تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     05-08-2024

ابو جہاد… مرا دل لہو لہو ہے مگر

10 اکتوبر 1935ء کے دن و ہ رملہ میں ابراہیم الوزیر کے گھر پیدا ہوئے‘ جو رملہ شہر میں گراسری کا کاروبار کرتے تھے۔ تب فلسطین پر برٹش فرنگی کا قبضہ تھا۔ ماں باپ نے اُس کا نام خلیل ابراہیم الوزیر رکھا۔ مگر بہادر فلسطینی عوام نے اُسے 'ابو جہاد‘ کا لقب عطا کیا۔ بجا طور پر‘ کیونکہ ابو جہاد نے صرف 13 سال کی عمر میں 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران رملہ میں نعرۂ جہاد بلند کرکے اسرائیلیوں کو حیران کر دیا۔ جولائی 1948ء میں 70 ہزار فلسطینیوں کو اسرائیل نے رملہ اور لائیطہ سے جبری طور پر بے دخل کر دیا۔ جس کے بعد ان شہروں پر حملہ آور اسرائیلی فوج نے قبضہ جما لیا۔ یوں تقدیر‘ تاریخ اور تحریک آزادیٔ فلسطین ابو جہاد کو کھینچ کر غزہ کی پٹی میں لے آئے جہاں انہوں نے بروجی کے مہاجر کیمپ میں پناہ لے لی۔ یہیں ابو جہاد نے UNRWA کے ادارے سے ہائی سکول کا امتحان پاس کیا اور ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی اور صحرائے سینائی میں فدائین کو منظم کر کے اسرائیلی قابض افواج پر مقبوضہ علاقوں کو چھڑانے کے لیے حملے شروع کر دیے۔ ابو جہاد نے فلسطینی بچوں کی ''فدائین‘‘ فورس بھی قائم کر لی جس کے ذریعے بیت المقدس کی آزادی کے لیے طویل لڑائی کا آغاز ہوا۔ 1954ء میں ابو جہاد نے یاسر عرفات کے ساتھ مل کر ''فتح‘‘ پارٹی بنائی اور اس کے Co-founder کہلائے‘ جس کا ملٹری ونگ PLO ساری دنیا میں مشہور ہوا۔ PLO اور اُس کی عسکری کارروائیاں ساری دنیا میں مشہور ہوتی چلی گئیں۔ اس انقلابی پارٹی نے دنیا کے مختلف خطوں کے کمیونسٹ حکمرانوں اور تیسری دنیا میں بڑے لیڈروں سے قریبی روابط پیدا کر لیے۔ اسی تگ و دو کے نتیجے میں ''الفتح‘‘ اپنا پہلا بیورو الجزائر میں کھولنے میں کامیاب ہو گئی۔
سال1956ء میں مصر نے ابو جہاد کو تقریباً چھ مہینوں کے لیے گرفتار کر لیا۔ اس دوران ابو جہاد نے فوجی تربیت حاصل کر لی اور یونیورسٹی آف سکندریہ آرکیٹیکچرل ڈیمپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا۔ 1957ء میں اُنہوں نے دو سال کے لیے سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اس سارے عرصے کے دوران ابو جہاد نے اسرائیل کے خلاف پہلی انتفاضہ تحریک دنیا بھر کے فلسطینیوں میں آرگنائز کی۔ ابو جہاد نے 1970ء کے عشرے میں عرب دنیا کی تحریک‘ جو بلیک ستمبر کے نام سے پہچانی جاتی ہے‘ اور جنگِ اُردن میں PLO کو ہتھیار فراہم کئے اور جنگ میں حصہ بھی لیا۔ 16 اپریل 1988ء کو اسرائیلی کمانڈوز کے ایک ریڈ کے ذریعے ابو جہاد کو تیونس میں شہید کر دیا گیا‘ اُس وقت اُن کی عمر 52 سال تھی۔
فلسطین کی اس طویل تحریکِ آزادی کے سفر میں ابو جہاد کے ساتھ ہمارے مشہورِ زمانہ میجر ضیا الحق کا ذکر بھی آتا ہے۔ جو بعد میں مردِ مومن اور مردِ حق بن کر 11 سال آرمی چیف‘صدرِ پاکستان اور نجانے کیا کیا رہے۔ اُن کا ذکر اُردن جنگ میں 8 ہزار فلسطینیوں کے قتلِ عام میں آتا ہے۔ تب اُن کے ساتھ ایئر فورس کے دو آفیسرز بھی شامل تھے جنہیں ضیا مارشل لاء میں وزارتیں ملیں۔ دوسری جانب عوامی سطح پر ابو جہاد پاکستان کے آزادی پسند اور ترقی پسند طبقات میں ہمیشہ سے ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔
اگلے روزمیرے عزیز شبلی احمد فراز نے 36 سال پہلے لکھاگیا اپنے والد احمد فراز کا دل میں اُتر جانے والا نوحہ بھجوایا۔ جو اِس زمانے کے ابو جہاد اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ابو جہاد اوّل کی طرح ایسے موزوں آتا ہے جیسے یہ نوحہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر لکھا گیا۔ وہ بھی دل فگار احمد فراز اور ہم سب کی آپ بیتی ہے۔
ابو جہاد مرا دل لہو لہو ہے مگر
معاف کر کہ ترے دشمنوں کے ساتھ ہیں ہم
ترا جنوں ترا ایثار محترم لیکن
جو سچ کہوں تو ترے قاتلوں کے ساتھ ہیں ہم
ہمی تو ہیں وہ ستمگر کہ مصلحت جن کی
دراز دستیٔ قاتل کا دل بڑھاتی ہے
ہم اس قبیلۂ عشاق سے نہیں کہ جنہیں
ندیمِ دوست سے خوشبوئے دوست آتی ہے
جو ترے دل میں تپکتا تھا آبلے کی طرح
وہی تو دُکھ ہے جو چھالا مری زبان کا ہے
ہم اک سناں کے ہدف ایک تیر کے بسمل
اگر ہے فرق تو بس ہاتھ یا کمان کا ہے
تُو دشتِ بے وطنی میں لہو لہان ہوا
ہم اپنے گھر میں ہی سینہ فگار پھرتے ہیں
غلام گردشِ زنداں سے صحنِ مقتل تک
ابھی رسن بہ گلو میرے یار پھرتے ہیں
اس وقت انسانی دنیا کے آٹھ ارب لوگوں کے 16 ارب ہاتھوں کے انگوٹھے موجود ہیں۔ قدرتِ کاملہ نے ان انگوٹھوں میں کوئی ایسا ڈیزائن یا خفیہ کوڈ بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے ہر ایک کوڈ یا ڈیزائن 16 ارب انگوٹھو ں کے ڈیزائنوں میں سے کسی دوسرے سے نہیں ملتا۔ لیکن دنیا بھر میں بیرونی یا اندرونی استعمار کے خلاف لڑنے والے لوگوں کے ذہن اور جذبات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایک عالمی المیہ ہے۔ جہاں جہاں غلامی کے خلاف آزادی کی تمنا اور تڑپ ہے وہاں وہاں اسماعیل ہنیہ کا سوگ ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی ایک المیہ ہے وہ بھی عالمِ اسلام کا‘ کہ اس شہادت پہ ابھی تک مسلم ملکوں اور لیڈروں نے نمائشی اور روایتی بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ عالمِ اسلام کے تمام منیجرز Keyboard Warrior ثابت ہوئے۔ ماسوائے ایک ملک ایران کے‘ دوسرے قطر کے اور کسی حد تک ترکیہ کے۔ ایران اس وقت صحیح معنوں میں فلسطینیوں کی آزادی کی تحریک کا یکہ و تنہا مددگار اور واحد ترجمان ہے جسے اسلامی دنیا کے کسی دوسرے ملک کی بامعنی حمایت‘ سپورٹ یا ہمنوائی حاصل نہیں۔ اس کے باوجود ایران اپنے مؤقف پر کھڑا ہے۔ پوری بہادری اور پورے قد کے ساتھ ڈٹا ہوا۔ شہادتِ ہنیہ کے بعد تعزیت کے صفحے کالے کرنے والوں میں سازشی تھیوریاں پھیلانے والے یہ نہیں کہتے کہ اسرائیل پھنس گیا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ایران پھنس گیا ہے۔ ایران کی عملی امداد سے حوثی مجاہدوں کی حمایت سے اور حزب اللہ کی شراکت سے عرب دنیا کی سب بڑی بارود کی منڈی اور ایٹمی ملک کے خلاف ننگے پائوں اور خالی ہاتھ لڑنے والے غزہ کے عظیم باسیوں نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی خالی کرنے کے لیے 14دن دیے تھے۔ آج نو ماہ اور 28 دن ہو چلے‘ اگرچہ خون میں نہایا ہوا‘ زخموں سے لہو لہو ہے مگر غزہ کھڑا ہے‘ زندہ ہے اور غزہ ڈٹا ہوا ہے۔ ہم سب کا غزہ کے نام پیغام بھی احمد فراز نے ہی لکھا۔
ابو جہاد ہمارا جہاد ایک سا ہے؍ وہ سرزمین تری ہو کہ سرزمیں میری؍ رہِ وفا میں ترا خوں بہے کہ میرا لہو؍ دریدہ ہو ترا دامن کہ آستیں میری؍ چلیں گے ساتھ رفاقت کے پرچموں کے لیے؍ جہاں جہاں سے بھی ساتھی ہمیں پکاریں گے؍ اگر ہے دشنہ و خنجر زبان قاتل کی؍ تو ہم بھی حرفِ وفا کی ذِرہ سنواریں گے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved