تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     03-08-2024

اسماعیل ہنیہ‘ عظیم المرتبت شہید

اپنی شہادت سے چند گھنٹے قبل اسماعیل ہنیہ نے ایرانی سپریم لیڈر علی حسینی خامنہ ای سے دورانِ گفتگو فصیح عربی میں کہا کہ خالقِ دو جہاں اپنی حکمت کے مطابق اس دنیا میں لوگوں کو بھیجتا اور جب چاہتا ہے انہیں واپس بلا لیتا ہے۔ تاہم کسی کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ ان شاء اللہ امتِ مسلمہ ہمیشہ زندۂ جاوید رہے گی۔ جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ہے کہ اذا غاب سَیدٌ قام سَیدٌیعنی جب کوئی سردار اپنی جگہ سے غائب ہو جاتا ہے تو دوسرا سردار قیادت کیلئے اس کی جگہ آ کر کھڑا ہوتا ہے۔
اسماعیل ہنیہ ایک سچے اور کھرے مرد ِ مومن اور دلوں میں گھر کر لینے والی شخصیت تھے۔ قاضی حسین احمدؒ کی صاحبزادی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے تقریباً ایک ماہ قبل اسماعیل ہنیہ اور ان کی بیگم سے قطر میں ملاقات کی تھی۔ ان کے بقول سارے گھر میں جنت کا سا سکون اور ایک نور پھیلا ہوا محسوس ہوتا تھا ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مجھے فون پر بتایا کہ جب انہوں نے دو اور معزز عرب خواتین کے ساتھ تین جوان شہید بیٹوں کی ماں کے ساتھ تعزیت کی تو انہوں نے نہایت پُرسکون لہجے میں کہا کہ میرے تیرہ بچے ہیں۔ ابھی تو دس باقی ہیں۔ ہم تو النصر مع الصبر کیساتھ ساتھ اللہ کے اس وعدے پر حق الیقین رکھتے ہیں کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہیں فتح و نصرت سے سرفراز کرے گا۔ ڈاکٹر سمیحہ قاضی نے یہ بھی بتایا کہ اسماعیل ہنیہ نے جناب قاضی حسین احمد کی صاحبزادی ہونے کے ناتے میرا بے حد احترام کیا اور پاکستان و جماعت اسلامی کے بارے وہ نہایت دلچسپی کے ساتھ استفسار کرتے رہے۔
1962ء میں غزہ میں پیدا ہونے والے اسماعیل ہنیہ عربی میں اپنی فصاحت و بلاغت‘ حسنِ قرأت اور تقویٰ و پرہیز گاری کی بنا پرعنفوانِ شباب سے ہی ایک جوانِ صالح کی شہرت رکھتے تھے۔ 2004ء میں حماس کے قائد اور روح ِرواں شیخ احمد یاسین شہید کر دیے گئے تو اس کے بعد اہلِ غزہ کی سیاسی و روحانی غیر رسمی قیادت کا فریضہ اسماعیل ہنیہ انجام دینے لگے۔ وہ کئی برس تک خان یونس غزہ کی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کا خطبہ دیتے رہے۔ 2006ء میں وہ غزہ کے منتخب وزیراعظم مقرر ہوئے ۔ 2017ء سے لے کر تادمِ واپسی اسماعیل ہنیہ حماس کے سیاسی ونگ کے انتہائی متحرک اور کامیاب سربراہ رہے۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کیلئے ایران کا انتخاب کیوں کیا؟ اسرائیل نے ایک تیر سے تین اہداف کو نشانہ بنایاہے۔ یقینا پہلا ہدف تو اسماعیل ہنیہ تھے‘ دوسرا ہدف یہ تھا کہ ایران کو یہ باور کروایا جائے کہ اس کے دفاعی نظام کی اوقات کیا ہے۔ اسرائیل عرب دنیا میں عربوں اور مسلمانوں کے مفادات کیلئے آواز بلند کرنے والے ایران کو سمجھانا چاہتا تھا کہ ہم جب چاہیں ایران کے اندر گھس کر جسے چاہیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس بزدلانہ حملے کا تیسرا ہدف شیعہ ایران کے بارے میں بقیہ اسلامی دنیا میں شکوک و شبہات کو جنم دینا تھا۔گزشتہ چند سالوں کے دوران اسرائیل ایران کے کئی جرنیلوں کو شہید کر چکا ہے اس کے علاوہ اسرائیل نے کئی ایرانی ایٹموں سائنسدانوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ اتنے خطرات کے باوجود ایران نے اپنے دفاعی و سکیورٹی نظام کو مضبوط نہیں کیا۔
اسرائیل نے یہ حملہ کیسے کیا؟ اس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حملے کے لیے جتنی انٹیلی جنس کی ضرورت تھی وہ امریکی معاونت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ ایک مفروضہ یہ ہے کہ اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کے وٹس ایپ سے ان کا سراغ لگایا اور اس طرح تہران میں ان کی رہائش گاہ کا ٹھیک ٹھیک تعین کرلیا گیا۔ایک امریکی اخبار نے ایک اور ہی دعویٰ کر دیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں دھماکہ خیز مواد دو ماہ پہلے نصب کر دیا گیا تھا۔ ابھی تک ایران نے اس اندوہناک واقعے کے بارے میں تحقیقات کا اعلان نہیں کیا۔
ایران نے بارہا اسرائیل کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دی ہیں مگر ابھی تک اس نے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید جنگی ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ایران کی استعداد اسرائیل کے مقابلے میں کم ہے۔ جہاں تک عرب ممالک کا تعلق ہے تو وہ گم سم ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ خطے میں کوئی جنگ ہو رہی ہے۔ 1970ء کی دہائی کے اواخر تک مسئلہ فلسطین کی اونر شپ عربوں کے پاس تھی مگر اس کے بعد ہر عرب ملک اپنا اپنا اقتدار بچانے اور امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں مگن ہے۔عرب دنیااپنے فلسطینی بھائیوں کے احوال سے لاتعلق ہو گئی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے موقع پر اُن کے میزبان عرب ملک قطر نے اسرائیل کے خلاف نہایت پرزور مذمتی بیان جاری کیا ہے ۔ اس بیان کے مطابق اسرائیل نے ذہنی پستی اور اشتعال انگیزی کی انتہا کر دی ہے اور وہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی و اخلاقی ضابطے پامال کرنے کا مرتکب ہوا ہے۔
اسرائیل خطے میں فیلِ بے زنجیر کی طرح دندناتا پھر رہا ہے اور جہاں چاہتا ہے جغرافیائی اور سیاسی حدود کو روندتا چلا جاتا ہے۔ عرب اور اسلامی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسرائیلی حملوں کی زد میں نہیں آئیں گے اور بچ جائیں گے ۔ اگر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم جاری رہے تو پھر اللہ نہ کرے باری باری سب کی باری آئے گی۔عربوں اور مسلمانوں کو اہلِ غزہ کے مظلوم بھائی بہنوں کی بھرپور مدد کرنی چاہیے یہی منشائے الٰہی اور یہی ارشاد نبویﷺ ہے اس پس منظر میں گزشتہ روز سعودی وزیر خارجہ کی ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت اور باہمی اتحاد کو فروغ دینے کی خواہش ایک مثبت پیش رفت ہے اسی طرح جمعۃ المبارک کو پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری طور پر اسماعیل ہنیہ کا یوم سوگ منایا گیا اور ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی اسلامی یگانگت کے نقطۂ نظر سے یہ بھی بہت اچھا اقدام ہے۔
حماس کے ایک لیڈر سامی ابو زہری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ ایک عظیم قائد تھے مگر اسرائیل سمیت دنیا کو معلوم ہونا چاہئے کہ حماس ایک نظریہ ہے‘ شخصیت نہیں۔ ان شاء اللہ ہمارا بچہ بچہ اسماعیل کے نقش قدم پر چلے گا۔
براہِ راست ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اسماعیل ہنیہ ایک مثالی تحریکی قائد تھے۔ وہ عالمِ باعمل تھے‘ فصاحت و بلاغت کا بحر بیکراں تھے‘ خطابت میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا‘ نہایت ملنسار تھے‘ اُن کی بارعب اور باوقار شخصیت میں ایک طرف بلند نظری اور دوسری طرف حقیقی عاجزی و انکساری بھی تھی۔ تبھی تو وہ اہل غزہ کے دلوں پر حکمرانی کرتے تھے۔
جمعرات کے روز ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کی امامت میں لاکھوں مرد و خواتین نے تہران میں اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ ادا کی۔ جمعۃالمبارک کو دوحہ قطر میں ہزاروں لوگوں نے نماز جمعہ کے بعد اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ ادا کی۔پاکستان سے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے ان کی نماز جنازہ میں شرکے کی اور ان کی بلندیٔ درجات کیلئے دعائیں کی۔اسماعیل ہنیہ کودوحہ کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ کے ایک مدّاح ڈاکٹررافت المیقاتی نے اپنے محبوب رہنما کی شہادت پر ارتجالاً مرثیہ نہیں قصیدہ لکھا ہے جس کا یہ مصرع عرب دنیا میں ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔
یادرۃ الشہداء...... اسماعیلنا
اے ہمارے پیارے اسماعیل! آپ شہدا میں موتی کی طرح چمک رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved