کوئی نیا کھیل تو نہیں‘ لیکن اس کے کھلاڑی‘ میدان‘ علاقائی اور عالمی ماحول‘ ابھرتی ہوئی ٹیمیں اور سرپرست بڑی طاقتوں کے درمیان طاقت کا توازن بالکل نئے معروضات ہیں۔ مشرق وسطیٰ سے لے کر جنوبی اور مشرقی ایشیا اور چین کے جنوبی سمندر تک پرانے اتحاد مزید مستحکم ‘اور نئے پیدا ہو رہے ہیں۔ غزہ میں گزشتہ دس ماہ سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کو سمجھنے کے لیے اس نئے کھیل کو سمجھنا ہو گا۔
کیمروں کے سامنے دنیا کے ہر گھر میں ٹیلی ویژن کی سکرنیوں پر سب دیکھ رہے ہیں‘ مگر کسی کو پروا نہیں۔ چالیس ہزار کے قریب فلسطینی‘ جن میں اکثریت بچوں اورعورتوں کی ہے‘ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ایک لاکھ کے قریب زخمی ہیں اور تقریباً بائیس لاکھ کی آبادی کے گھر‘ تجارتی مراکز‘ تعلیمی ادارے اور شفا خانے تباہ ہو چکے ہیں۔ سب بے گھر‘ کھلے آسمان تلے‘ فاقوں کا شکار‘ آہ و بکا کر رہے ہیں‘ مگر دنیا خاموش‘ لاتعلق اور اپنی مستی کی زندگی گزار رہی ہے۔ ابھی تک جنگ بندی کے کوئی آثار نہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں صہیونی جارحیت کا دائرہ مغربی کنارے تک پھیل چکا ہے۔ گزشتہ ہفتے حماس کے سربراہ‘ اسماعیل ہنیہ کا تہران میں قتل اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کا ایران کے اندر نیٹ ورک اور تقریباً سارے خطے میں اس کی موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے لیے یہ گھنائونا فعل کہیں اور بھی ممکن تھا لیکن اس موقع محل کا تعین اس لیے کیا گیا کہ اگر ایران کچھ نہ کرے تو اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے‘ اور اگر ایک حد تک بڑھ کر ردعمل دکھائے تو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے۔ ان واقعات سے اٹھنے والی یہ گرد بیٹھے گی تو سب کو معلوم ہوگا کہ مقصد ایران کو طیش دلانا اور بڑی جنگ کے لیے اکسانا تھا۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ ایران کی نئی حکومت تدبر سے کام لیتی ہے یا اس جال میں پھنس جاتی ہے جو ہمارے جیسے مسلم ممالک میں انتقام کے جذبات ابھار کر پیدا کیا جا رہا ہے‘ کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سب اکٹھے ہو جائیں اور صہیونی ریاست کو مزا چکھائیں۔
ہمارے ممالک میں نعرہ بازی بہت ہے مگر معاملہ فہمی سے تعلق نہیں۔ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ عرب ممالک اور فلسطین میں لاکھوں لوگ گزشتہ بیس سالوں میں مختلف جنگوں کا لقمہ بن چکے ہیں۔ یہ بھی ذرا سوچیں کہ جنگوں کی نذر کون سے عرب ممالک ہوئے ہیں؟ ابھی تک وہ نہیں ہوئے جو مغرب اور امریکہ کے حلیف ہیں۔ وہاں تو استحکام ہے‘ معاشرتی ہم آہنگی اور ترقی اور خوشحالی کی نئی منازل طے ہورہی ہیں۔ تباہ وہ ہوئے ہیں جو کسی زمانے میں سوویت یونین کے اتحادی تھے یا جنہیں مغربی اتحاد میں شامل ملکوں کے خلاف تصور کیا جاتا تھا۔ ایران میں انقلاب کو اب چوالیس سال ہوچکے اور آج بھی نظام تو اسی طرح قائم ہے مگر ملک تنہا نظر آتا ہے۔ اس کے اتحادی یمن‘ شام‘ عراق اور لبنان میں موجود ہیں‘ جو عرب ممالک اور ایران کے درمیان سرد جنگ کی بنیادی وجہ ہیں۔ ایران کے اتحادیوں میں حماس بھی شامل ہے جو غزہ میں جنگ سے پہلے تک اس فلسطینی علاقے میں سیاسی اور عسکری قوت تھی۔ اب بھی اس کی طرف سے مزاحمت جاری ہے مگر غزہ کے عوام کے جذبے اور قربانیوں کے باوجود یہ تنظیم اسرائیلی جارحیت کے خلاف دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ مغربی کنارے پر قائم فلسطینی اتھارٹی کے حکم کے تابع کبھی نہیں تھی۔ اسرائیل کی فلسطینیوں کو سیاسی اور جغرافیائی طور پر تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کامیابی سے چلتی رہی۔ عرب ممالک ایران کی خطے میں مداخلت‘ جوہری پروگرام اور سیاسی توسیع پسندی کے خلاف رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ حماس کی نظریاتی اور تزویراتی پالیسیوں اور اس کے رہنمائوں کے ایران کی طرف جھکائو کو بھی پسند نہیں کرتے۔
بڑا کھیل تو وسیع میدانوں میں کھیلا جارہا ہے اور اس کی کئی جہتیں ہیں جن کا احاطہ اس مضمون میں ممکن نہیں مگر کچھ کا ذکر کرنا برمحل ہوگا۔ اس جنگ سے قبل مشرق وسطیٰ میں ابراہم معاہدوں کے بعد اور خلیج کی ریاستوں اور مراکش کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد سعودی عرب کو بھی اس نئے بلاک کا حصہ تقریباً بنا دیا گیا تھا۔ سمجھوتا تو ہوچکا تھا مگر اس کا رسمی اعلان ابھی باقی ہے۔ اس منصوبے کے تحت سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرے گااور اس کے بدلے امریکہ اُسے اسرائیل کی طرح اپنی سلامتی کے علاقائی حصار میں شامل کرلے گا۔ کسی حد تک یہ منصوبہ فلسطینی ریاست کے قیام سے بھی مشروط ہے۔ اس وقت تو یہ پورا اتحاد چاہتا ہے کہ حماس کی سیاسی اور عسکری طاقت غزہ سے مکمل طور پر ختم ہوجائے۔ اگر آپ اس جنگ کو اتنی دیر سے جاری دیکھ رہے ہیں اور اس نسل کشی کو بھی تو سمجھ لیں کہ اسرائیل کو کام مکمل کرنے کا پورا موقع دیا جارہا ہے۔ جنگ بندی کی جو باتیں ابھی تک ہوئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس بھی اپنی سیاسی طاقت ختم کرنے پر آمادہ نظر آرہی تھی‘ مگر اس کا اصرار تھا کہ اس کا عسکری ونگ قائم رہے گا۔ مغربی اتحاد کے لیے یہ قابل قبول نہیں‘اور جب تک اس کا حل نہیں نکلتا‘ شاید جنگ بندی نہ ہوسکے۔ عرب ممالک میں موجود غیر ریاستی عناصر کا خاتمہ اور ایران کو اس مقصد کے لیے معاشی‘ سیاسی اور عسکری اعتبار سے مزید کمزور کرنا مغربی اتحاد کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔ بڑا مقصد تووہاں قائم نظام کا خاتمہ یا دوسرے لفظوں میں رجیم چینج ہے۔ اگر ایران کی طرف سے بہت بڑا حملہ ہوتا ہے تو اسرائیل اور امریکہ بھی اس کا جواب دیں گے۔ ایران کے پاس وہ صلاحیت نہیں کہ کسی بڑی جنگ کا متحمل ہو‘ یا اسے مناسب وقت کے لیے برقرار رکھ سکے۔
اس بڑے کھیل میں بھارت بھی شامل ہے۔ بھارت‘ خلیجی ریاستیں‘ سعودی عرب اور اردن یورپ تک ایک نئی راہداری کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ بظاہر یہ ایک تجارتی اور اقتصادی منصوبہ بندی ہے مگر در پردہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ کے مقابلے میں تزویراتی رد عمل ہے۔ بھارت کو مشرقی ایشیا اور اب مشرق وسطیٰ کی حکمت عملی میں اہم جگہ اس لیے دی جا رہی ہے کہ چین کے مقابلے میں اسے کھڑا کیا جا ئے۔ جن عرب ممالک کا ذکر کیا ہے ان کی طرف سے بھارت میں سرمایہ کاری کے حجم‘منصوبوں کا جائزہ لیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے یہ خطہ مکمل طور پر تبدیلی کی طرف جا رہا ہے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں‘کچھ زیادہ معلوم تو نہیں مگر سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ مغرب کے حلیف نہ سہی‘ان کے نزدیک کم از کم کچھ پرانے مقاصد کے حوالے سے ہم بالکل غیر متعلق نہ ہو جائیں اور نہ ہی علاقائی تناؤ اور کشمکش کو اتنا پھیلائیں کہ خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب میں اپنا مقام نہ ہونے کے برابر نہ رہ جائے۔ شاید انہیں توازن قائم رکھنے کے لیے کچھ ہماری ضرورت ہو مگر بنیادی فیصلے کو کچھ اور نوعیت کے ہیں۔ اگر چین اور امریکہ کے درمیان تناؤ اور اتحادیوں کی تلاش اس طرح رہتی ہے تو کیا ہم دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کی معاشی اورسفارتی استعداد کے حامل ہیں یا نہیں؟ ہماراالمیہ یہ ہے کہ انحصار اور کھینچا تانی بھی دونوں کی طرف سے ہے۔ اگر مغربی اتحاد ایران پر یلغار کرتا ہے تو ہم تماشاہی دیکھ سکتے ہیں۔ عوام کے جذبات کیاہوں گے‘ اس کا سب کو اندازہ ہے مگر طاقت کے اس کھیل میں عوام کا حال غزہ میں دیکھ لیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved