تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     03-08-2024

قصہ دو شہروں کا

پہلا شہر دشت و بیاباں میں ہے۔ اس دور دراز‘ گمنام اور تاریخی شہر کا نام ہے ہرار (Harar)۔ یونیسکو نے اسے (ہمارے قلعہ روہتاس‘ ٹیکسلا‘ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات کی طرح) انسانی تہذیب کا ایک اہم گہوارہ قرار دیا ہے۔ پاکستان کی 24کروڑ کی آبادی میں شاید ہی ایسے 24افراد ہوں جو مذکورہ بالا شہر Harar کے نام‘ محلِ وقوع اور تاریخی اہمیت سے واقف ہوں۔ کالم نگار برطانوی اخبار The Times کا ممنون ہے کہ اس نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں روایتی زرق برق لباس پہنے مسکراتی ہوئی خوش و خرم خواتین کی تصویر کیساتھ یہ بھی لکھا کہ یہ مشرقی افریقہ کے ایک ملک ایتھوپیا کے اندر ایک خود مختار ریاست Hararکی رہنے والی ہیں اور ایک قبائلی تہوار میں حصہ لے رہی ہیں۔ Harar کے بارے میں یہ بھی لکھاکہ وہ ساری اسلامی دنیا میں چوتھا شہر ہے جسے مقدس تسلیم کیا جاتا ہے۔ آخری سطر کے الفاظ نے کالم نگار کے ذوق و شوق اور تجسس کو مہمیز دی۔ جب معلومات کے دروازہ پر ہلکی سی دستک دی تو گویا دبستان کھل گیا۔ اس شہر کے بارے میں حقائق آسمان سے گرتی ہوئی برف یا پھولوں کی پتیوں کی آبشار کی طرح میرے دل و دماغ پر گرنے لگے۔ آپ ذرا آنکھیں بند کر کے چشمِ تصور سے دیکھیں تو آپ کو مذکورہ شہر میں رات کو وہ منظر نظر آئے گا جو دنیا میں کسی اور شہر میں دیکھنا ممکن نہیں۔ اس شہر کے لوگ ایک ایسی چھڑی اپنے دانتوں میں دبا کر جس کے سرے پر گوشت کے ٹکڑے پروئے ہوتے ہیں‘ شہر کے مضافات میں ایک ویران جگہ جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بھیڑیے کے قبیلے اور نسل کے ایک خونخوار وحشی جانوروں Hyenas کا غول جنگل سے برآمد ہوتا ہے اور بڑے سکون کے ساتھ اپنے محسنوں کے منہ میں دبائی ہوئی چھڑیوں کے سرے پر لگے ہوئے گوشت کے ٹکڑوں کو کھاتا ہے۔ اس منظر کو اس شہر میں آئے ہوئے ہزاروں سیاح بڑی حیرت اور دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ ہر روز‘ ہر ہفتہ‘ ہر ماہ اور ہر سال۔ صرف یہی نہیں۔ ہرار کے لوگ سن ہجری کے پہلے دن (ماہِ محرم کی پہلی شام) اپنے شہر کے چاروں اطراف بڑی بڑی پلیٹوں میں دلیہ رکھ کر ان خونخوار جنگلی جانوروں کی دعوت کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ان مہمانوں کو Hyena بھی نہیں کہتے بلکہ اُن کیلئے ایک بھلا سا دوستانہ نام رکھا ہوا ہے۔
آیئے اب ہم ہرار کی تاریخ کے اہم ترین سنگِ میل دیکھیں۔ ساتویں صدی تک یہ شہر Axum کی مسیحی Coptic سلطنت کا حصہ تھا۔ اس صدی میں اس شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں کی آبادی نے اسلام کو نیا کا مذہب بنا لیا۔ مورخین اور کھنڈرات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس تاریخی اور قدیم شہر کی بنیاد 1007ء میں رکھی گئی۔ سولہویں صدی میں یہ شہر اسی نام کی سلطنت کا دارالحکومت بن گیا جو نہ صرف اسلامی تعلیمات بلکہ علاقائی تجارت کا مرکز بن گئی۔ یہ دنیا کا پہلا شہر ہے جہاں عرب سے مسلمانوں کے پہلے گروہ نے ہجرت کرکے اپنی جان بچائی اور اس شہر میں پناہ گزین ہوا۔ 1887ء میں یہ شہر اپنے پڑوسی ملک ایتھوپیا کا حصہ بنا۔ 2006ء میں یونیسکو نے اس شہر کو انسانی ورثے میں شامل کرکے اس کے تحفظ اور دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھالی۔
تیرہویں اور سولہویں صدی کے درمیان اس شہر کے اردگرد ایک مضبوط اور بلند و بالا فصیل تعمیر کی گئی۔ تب بھی اس فصیل میں جا بجا سوراخ کیے گئے تھے تاکہ رات کے وقت شہر میں Hyenaداخل ہو کر اپنی خوراک حاصل کر سکیں۔ یہ شہر خوبصورت اور قدیم مساجد سے بھرا پڑا ہے جو زیادہ تر دسویں صدی عیسوی میں تعمیر کی گئیں۔ Harar دنیا بھر میں سیاحت کیلئے قابلِ دید شہروں میں سرفہرست ہے۔ یہ نہ صرف بڑے بڑے رہنماؤں‘ بزرگوں اور صوفیا کے مزاروں کی وجہ سے بلکہ ایک زندہ عجائب گھر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے سیاح اس شہر میں منعقد ہونے والی تقریبات کو دیکھنے اور ان میں حصہ لینے کیلئے آتے ہیں۔ اس شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس شہر کے لوگوں نے مدینہ کے لوگوں سے (آنحضرتؐ کے وہاں ہجرت کر جانے سے آٹھ سال پہلے) اسلام قبول کیا تھا۔ ماہر بشریات کے مطابق اس شہر کی بنیاد 700سال قبل رکھی گئی تھی۔ سولہویں صدی میں یہ شہر Hararسلطنت کا تعلیمی مرکز بن گیا۔
اب آیئے ہم دوسرے شہر کی طرف چلتے ہیں جس کی صورتحال نہ صرف مختلف بلکہ متضاد ہے۔ پہلا شہرجتنا غیرمعروف اور باقی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے‘ دوسرا شہر اتنا ہی مشہور‘ جانا پہچانا‘ چکا چوند روشنی سے منور اور بین الاقوامی سیاحوں کی آنکھ کا تارا ہے۔ اس شہر کا نام ہے پیرس‘ فرانس کا دارالحکومت۔ برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں کا بھلا ہو کہ انہوں نے رودبار انگلستان کے نیچے ایک اتنی بڑی سرنگ کھودی ہے کہ اس میں سے ریلوے کا ڈبل ٹریک بچھا دینے کی بدولت کالم نگار کی طرح ہزاروں افراد ڈھائی گھنٹے میں بذریعہ ٹرین لندن سے پیرس پہنچ جاتے ہیں۔ ان دنوں پیرس میں کھیلوں کا عالمی مقابلہ اولمپکسہو رہا ہے۔ 1899ء میں اسی شہر میں یورپی حکومتوں کے نمائندوں نے مل کر یہ تاریخی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اولمپک کھیلیں‘ جو قبل از مسیح دور میں پہلے پہل یونانی ریاستوں میں منعقد کی گئی تھیں‘ پھر سے منعقد کی جائیں تاکہ ان ریاستوں میں رہنے والے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے‘ جذبۂ خیر سگالی کو بڑھانے اور پڑوسی ریاستوں کے درمیان بلند و بالا دیواروں کو گرانے کے عمل کو برؤے کار لایا جا سکے۔ پیرس کو تیسری بار اولمپک کھیلوں کے ایونٹ کا میزبان بننے کا اعزاز ملا ہے۔ 1900ء میں پیرس میں تہذیب و ثقافت‘ صنعت و حرفت اور تجارت سے لے کر فنونِ لطیفہ تک بام عروج پر تھا۔ 1900ء میں پیرس میں ہونے والے اولمپک کھیلوں کے مقابلے ساڑھے پانچ ماہ تک جاری رہے۔ قریبا ً59ہزار کھلاڑی ان مقابلوں میں شریک ہوئے۔ حفاظتی تدابیر اتنے بڑے پیمانہ پر اختیار کی گئیں کہ آگ بجھانے کیلئے سات ہزار نئے کارکن اور ابتدائی طبی امداد پہچانے کیلئے تین ہزار نرسیں بھرتی کئی گئیں۔ جب یہ کھیل ختم ہوئے تو فرانسیسی حکومت نے اپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹنے کیلئے 795 صفحات کی ایک ضخیم رپورٹ شائع کی اور ساری دنیا سے داد سمیٹی۔
میرے بچپن کی بات ہے کہ میں نے پرائمری سکول میں اپنے ہم جماعتوں سے (ممکن ہے اساتذہ نے اس کی تصدیق کی ہو) جب یہ سنا تو دنگ رہ گیا کہ پیرس کی سڑکیں شیشے سے بنی ہوئی ہیں۔ 1970ء میں جب پہلی بار پیرس جانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی کہ سڑکوں کی صفائی یقینا قابلِ تعریف تھی مگر وہ شیشے سے نہیں بنی ہوئی تھی۔ پیرس دن میں درختوں کی بہتات اور رات کو چاروں طرف جگمگاتی ہوئی رنگا رنگ روشنیوں کی وجہ سے بہت دلفریب نظر آتا ہے۔ طرح طرح کے عجائب گھر ہر سیاح کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ مجھے پیرس کے سب سے بڑے گرجا گھر Cathédrale Notre-Dame میں کی جانیوالی عبادت میں حصہ لینے اور حمدیہ گیتوں کو سننے کا موقع ملا۔ میں پیرس کے وسط میں بہتے ہوئے دریا کے بائیں جانب تین چیزیں دیکھنے گیا۔ سوریون یونیورسٹی۔ وہ کافی شاپ جہاں اس وقت دنیا کے سب سے بڑے عوام دو ست فلاسفر اور سیاسی Activist ژاں پال سارتر کبھی کبھار کافی پینے آتے تھے مگر کافی شاپ کی انتظامیہ کسی شخص کو ان کی مخصوص کرسی پر بیٹھنے نہ دیتی تھی۔ نئی اور پرانی کتابوں کی میلوں لمبی دکانیں جہاں خریداروں کا جم غفیر تھا۔فرانس میں لوگ ایک کپ کافی پینے کیلئے کم از کم ایک گھنٹہ صرف کرتے ہیں تاکہ وہ دوسرے کافی نوشوں سے ادبی یا فلسفیانہ موضوعات پر بحث کر سکیں۔کافی پینے کے دوران جب میں نے کافی ہاؤس میں اپنی میز پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو بتایا کہ میں موپساں‘ فلابیئر‘ والٹیئر اور رُوسو کی تحریروں کو پڑھ چکا ہوں تو وہ اتنے خوش اور حیران ہوئے کہ مجھے بار بار کافی پلائی۔ ایک مقولہ کے مطابق ہر شخص کے دو وطن ہوتے ہیں۔ ایک اس کا آبائی وطن اور دوسرا فرانس۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved