس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ ان کا قول بار بار یاد آتا رہا۔ ''ہم وہ لوگ ہیں جو موت سے اسی طرح پیار کرتے ہیں جیسے ہمارے دشمن زندگی سے پیار کرتے ہیں‘‘۔ میں ان کی امامت کی وڈیو سنتا رہا جس میں وہ تلاوت کر رہے ہیں ''اور جو لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے انہیں مردہ مت سمجھو‘ وہ زندہ ہیں اور انہیں اپنے رب کے پاس رزق ملتا ہے‘‘۔ (آل عمران: 169)
اندازہ تھا کہ عم مکرم مفتی محمد تقی عثمانی (اللہ ان کی حفاظت فرمائے) کا دل بھی کیسا زخمی ہو گا۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی تو وہ دوحہ قطر میں اسماعیل ہنیہ سے تفصیلی ملاقات کرکے واپس آئے تھے۔ فلسطین کا دکھ ہر مسلمان کو ہے لیکن جیسی اور جتنی تڑپ میں نے ان دنوں چچا تقی میں دیکھی وہ ان کے علاوہ کسی شخص میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس زمانے میں ملتِ اسلامیہ کا جیسا درد انہیں اللہ نے عطا کیا ہے ویسا کسی اور کے نصیب میں کم ہو گا۔ اہلِ فلسطین کی مدد کے سلسلے میں دامے‘ درمے‘ قدمے‘ سخنے حمایت اور مدد کا محاورہ ان پر راست آتا ہے۔ عالمی اجتماعات میں تقاریر‘ بیانات‘ ٹویٹس سے لے کر عوام الناس کو اس طرف توجہ دلانے اور اہلِ فلسطین کو مالی مدد پہنچانے تک کون سا قدم ہے جو انہوں نے نہیں اٹھایا۔ ہم اہلِ خانہ کو بھی بھرپور طریقے سے اس طرف متوجہ کیا اور اس کی اہمیت کا احساس دلایا۔ چنانچہ جب وہ کچھ ماہ قبل اسماعیل ہنیہ سے دوحہ میں ملے تو ہمیں ایسا لگا کہ ہم بھی اس پیکرِ شجاعت سے مل رہے ہیں۔
چچا تقی فون پر کہنے لگے: ''اسماعیل ہنیہ میں جوش اور ہوش کا کمال توازن تھا۔ تدبر‘ شجاعت‘ استقامت اور قربانی کی صفات گویا ان کے رگ و پے میں تھیں۔ کسی بھی وقت‘ کسی بھی حال‘ کسی بھی عالم میں وہ گھبرائے ہوئے نہیں لگے۔ بے خوفی کے ساتھ ضروری تدابیر ان کا طریقہ تھا اور محسوس ہوتا تھا کہ انہیں عالمِ اسلام کا درد ہے‘‘۔ چچا بتا رہے تھے کہ جب ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر آئی اور میں نے انہیں تعزیت کا فون کیا تو وہ اسی طرح حوصلے میں تھے۔ پریشانی اور گھبراہٹ سے بہت دور۔ تعزیت کا جواب بھی اسی مفہوم کا تھا کہ ''یہ تعزیت کی نہیں مبارک کی خبر ہے۔ اور غزہ کے سارے ہی نوجوان میرے بیٹے ہیں‘‘۔ اللہ اللہ! تصور کیجیے۔ ایک طرف لاکھوں مربع میل کے وہ حکمران ہیں جن کی اپنے مالکوں کے کوڑے کے خوف سے گھگھی بندھی رہتی ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ اپنے آقاؤں کو جوتے پہنانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جائیں اور دوسری طرف محض 20‘ 22 لاکھ کی آبادی اور نہایت چھوٹے رقبے پر محیط ریاست کا بے خو ف‘ بہادر سربراہ‘ جو سفری پابندیوں کی وجہ سے بیرونِ ملک رہنے پر مجبور تھا۔ اپنے گھرانے سے جدائی کا دکھ اٹھاتا تھا۔ لیکن کسی جبر اور حکم کے سامنے سر جھکانے کا روادار نہیں تھا۔ اسماعیل ہنیہ چاہتے تو اپنا سارا گھرانہ غزہ سے نکال کر کسی محفوظ ملک منتقل کر دیتے۔ لیکن جب ذہن میں یہ بات ہو کہ غزہ کے نوجوان میرے بیٹے اور میری بیٹیاں ہیں تو یہی احساس یہ فیصلہ کرا سکتا ہے کہ جس حال میں سب رہتے ہیں‘ اسی میں میرا گھرانہ بھی رہے گا۔ چنانچہ ان کا گھرانہ وہیں رہا۔ بیٹوں‘ پوتوں‘ پوتیوں سمیت 70 کے لگ بھگ اہلِ خاندان غزہ میں شہید اور وہیں دفن ہوئے۔
1948ء میں جب فلسطین کے دل میں اسرائیل کا خنجر گھونپا گیا تو اسماعیل ہنیہ کے والدین بھی عسقلان سے بے گھر ہونے والوں میں تھے۔ ابو العبد اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ الشاطی کے پناہ گزین کیمپ میں 1962ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے اسرائیلی ظلم اور بربریت کا مشاہدہ کیا۔ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے 2009ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ حماس کے بانی شیخ احمد یٰسین کے معاون مقرر ہوئے۔ اس قربت نے اسماعیل ہنیہ کی ذہنی تربیت کی۔ حماس فلسطین کی آزادی کے لیے الفتح سے اختلاف رکھتی تھی اور مسلح جدو جہد ہی مسئلے کا حل سمجھتی تھی۔ پی ایل او کے یاسر عرفات نے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا تو فلسطینیوں کے اس گروہ نے اختلاف کیا۔ یہ سمجھتے تھے کہ یہ درست راستہ نہیں۔ اسماعیل ہنیہ 2006ء میں فلسطین کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ تہران‘ ایران میں پاسدارانِ انقلاب کے ایک مہمان خانے میں شہید ہوئے کیونکہ وہ نئے ایرانی صد ر کی حلف برداری کیلئے ایران آئے ہوئے تھے۔ یہ ایران کیلئے ہمیشہ کا داغ ہے۔ ایک تو اس کی سرزمین پر حملہ ہوا ہے۔ دوسرے اسماعیل ہنیہ دعوت پر گھر آئے ہوئے مہمان تھے۔ لہٰذا ایران‘ جس کی سکیورٹی اور جواب دینے کی صلاحیت پر کئی سوال اُٹھ گئے ہیں‘ کس طرح ردِ عمل دیتا ہے‘ اس کا انتظار ہے۔ دنیا کیلئے بھی بہت بڑا سوال ہے کہ ایک طرف جنگ بندی کے مذاکرات اور دوسری طرف مذاکرات کار کا قتل اس خطے کو مزید قتل و خون کی طرف لے جانے کے سوا اور کیا ہے؟کج کلاہی کا لفظ اسماعیل ہنیہ اور اس قبیلے پر سجتا ہے۔ وہ کج کلاہی جس کے آنسوؤں‘ سسکیوں اور التجاؤں کو قاتل ترستے ہوئے مر جاتے ہیں۔ میں یہ تحریر اور یہ شعر اس کج کلاہ کیلئے پیش کرنا اعزاز سمجھتا ہوں۔
غلام دام و درم ہیں‘ سو بادشاہی کہاں
بھکاریوں کے تصور میں کج کلاہی کہاں
میں سوچ رہا ہوں کہ تعزیت کسے پیش کروں۔ اسماعیل ہنیہ کے گھرانے کے لوگ اور حماس رہنما چھلکتی آنکھوں اور رخساروں پر بہتے آنسوؤں کے ساتھ بھی تعزیت نہیں تہنیت کے طلبگار ہیں۔ وہ بتا رہے ہیں کہ شہیدوں کا غم کیسے کیا جاتا ہے اور ان کے دوستوں اور گھرانے کے لوگوں کا کیا طرزِ عمل ہوتا ہے۔ وہی طرزِ عمل جو نبی اکرمﷺ نے اپنے شہیدوں کیلئے اختیار کیا اور 1400سال سے امت شہیدوں کیلئے اختیار کرتی آئی ہے۔ فلسطین کے شہیدوں نے ہم دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک بات سکھا دی ہے۔ اس بے حمیت اور خود غرض دور میں سر اٹھا کر کیسے جیا جاتا ہے اور کیسے جان دی جاتی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کے گھرانے میں مردوں و خواتین سب کے رد عمل دیکھ لیں۔ غم کے باوجود کوئی نوحہ کناں‘ ماتم کناں نہیں۔ اسماعیل ہنیہ کے ایک بیٹے نے کہا کہ حق کیلئے عظیم لوگ شہید ہوا کرتے ہیں‘ ہمیں اپنے والد پر فخر ہے۔ سو میں ان سب کو تہنیت اور مبارک پیش کرتا ہوں۔ بار بار پیش کرتا ہوں۔ اور تعزیت پیش کرتا ہوں‘ بار با رپیش کرتا ہوں‘ ان سانس لیتے مردہ افراد کے متعلقین کو جنہیں خود غرض‘ منافق‘ بزدل‘ منفعت شناس‘ مکار اور دوغلے کا ہر لقب سجتا ہے۔ نسل در نسل غداروں کو جن کے گلے میں طوق اور پیروں میں زنجیریں پڑی ہیں اور وہ اسے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ان ضمیر فروشوں کو جن کی تجوریاں مال و دولت سے لبالب ہیں اور وہ مزید تجوریاں چاہتے ہیں۔ ان غلاموں کو جن کی طاقت آقاؤں کے بل پر ہے اور جس کے ذریعے وہ کمزور لوگوں کو یہ غلامی تقسیم کرتے ہیں۔ ان ایمان فروشوں کو جو اپنے اعمال کا جواز ایمان کی من مانی تشریح سے لایا کرتے ہیں۔
میری بار بار تہنیت اور میری تعزیت دونوں کے گھرانے قبول کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved