تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     06-08-2024

انور رٹول آم نہیں‘ خاص چیز ہے

برادرِ بزرگ اعجاز احمد کو پھلوں کا شوق نہیں‘ خبط ہے۔ اور خبط بھی خریدنے کی حد تک ہی ہے کیونکہ کھانے کے خبط کی راہ میں شوگر نے اڑِ نگا ڈال رکھا ہے وگرنہ پھل کھانے کے معاملے میں ریکارڈ بناتے‘ مگر مجبوری نے مجبور کر رکھا ہے۔ پھل کھانا بے شک کم کر دیا ہے مگر خریداری کا ہڑک بیٹھنے نہیں دیتا۔ ادھر میرا یہ عالم ہے کہ چار چھ پھل اور وہ بھی کبھی کبھار کھا لیتا تھا لیکن پھر یوں ہوا کہ پھل کھانے چھوڑ دیے اور چھوڑے بھی ایسے کہ کئی سال تک اپنے کسی پسندیدہ پھل کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ اندازہ لگائیں کہ ملتان میں گرمیوں میں صرف آم ہی ہے جو ہم ملتانیوں کو اس گرمی کے عوضانے میں ملتا ہے وگرنہ تو گرمی مار کر ہی رکھ دیتی۔ انور رٹول میری کمزوری تھا اور یوں ہوا کہ انور رٹول بھی چھوڑ دیا۔ چار پانچ سال تو ایسے رہے کہ انور رٹول آم اور چیکو کو چکھ کر ہی نہ دیکھا۔
چھوٹی بیٹی آموں کی شوقین ہے اور شوقین بھی کوئی ایسی ویسی؟ ہمارے گھر میں آموں کا سیزن بازار میں دستیاب آموں کے سیزن سے کافی مختصر ہوتا ہے۔ ہمارا آم کا سیزن انور رٹول کی آمد پر شروع ہوتا ہے اور موسمی چونسہ (ثمر بہشت) کے ختم ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ بارہ نمبر رٹول اور سفید چونسہ وغیرہ آموں کی لیٹ ورائٹیز ہیں لیکن ہمیں ان سے قطعاً کوئی غرض نہیں۔ چونسہ ختم تو ہمارا آموں کا سیزن ختم۔ لیکن آموں کے اس نسبتاً مختصر سیزن میں گھر میں اتنے آم آتے ہیں کہ کھانے اور اللہ کا بے انتہا شکر ادا کرنے کے بعد عزیزوں اور رشتہ داروں میں بانٹتے رہتے ہیں۔
جب پھل کھانے چھوڑے تو آم اور دوسرے پھلوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا۔ آپ یقین کریں کہ اس دوران اپنے ہاتھوں سے آم کاٹے اور دوسروں کو کھلائے مگر کبھی اشتہا تک نہ ہوئی کہ دل ہی ان چیزوں سے اٹھ گیا تھا۔ پھر ایک روز انعم نے آم کاٹے اور سامنے رکھ کر کہنے لگی کہ آپ کھائیں گے تو میں کھاؤں گی ورنہ میں بھی آم نہیں کھاؤں گی۔ مجھے علم تھا کہ اسے آموں سے ایسی رغبت ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں اور یہ بھی کہ یہ واقعی آم کھانا چھوڑ دے گی۔ اس کی خوشی کیلئے آم کھا لیے۔ اب اس نے معمول ہی بنا لیا کہ روزانہ آم ٹھنڈے کرکے کاٹ کر میرے کمرے میں لے آتی اور میرے ساتھ بیٹھ کر کھاتی۔ قسم تو کھائی نہیں تھی‘ بس جس طرح چھوڑے تھے اسی طرح دوبارہ کھانے شروع کر دیے بلکہ اس دوران حیرت بھی ہوئی کہ مجھ جیسے آموں کے شوقین نے اتنے سال اس کے بغیر اس سہولت سے کیسے گزار لیے۔
مجھے یاد ہے کہ چوک شہیداں والے گھر میں گرمیوں میں روزانہ آم آتے تھے۔ جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں تب تک گھر میں ریفریجریٹر نہیں آیا تھا۔ ابا جی کالج سے واپسی پر شاہین مارکیٹ کے ساتھ پانی والی ٹینکی کے پیچھے نکڑ میں پھل کی دکان سے آم خریدتے۔ جلال کی دکان سے برف لائی جاتی۔ جلال کی دکان میں برف دہری تہہ والی جستی پیٹی میں رکھی ہوتی تھی۔ ایک بالٹی میں پانی ڈال کر اس میں آم اور پھر برف توڑ کر اس بالٹی میں ڈالی جاتی۔ کھانا کھانے تک آم ٹھنڈے ہو جاتے۔ یہ ساری گرمیاں‘ روزانہ کا معمول تھا۔
میں شاید چار سال کا ہوں گا‘ میری یادداشت تقریباً اسی عمر کے لگ بھگ تک کام کرتی ہے‘ اس سے پہلے کی ایک دو باتوں کے علاوہ اب کچھ یاد نہیں۔ میں آم کھانے کا شوقین بھی تھا اور کھانے کا سلیقہ بھی نہیں تھا۔ آم کھاتے ہوئے اس بری طرح کھاتا کہ آم کا سارا رس کہنیوں سے نیچے ٹپکتا۔دیسی آم کا تو اور بھی براحال کرتا کہ چوس کر کھانے کے لیے اسے نرم کرنے کی غرض سے کی جانے والی زور آزمائی کے دوران اکثر اوقات آم نیچے سے پھٹ جاتا اور سارے کپڑے خراب ہو جاتے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مجھے آم دینے سے پہلے مری قمیض اتار لی جاتی۔ جھولی میں کپڑا بچھا دیا جاتا اور پھر آم پکڑایا جاتا۔ تب قسم قسم کے آم آتے تھے‘ لنگڑا‘ مالدہ‘ طوطا پری‘ فجری، چونسہ اور کئی اقسام کے دیسی آم‘ جن کی گٹھلیاں سوف سے بھری ہوتیں۔ ''صوبے کی ٹنگ‘‘ دیسی آموں کی ایک قسم تھی۔ سائز میں چھوٹے چھوٹے لیکن لذیذ ایسے کہ مزا آ جاتا۔ پھر قلمی آموں نے اپنی زیادہ پیداوار اور ذائقے کی بنیاد پر دیسی آموں کو ناک آؤٹ کرکے مارکیٹ سے نکال باہر کیا۔
امریکہ میں گرمیوں کے موسم میں برادرِ بزرگ اعجاز احمد ہر دوسرے تیسرے دن فارمرز مارکیٹ سے مختلف اقسام کے مختلف ممالک سے آنے والے نئی نئی شکلوں کے آم لے آتے اور مجھے زور دیتے کہ کھا کر دیکھوں۔ میں انہیں ہر نئے آم کی آمد پر کہتا کہ آپ چکھ کر بالکل ایمانداری سے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر بتائیں کہ یہ آم چونسے یا رٹول جیسا ہے؟ جواب میں ہر بار کہتے کہ ویسا تو بہرحال نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا لیکن اچھا ہے ایک آم تو کھا کر دیکھو۔ لیکن میں انہیں کہتا کہ چیتے بھوکے بھی ہوں تو گھاس بہرحال نہیں کھاتے۔ گزشتہ کئی برسوں میں صرف دوبار امریکہ میں آم کھایا اور وہ بھی اس طرح کہ کومل کو کسی جگہ سے پاکستانی انور رٹول مل گئے اور آموں کی دیوانی یہ آم خرید لائی۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں آم کے نام سے فروخت ہونے والا پھل اگر آم ہی ہے تو پھر انور رٹول کوئی اور شے ہے۔
ابھی میرے پاکستان واپس آنے میں پندرہ دن تھے کہ اچانک خیال آیا کہ جب ملتان پہنچوں گا انور رٹول تو ختم ہی ہو گیا ہو گا۔ فون اٹھا کر شاہ جی سے پوچھا کہ رٹول ہے یا ختم ہو گیا ہے۔ شاہ جی کہنے لگے کہ ابھی پندرہ دن اور مل جائے گا۔ میں نے کہا: شاہ جی پکی بات ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: آموں کے بارے میں پہلے کبھی کوئی کچی بات کی ہے جو تم اب یقین نہیں کر رہے۔ میں نے فالتو پیسے بھر کے تاریخ تبدیل کرائی اور ڈیٹرائٹ ایئرپورٹ سے شاہ جی کو فون پر بتایا کہ میں کل رات ملتان پہنچ جاؤں گا۔ آپ پرسوں صبح آم عطا فرمائیں جو تیار ہوں اور فوری طور پر کھائے جا سکیں۔ ایک ہفتے بعد جب انور رٹول ختم ہو گیا تو اندازا ہوا کہ واپسی کا فیصلہ کتنا بروقت اور مناسب تھا۔ لطف ایسا آیا کہ ٹکٹ تبدیل کرانے کیلئے ادا کی گئی رقم کا افسوس جاتا رہا۔
آم کھاتے ہوئے میں نے انعم کو بتایا کہ میں پندرہ دن بعد واپس امریکہ جا رہا ہوں تو اس نے حیرانی سے سوال کیا کہ پھر آپ واپس آئے ہی کیوں تھے؟ میں نے بے ساختگی سے جواب دیا کہ تمہیں تو علم ہی ہے کہ میں پاکستان اور خاص طور پر ملتان کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ وہ یہ بات سن کر اس بری طرح ہنسی کہ اس کے ہاتھ سے آم کی گٹھلی پھسل کر فرش پر گر گئی۔ کہنے لگی: ابھی آپ ملتان کے بغیر نہیں رہ سکتے تو یہ حال ہے۔ اس نے یہ بات اس انداز میں کہی کہ میں بھی ہنس پڑا۔ پھر کہنے لگی: آپ دراصل آموں کیلئے آئے ہیں۔ میں نے کہا: بھلا ملتان اور آم کون سی دوا لگ چیزیں ہیں؟ ملتان آموں کی طرح میٹھا ہے اور آم ملتان کی مانند رسیلے ہیں۔
موسموں کے مزاج ( Patron)بدل رہے ہیں اور آموں کے باغ کٹ کر ہاؤسنگ کالونیوں میں بدل رہے ہیں۔ خدا جانے آنے والے دنوں میں ملتان اور آموں کا یہ رشتہ کیا صورت اختیار کرتا ہے‘ لیکن جس طرح اس عاجز کو یہ تسلی ہے کہ اس کی زندگی تک کاغذ والی کتاب ضرور زندہ رہے گی‘ اسی طرح اس فقیر کو یہ بھی یقین ہے کہ اس کی پاک مائی کے قبرستان روانگی تک تو آموں کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ پھر اس رحیم کے کرم کے صدقے آموں کے باغ میں ٹھنڈے چشمے کے کنارے بیٹھ کر انور رٹول کھانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ انور رٹول جیسی خاص چیز جنت میں نہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved