کل پرسوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے اہم اجلاس تھے۔ میں ان کمیٹیوں کے اجلاس میں ضرور جاتا ہوں۔ بہت کچھ جاننے اور سننے کو مل جاتا ہے۔وہیں ایک دوست پوچھنے لگا: عمران خان اچھے وزیراعظم کیوں ثابت نہ ہوسکے ؟میں نے جواب دیا: سچی بات سننے کا حوصلہ ہے تو بتا دیتا ہوں۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اپوزیشن کے دنوں میں کبھی قومی اسمبلی کی اہم کمیٹیوں کے ممبر نہ بنے۔ پارلیمنٹ کو سیریس نہ لیا۔ میں خود حیران ہوتا تھا کہ کوئی بندہ کیسے ملک کا اچھا وزیراعظم یا وزیر بن سکتا ہے اگر وہ قومی اسمبلی کے دو اہم فورمز کا ممبر نہیں یا وہاں جاتا نہیں ہے۔ مجھے پارلیمانی رپورٹنگ کرتے 22برس ہوگئے ہیں اور میں نے اہم سیاسی لیڈروں کو نہ تو وقفۂ سوالات میں دیکھا اور نہ ہی وہ کمیٹیوں کے ممبر بنے۔ اگرچہ محمود خان اچکزائی ‘ لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ اکثر ہاؤس میں وقفۂ سوالات میں موجود ہوتے تھے۔ فرید پراچہ تو سوالات بھی بہت اچھے کرتے تھے جن کی وجہ سے ہم صحافیوں کو ان کے تحریری جوابات سے بڑی اچھی خبریں مل جاتی تھیں۔ پھر وہ سپلیمنٹری سوالات بھی بہت اچھے پوچھتے تھے۔ لیکن ممبرز کی اکثریت وقفۂ سوالات میں نہیں جاتی تھی۔ اب بھی نہیں جاتی۔ ان کے خیال میں یہ وقت کا ضیاح ہے۔ کون بیٹھ کر سنے کہ حکومت میں کہاں نالائقیاں ہیں‘ کہاں سکینڈلز ہیں‘کہاں گھپلے ہورہے ہیں۔ ہاں اگر ان کا کوئی ذاتی ایشو یا مسئلہ ہو تو پھر یہ پارلیمنٹ کے گیٹ کھلنے سے پہلے ہی وہاں موجود ہوں گے۔ بلکہ کچھ ایم این ایز تو ایسے بھی تھے جو اس دن کچھ صحافی دوستوں کو بھی کہتے تھے کہ یار ذرا آجانا میں نے فلاں ایشو پر بات کرنی ہے‘ اس کی کوریج کر دینا۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی شاید پہلے اور آخری وزیراعظم تھے جو وقفۂ سوالات میں موجود ہوتے تھے۔ اکثر اپنے وزیروں کو وقفۂ سوالات میں بے بس دیکھتے تو خود کھڑے ہو کر ان سوالات کا جواب دیتے تھے۔ جب وہ سپیکر قومی اسمبلی بنے تھے تو ہر اجلاس کا پہلا ایجنڈا ہی وقفۂ سوالات ہوتا تھا۔وزیراعظم بن کر بھی انہوں نے اس روایت کو جاری رکھا۔ وہ روز اجلاس میں شریک ہوتے تھے اور ان کا اپنے ایم این ایز کے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ عمران خان کے دور میں وہ وزیرخزانہ حفیظ شیخ کو سینیٹ کا الیکشن ہرا دیں گے حالانکہ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے پاس عددی اکثریت کم تھی لیکن کچھ دیگر اراکین نے ووٹ ڈالے کیونکہ گیلانی صاحب نے وزیراعظم کے طور پر ان سے اچھا تعلق رکھا تھا۔
عمران خان کا رویہ ہمیشہ مختلف رہا۔ وہ کسی بھی کمیٹی کے ممبر نہیں بنے۔ مجھے یاد ہے میں اس وقت بھی لکھتا اور بولتا رہا کہ اگر عمران خان نے مستقبل میں وزیراعظم بننا ہے تو جہاں سیاسی تقاریراور جلسے جلوس اہم ہیں وہیں ان کی گورننس بارے جانکاری بھی ضروری ہے۔ انہیں اگر گورننس اور ایشوز کو سمجھنا اور ملک کو چلانا ہے تو پھر انہیں وقفۂ سوالات میں مسلسل بیٹھنا ہوگا۔ سب کچھ سننا اور سمجھنا ہوگا۔ انہیں چند اہم کمیٹیوں کا ممبر بھی بننا ہوگا جہاں حکومتوں کا کچا چٹھا کھول دیا جاتا ہے۔ جہاں بیوروکریٹس اپنی اپنی وزارتوں بارے رپورٹس پیش کرتے ہیں‘ سوال و جواب کا سامنا کرتے ہیں اور حکومت کا پتہ چلتا ہے۔ میں نے جو اس وقت تجویز پیش کی تھی اس میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی‘ داخلہ‘ فارن افیئرز‘ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ‘ فنانس اور انرجی کی کمیٹیاں شامل تھیں۔ میرے خیال میں جس نے اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کرنا ہے اسے ان اہم کمیٹیوں کا ممبر ہونا چاہیے‘ لیکن ہر اہم لیڈر نے ان کمیٹیوں میں بیٹھنا اپنی شان کے خلاف سمجھا۔ نواز شریف نے بھی یہی کیا ‘جب وہ بینظیر بھٹو دور میں اپوزیشن میں ایم این اے تھے؛چنانچہ وہ خود کو گورننس کے ایشوز پر گروم نہ کرسکے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کابینہ تک نہیں چلا سکتے ۔ پچھلے دورِ حکومت میں وہ وزیراعظم بنے تو چھ ماہ تک کابینہ اجلاس نہیں ہوتے تھے۔ اسحاق ڈار ہی وزیراعظم کا رول ادا کررہے تھے۔ سب فیصلے کابینہ کی بجائے ''فیملی اینڈ فرینڈز‘‘کا گروپ کرتا تھا۔ وجہ وہی تھی کہ میاں صاحب نے کبھی خود کو ان باتوں کا عادی نہیں بنایا تھا۔ وہ تو آٹھ آٹھ ماہ پارلیمنٹ نہیں گئے‘ لیکن جب حکومت سے نکلے تو ہر دفعہ ووٹ اور پارلیمنٹ یاد آ جاتی تھی لیکن کبھی اس پارلیمنٹ میں نہ گئے۔ گئے تو صرف وزیراعظم کا ووٹ لینے یا پھر دھرنے کے دنوں میں مسلسل بیٹھے رہے کہ کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ میرا خیال تھا کہ عمران خان ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ خود کو نواز شریف سے زیادہ سیریس امیدوار سمجھتے تھے ‘ لیکن وہ بھی یہ سمجھ بیٹھے کہ مستقبل کے وزیراعظم کو اسمبلی اجلاس میں بیٹھنے‘ وقفۂ سوالات میں موجودگی یا پھر اہم کمیٹیوں کا ممبر بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یوں عمران خان نے اپنی زندگی کے وہ اہم سال ضائع کر دیے جب وہ گورننس سیکھ کر اس ملک اور عوام کیلئے بہتر اور informed فیصلے کرسکتے تھے۔ وہ بیوروکریٹس اور بیوروکریسی کو بہتر انداز میں جان پاتے ۔اگر وہ ان کمیٹیو ں کے ممبر بن کر اجلاسوں میں شریک ہوتے رہتے تو یقین کریں وزیراعظم عمران خان ہمارے اینکر دوست کاشف عباسی کے ایک اہم لیکن مختصر سوال کا مختلف جواب دیتے جو انہوں نے وزیراعظم بن کر اینکرز سے پہلی ملاقات میں انہیں دیا تھا جس پر سب چونک گئے تھے۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں ہونے والی اس ملاقات میں عمران خان نے کاشف عباسی کو دیکھ کر کہا تھا ہاں کاشف پوچھو کیا پوچھنا ہے؟کاشف نے سیدھا میزائل داغا اور کہا: خان صاحب لگتا ہے آپ کی ابھی تیاری نہیں تھی۔ آپ وزیراعظم بننے کے لیے تیار نہیں تھے؟یہ ذہن میں رکھیں ابھی وزیر اعظم بنے دس بارہ روز ہوئے تھے۔ عمران خان نے فورا ًکہا :بالکل کاشف آپ درست کہہ رہے ہیں میری تیاری نہیں تھی۔ مجھے تو پتا نہیں تھا اس ملک میں اتنے مسائل ہیں۔ اب جا کر بریفنگز لے رہا ہوں تو اندازہ ہورہا ہے کہ مسائل کا انبار ہے۔میں وہیں موجود تھا‘ میں یہ جواب سن کر ہرگز حیران نہیں ہوا کہ ایک بندہ جو 22برس تک تقاریر کرتا رہا‘ جلسے جلوسوں میں نواز شریف کو کہتا رہا میاں صاحب جان دیو ساڈی واری آن دیو‘ وہ اب باری ملنے پر کہہ رہا تھا کہ اسے تو علم ہی نہ تھا کہ اس ملک کے مسائل کیا تھے اور انہوں نے اسے کیسے حل کرنا ہے۔ خان صاحب فرماتے تھے :ہم نے درجن بھر ماہرین کی کمیٹیاں بنا دی ہیں‘ ہر ایشو پر کمیٹی بنا دی‘ لیکن خان صاحب بھول گئے کہ ان کے ماہرین نے بھی گورننس کو اندر سے نہیں دیکھا تھا۔ وہ کبھی ممبر پارلیمنٹ نہ رہے نہ ہی ان اہم کمیٹیوں کا حصہ رہے جہاں آپ گورننس بارے جانتے اور سیکھتے ہیں۔ یوں جتنے لاعلم خان صاحب خود تھے اتنے ہی ان کے ماہرین بھی تھے۔ یوں خان صاحب کا دور ایک ناکام دور سمجھا گیا۔ وہ اصلی اور قابل بیوروکریٹس کو جانتے ہی نہیں تھے۔ بیوروکریٹس کی پہچان آپ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ہوتی ہے کہ کون سا بیوروکریٹ کتنے پانی میں ہے۔
آج کل جب خان صاحب کو جیل سے دھمکیاں لگاتے سنتا ہوں تو پھر وہی خیال آتا ہے کہ جیسے وہ 22برس تک گورننس نہ سیکھ سکے تھے ویسے وہ جیل میں بیٹھ کر سیاست بھی نہیں سیکھ پارہے۔ کچھ برس بعد شاید اس سے ملتا جلتا جواب دیں جو کاشف عباسی کو دیا تھا کہ یار مجھے واقعی سیاسی سمجھ بوجھ نہ تھی کہ کبھی کبھار شاؤٹ کرنے میں فائدہ تو کبھی کبھار کچھ دنوں کیلئے خاموش رہنے میں فائدہ ہوتا ہے۔ بعض لوگ سپیڈ بریکر پر سپیڈ کم کرنے کے بجائے ریس پر پائوں دبا دیتے ہیں۔ خان صاحب اس وقت وہی کام کررہے ہیں۔ جہاں انہیں سپیڈ کم کرنے کی ضرورت ہے وہ رفتار بڑھا رہے ہیں۔ ان کی اس خطرناک سپیڈ کا فائدہ ان کے مخالفوں کو ہورہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved