مجاہدینِ غزہ کے سر کا تاج‘ اُمت مسلمہ کے دلوں کا حکمران‘ بے مثال جرأت و عزیمت کا پیکر اسماعیل ہنیہ ایران کے نومنتخب صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران تشریف لے گئے۔ تقریب کے بعد رات کو وہ ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس میں اپنے کمرے میں مقیم تھے۔ تہجد کے لیے اٹھنا ان کا ہمیشہ سے معمول تھا۔ 31 اگست کو اس وقت سے قبل ہی ظالم اسرائیلی درندوں نے ان کے مقام کو‘ جس کا تعین پہلے سے کیا جا چکا تھا‘ نشانہ بنایا۔ اس حملے میں گائیڈڈ میزائل کے ذریعے انہیں نشانہ بنایا گیا اور وہ شہادت کی وادی میں اتر گئے۔ اسماعیل ہنیہ ایک فرد نہیں‘ ایک انجمن تھے۔ وہ دشمن کے لیے خطرہ تھے اور دشمن نے کئی مرتبہ انہیں نشانہ بنایا‘ مگر جب تک ان کی مہلتِ عمل باقی تھی‘ دشمن کا کوئی حربہ کارگر نہ ہوا۔ اللہ کا فیصلہ پہلے سے طے شدہ ہے‘ ہر شخص کی موت کا وقت اور مقام متعین ہے۔ اس کا علم سوائے خالقِ کائنات کے کسی کو نہیں ہو سکتا۔ شہید کی اس دنیا سے رخصتی کا لمحہ آیا تو وہ اپنی منزل سے ہمکنار ہو گئے۔
اہلِ غزہ کا قرآن پاک سے تعلق بہت گہرا ہے۔ غزہ سے آنے والا جو مہمان بھی‘ پاکستان یا بیرونِ ملک‘ جب بھی ملا تو معلوم ہوا کہ وہ حافظِ قرآن ہے۔ ان میں سے ہر ایک مادری زبان عربی ہونے کی وجہ سے قرآن کو اچھی طرح سمجھتا بھی ہے۔ جو شہدا اللہ کے ہاں چلے گئے اور جو غازی میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں وہ سب اس آیت کا مصداق ہیں۔ ''مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا‘‘ (سورۃ الاحزاب: 23)۔ ''ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔
ہر متنفس اپنے اپنے وقت پر اس دنیا سے کوچ کر جائے گا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ کی دی ہوئی مہلت کے دوران زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ شہید نے زندگی بھر موت سے مقابلہ کیا۔ اپنے عزیز دوستوں اور اہلِ خاندان کی قربانیاں راہِ جہاد میں اپنی آنکھوں سے دیکھیں‘ مگر کبھی نہ خوف زدہ ہوئے‘ نہ ڈگمگائے۔ زندگی کے آخری لمحات میں بھی ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات میں بہت عظیم جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں ہر وقت اپنے آپ کو موت سے ہمکنار ہونے کے لیے تیار رکھتا ہوں۔ یہ باتیں اپنی شہادت سے چند گھنٹے پہلے ان کی زبان سے ادا ہوئی تھیں۔
شہید اسماعیل ہنیہ حافظِ قرآن تھے‘ انہوں نے عربی ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی اور 2009 ء میں اسلامی یونیورسٹی غزہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی تھی۔ اسماعیل ہنیہ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ فلسطینی نوجوان اور مجاہدین ہنیہ شہید کی کئی غزلیں جہاد کے میدانوں میں دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے گنگنا رہے ہوتے ہیں۔ اکثر فلسطینی خواتین و مرد اور بچے حفاظِ قرآن ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ وقت تلاوتِ قرآن میں گزرتا ہے۔ اسی طرح رزمیہ شاعری‘ جو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کو مہمیز دیتی ہے‘ وہ بھی ان کی زبانوں پر سنائی دیتی ہے۔
اپنی ایک غزل میں اسماعیل ہنیہ فرماتے ہیں کہ میں زندگی کے ہر لمحے اور سفر کے ہر موڑ پر موت کو اپنے سامنے رقص کرتے دیکھتا ہوں۔ میری آنکھوں سے موت کبھی اوجھل نہیں ہوئی‘ یہ تو ایک حقیقت ہے‘ اس سے کیا ڈرنا! ہم میں سے کوئی بھی قائد چلا جائے تو اس کی جگہ دوسرا قائد میدان میں آ جاتا ہے۔ یہ سفر لمبا ہے اور اس کے راہی تھکنے والے نہیں۔ شہیدِ اسلام اسماعیل ہنیہ کی کئی رزمیہ غزلیں اور نظمیں حماس کے نوجوانوں اور القسام بریگیڈ کے مجاہدین کے لیے جنگی ترانوں کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں جو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے قلب و جگر کو سرشار کر دیتی ہیں۔
میدانِ جہاد میں اسماعیل ہنیہ شہید کے خاندان کے 80 سے زائد افراد شہادت کا تاج پہن کر اللہ کی جنتوں میں پہنچ چکے ہیں۔ ان کے تین بیٹے‘ تین پوتیاں‘ ایک پوتا اور گھر کے دیگر افراد‘ بھائی‘ بھتیجے‘ بہنیں اور بھانجے جب بھی شہید ہوئے تو اسماعیل ہنیہ نے پوری استقامت کے ساتھ فرمایا کہ میرے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں‘ فلسطین میں شہید ہونے والا ہر فرد میرا بھائی‘ بیٹا‘ پوتا‘ بھتیجا اور بھانجا ہے۔ شہادت پانے والی ہر خاتون میرے لیے ماں‘ بہن‘ بیٹی اور پوتی کا درجہ رکھتی ہے۔ جس شخص کا حوصلہ اتنا بلندہو وہ موت سے کب ڈرتا ہے۔
خاندانِ ہنیہ نے طوفان الاقصیٰ (اکتوبر 2023ء) کے جہاد سے لے کر اب تک اس راستے میں جو شہادتیں پیش کی ہیں‘ ان میں شہید کی 80 سالہ ہمشیرہ سے لے کر چھ ماہ کے پوتے تک ہر عمر کے شہدا کا گلدستہ نظر آتا ہے۔ جنت میں انبیاء و صدیقین اور شہدا و صالحین کی محفل میں یہ سب کس قدر شاداں و فرحاں ہوں گے‘ یہاں کون اس کا تصور کر سکتا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے اپنے بندوں کے لیے جنت کو یوں سجایا ہوا ہے کہ اس کا تصور بھی کسی کے دل میں نہیں آ سکتا۔ نہ کسی آنکھ نے اس جیسا منظر دیکھا‘ نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں وہ اجاگر ہوا۔ اس گلدستے پر نظر ڈالیں تو یہ منظر دکھائی دیتا ہے۔
اسماعیل ہینہ پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے۔ ان کے دورِ جوانی میں جنوری 2003ء میں یروشلم میں اسرائیلی ایئر فورس نے ان پر بم پھینکا جس سے ان کا ہاتھ زخمی ہوا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی جان بچا لی کیونکہ زندگی باقی تھی اور ان کے ذمے بہت سے کام بھی تھے۔ ان کے خاندان کے 80 کے لگ بھگ افراد اسرائیلی حملوں میں شہادت پا چکے ہیں۔ ان کی تفصیل‘ جن میں خواتین‘ بچے‘ بوڑھے اور جوان سبھی شامل ہیں‘ درج ذیل ہیں:
(1) اکتوبر 2023ء میں اسرائیل کے ہوائی حملے میں غزہ شہر کے اندر ان کے آبائی گھر کو نشانہ بنایا گیا اور میزائل کے ذریعے حملہ کرکے گھر کو تباہ اور اس کے اندر موجود 14افرادکو شہید کر دیا گیا۔ ان میں اسماعیل ہنیہ کے بھائی‘ بھتیجے اور دیگر افرادِ خاندان شامل تھے۔
(2) نومبر 2023ء میں ان کی ایک پوتی کو‘ جو میڈیکل کی طالبہ تھی‘ غزہ شہر میں ہوائی حملے میں شہید کر دیا گیا۔
(3) نومبر 2023ء ہی میں ان کے سب سے بڑے پوتے بھی ہوائی حملے میں اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں شہادت پا گئے۔
(4)اپریل 2024ء کے آغاز میں‘ عین عید الفطر کے روز‘ غزہ کی پٹی پر اپنی گاڑی پر سفر کرتے ہوئے اسرائیلی ہوائی حملے میں آپ کے تین جواں سال بیٹے‘ چار معصوم پوتے اور پوتیاں شہید ہو گئے۔
(5) 25 جون 2024ء کو الشاطی پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی بمباری ہوئی جس میں ان کی 80 سالہ بوڑھی ہمشیرہ سمیت خاندان کے 10 افراد شہید کر دیے گئے۔
اپنے خاندان کی ہر شہادت پر اسماعیل ہنیہ نے جس صبرواستقامت کامظاہرہ کیا وہ اللہ کا انتہائی محبوب اور عظیم کردار کا مالک بندہ ہی کر سکتا ہے۔ اسرائیل کے مظالم اور تباہ کاریوں کی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال مل سکے۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved