عمران خان کی گرفتاری کا ایک سال مکمل ہونے پر پی ٹی آئی پورے ملک میں احتجاج ریکارڈ کرائے گی۔ سب سے بڑا جلسہ خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس کیلئے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ پی ٹی آئی نے اس احتجاجی مہم کو ''خان کی پکار‘ عوام کی للکار‘‘ کا نام دیا ہے۔ پی ٹی آئی اسلام آباد میں جلسہ کرنا چاہتی تھی مگر اجازت نہ ملنے پر خیبرپختونخوا میں جلسے کا اعلان کیا گیا ہے کیونکہ وہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے جہاں اجازت اور افرادی قوت کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہو گا۔ پی ٹی آئی اس جلسے کو بہت اہمیت دے رہی ہے‘ دراصل یہ سیاسی قوت کا مظاہرہ ہو گا‘ پارٹی قیادت اپنے تئیں سمجھتی ہے کہ پانچ اگست کو صوابی میں عوام کا جم غفیر اُن کے مؤقف پر مہرِ تصدیق ثبت کر دے گا۔ مگر صوابی جلسہ سے پہلے ہی خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی قیادت کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ صوبائی وزیر شکیل خان کی پریس کانفرنس اس وقت توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ جیل سے عمران خان کا پیغام لے کر آئے ہیں جو صوبائی حکومت کی کارکردگی اور بدانتظامی و کرپشن سے متعلق ہے۔ صوبائی حکومت میں شامل بڑے نام قطعی نہیں چاہتے تھے کہ شکیل خان حقائق عوام کے سامنے پیش کریں یا ان ناموں کو آشکار کریں جو بدانتظامی یا کرپشن میں ملوث ہیں اس لیے پریس کانفرنس میں انہیں پڑھنے کیلئے ایک سکرپٹ دیا گیا۔رکاوٹ ڈالنے کے باوجود شکیل خان بہت کچھ کہہ گئے۔لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ عمران خان نے جیل سے شکیل خان کے ذریعے جن لوگوں کیلئے پیغام بھیجا ان میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا نام بھی شامل ہے‘ جسے چھپانے کیلئے مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف کو پریس کانفرنس میں شریک ہو کر ایک سکرپٹ کا سہارا لینا پڑا۔ دوسر ا واقعہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں بحث کے دوران پی ٹی آئی کے ملک لیاقت اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے رکن اقبال وزیرکے درمیان پیش آیا۔ پی ٹی آئی پی کے اقبال وزیر نے ردِعمل دیا تو تلخ کلامی شروع ہو گئی۔ اقبال وزیر نے بانی پی ٹی آئی کیلئے نامناسب الفاظ کہے جس پر پی ٹی آئی کے وزرا اور ایم پی ایز غصے میں آ گئے۔ ایسی صورتحال میں پی ٹی آئی کیلئے صوابی جلسے کو کامیاب کرنا واقعی کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔
گزشتہ 11برسوں سے خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر عوام محرومیوں کا شکار ہیں۔ کئی علاقے بنیادی ضروریات تک سے محروم ہیں لیکن حکومت نے خالصتاً عوامی مسائل کو بنیاد بنا کر کبھی احتجاج کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ جب عوامی مسائل پر احتجاج کی بجائے شخصیت پرستی کیلئے احتجاج ہو گا تو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہو گی کیونکہ احتجاج آواز ہے مظلوم کی‘ فریاد ہے محروم کی۔ جب یہ طوفان عوام کے درد کو آواز دیتا ہے تو اسے تاریخ کے صفحات میں سنہرا باب کہہ کر یاد کیا جاتا ہے‘ مگر جب یہ طوفان کسی کے ذاتی مفادات کی لہروں پر سوار ہو تو کیا اسے بھی وہی احترام ملے گا جو عوامی جدوجہد کو ملتا ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ احتجاج نے قوموں کو جگایا‘ ظالموں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا مگر یہ بھی سچ ہے کہ کبھی کبھی یہ آگ اپنے ہی گھر کو بھسم کردیتی ہے۔ جب ایک فرد اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے سڑکوں پر آئے تو یہ ایک دھمکی سے زیادہ کچھ نہیں۔ احتجاج کا اصل مقصد عوامی فلاح ہے‘ سماجی انصاف کا قیام ہے۔ جب یہ مقصد بدل جائے تو احتجاج اپنی روح کھو دیتا ہے۔ عوام اسے ایک کھیل سمجھنے لگتے ہیں۔ اس طرح کا احتجاج نہ صرف معاشرے میں انتشار پھیلاتا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔ ذاتی مفاد کے لیے کیے گئے بہت سے احتجاج ہم دیکھ چکے ہیں‘ ایسے احتجاجوں نے نہ تو کوئی نظام بدلا اور نہ ہی کسی کی زندگی میں روشنی پھیلائی بلکہ انہوں نے صرف ایک گروہ کو فائدہ پہنچایا اور معاشرے کو نقصان۔ اس لیے ضروری ہے کہ احتجاج کا راستہ ہمیشہ عوام کے لیے روشن رہے۔ ذاتی مفاد کے لیے اس کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ ایک حقیقی احتجاج ہی قوم کی ترقی کا راستہ روشن کر سکتا ہے۔اس کے برعکس خود غرض احتجاج صرف اندھیرے کا پردہ ہے۔
تاریخ کے اوارق پلٹیں تو اس پر ایسے کئی واقعات نظر آتے ہیں جہاں احتجاج کے پردے کے پیچھے عوام کے مفادات کی بجائے ذاتی خواہشات کارفرما رہیں۔ انتخابی میدان میں ہارنے والے امیدواروں نے اکثر احتجاج کے ذریعے اپنی شکست کی تلخی دور کرنے کی کوشش کی۔ اقتدار سے باہر رہنے والے سیاستدانوں نے ہمیشہ عوام کو اُکسایا اور انہیں سڑکوں پر لا کھڑا کیا جس کا نتیجہ صرف انتشار تھا۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں عوام صرف پیدل چلتے ہیں اور کھلاڑی اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت اقتدار سے باہر ہونے کی وجہ سے عوام کو بھڑکانے کے لیے احتجاج کا سہارا لیتی ہے جبکہ اس کا اصل مقصد دوبارہ اقتدار میں واپسی ہوتا ہے۔ عوام چونکہ سادہ لوح ہوتے ہیں اس لیے مختلف نعروں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں کیونکہ جب کوئی سیاسی جماعت یا گروہ اقتدار کے لیے میدان میں اترتا ہے تو وہ عوام کے جذبات کو اپنی چکی میں پیسنا شروع کر دیتا ہے۔ نعرے لگائے جاتے ہیں‘ وعدے کیے جاتے ہیں‘ اور عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ اس طرح عوام کو ایک جذباتی طوفان میں پھینک دیا جاتا ہے جس میں وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں۔ محرومی کا شکار عوام صرف اتنا دیکھ پاتے ہیں کہ ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے اور کوئی تو ہے جو ان کے لیے آواز بلند کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی احتجاج یا تحریک کا حصہ بن جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی احتجاج کو کامیاب بنانے کیلئے ایک بار پھر خیبرپختونخوا کے عوام کے کندھوں کا استعمال کرنا چاہتی ہے۔ صوابی جلسے میں کتنے لوگ شریک ہوتے ہیں‘ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم جو بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ صوبے میں گزشتہ 11 برسوں سے جس پارٹی کی حکومت ہے وہی جماعت صوبے کے عوام کی محرومیوں کی ذمہ دار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام اپنے حقوق کا تقاضا کرتے اور محرومیوں کے بارے حکومت سے استفسار کرتے مگر عوام کو خوشنما نعرے دے کر اپنے جلسوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کی جا تی ہے۔ صوابی سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا حلقہ ہے جہاں سے وہ کامیاب ہوئے۔ عوامی جلسے کیلئے خیبرپختونخوا کے بڑے شہروں کی نسبت صوابی کا انتخاب کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ صوابی اسلام آباد‘ راولپنڈی سے قریب تر ہے اور اس انتخاب سے پنجاب کے کئی شہروں کے کارکنان کو شرکت کرنے میں آسانی ہو گی۔ پی ٹی آئی نے پانچ اگست کے جلسے سے توقعات وابستہ کی ہیں اور ایک بار پھر شدت کے ساتھ مزاحتمی بیانیہ اپنایا ہوا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا صوابی جلسے میں پنجاب سے لوگ شریک ہوں گے اور کیا واقعی شرکا کی تعداد اس قدر ہو گی کہ پی ٹی آئی اپنی شرائط پر بات کر سکے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved