بنگلہ دیش نے ہمیں ایک جھلک دکھائی ہے کہ جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے اور یہ جھلک دیکھ کر ہمارے دلوں کی دھڑکن تیز ہو گئی ہے۔ لیکن وہاں کے حالات اور یہاں کی صورتحال میں فرق ہے۔ جو یہاں تبدیلی کی بات کرتے ہیں اُن کا امتحان تو دو سال سے کچھ زائد عرصے پر محیط ہے اور بنگلہ دیشی عوام کا امتحان تو پندرہ سال سے جاری تھا۔ شیخ حسینہ واجد پہلے بھی وزیراعظم رہیں لیکن اُن کا موجودہ دورِ اقتدار 2009ء سے شروع ہوا تھا اور تب سے لے کر آج تک لوہے کے مکے کی مانند اُنہوں نے جبر واستبداد کے بل بوتے پر حکومت کی۔ یعنی وہاں جو لاوا اب پھٹا ہے وہ پندرہ سال سے پک رہا تھا اور اب جا کر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ بنگلہ دیشی عوام بغاوت پر اتر آئے۔ عوامی لیگ کی مدمقابل جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی ہے جس کی سربراہ بیگم خالدہ ضیا ہیں۔ شیخ حسینہ واجد نے حالات ہی کچھ ایسے پیدا کر دیے تھے کہ خالدہ ضیا کی جماعت نے اس سال کے الیکشن ‘ جو جنوری میں ہوئے تھے‘ کا بائیکاٹ کر دیا لیکن شیخ حسینہ واجد نے پروا نہ کی اور یکطرفہ انتخابات کے سر پر ایک بار پھر مسندِ اقتدار پر قابض ہو گئیں۔ یہاں سے حالات خراب ہوئے اور جولائی اور اگست کے پہلے ہفتے اپنے انتہا کو پہنچے۔ پاکستان بھی کئی تجربات سے گزرا ہے لیکن بنگلہ دیش والی مشق یہاں پوری نہیں ہوئی۔
یہ بھی ذہنوں سے فراموش نہ کیا جائے کہ بنگال کے لوگ ہم سے ہمیشہ ہی کافی مختلف تھے۔ جوشیلے اور ہر دم بھڑکنے کیلئے تیار۔ جب اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تو مشرقی پاکستان میں پُرزور احتجاج ہوا جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوا۔ بنگالی قوم پرستی‘ جو بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی‘ کی شروعات اُس احتجاج سے ہوئی جو بنگالی زبان کے حق میں شروع ہوا تھا۔ 1954ء کے صوبائی انتخابات میں بنگالی قوم پرست عناصر جگتو فرنٹ کے عَلم تلے اکٹھے ہوئے تھے اور جگتو فرنٹ نے تب کی حکمران جماعت مسلم لیگ کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ہمیشہ کی طرح اُن انتخابات کے نتائج مانے نہ گئے اور بنگالی عوام کی آواز کو دبا دیا گیا۔
1970-71ء کے واقعات ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ 1970ء کے انتخابات کے نتائج نہ مانے گئے تو بنگالی عوام نے وہی کیا جو آج حسینہ واجد کے ساتھ ہوا ہے۔پھر جوواقعات ہوئے ان میں ہندوستان نے موقع جانتے ہوئے بنگالی قوم کی مدد ضرور کی لیکن بنیادی طور پر یہ شورش وہاں کے لوگوں کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ حقائق ہمیں اچھے نہیں لگتے اور آج بھی بہت سے لوگ ہیں جو اس دور کے حالات کی من پسند توضیح کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بنگالی قوم نے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ بنگابندھو تو شیخ مجیب الرحمن تھے اور اُنہی کی پکار پر بنگالی قوم نے بغاوت کا عَلم ہاتھ میں تھاما لیکن 25 مارچ کو جب کریک ڈاؤن شروع ہوا تو میجر ضیا الرحمن‘ جن کی تعیناتی ایسٹ پاکستان رائفلز میں تھی‘ نے ریڈیو پر آزادی کا اعلان کیا تھا۔ یہ میجر ضیا الرحمن بیگم خالدہ ضیا کے خاوند تھے اور بعد میں اپنی ہی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
یہ بتاتا چلوں کہ جب ہم کاکول اکیڈمی میں ٹریننگ حاصل کر رہے تھے تو یہ میجرضیا الرحمن بہت سے پلٹون کمانڈروں میں سے ایک پلٹون کمانڈر تھے۔ ان کی فورڈ کارٹینا گاڑی ہوا کرتی تھی اور جب اپنی بیگم کے ساتھ پی ایم اے کاکول کی چڑھائی پر ڈرائیو کرتے آتے توہم کیڈٹوں کی نظریں گاڑی پر لگ جاتیں کیونکہ بیگم خالدہ ضیا کا اپنا ہی حسن وجمال تھا۔ بہت سال بعد جب ڈھاکہ جانے کا اتفاق ہوا تو دوپہر کے کھانے پر بیگم خالدہ ضیا کی میز پر بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ تب وہ وزیراعظم تھیں۔ میں نے پی ایم اے کاکول کا قصہ چھیڑا تومیری طرف سخت نظروں سے دیکھتی رہیں۔ پر جب میں نے کہا کہ آپ کی کارٹینا گزرتی تھی تو ہم سب آپ کو دیکھنے لگ جاتے تھے تو وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں۔
یہ ساری روداد بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ بنگالی قوم کی ایک تاریخ ہے۔ وہ خون کے دریاؤں میں سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ اب بھی شیخ حسینہ واجد ویسے ہی ڈھاکہ سے فرار نہیں ہوئیں‘ خون کا نذرانہ دیا گیا پھر ہی بھاگنے پر مجبور ہوئیں۔ تین چارسو لوگ تو پہلے ہی مارے جا چکے تھے لیکن 4 اگست‘ یعنی فرار ہونے سے ایک دن پہلے‘ لگ بھگ نوے جانوں کا ضیاع ہوا۔ اور 5 اگست جب شیخ حسینہ دوپہر کے وقت ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر مغربی بنگال کی طرف روانہ ہوئیں تو اُس صبح بھی لوگ مرے تھے۔ بنگلہ دیش کے حالات دیکھ کر ہمارے دلوں کی دھڑکنیں جو تیز ہو رہی ہیں‘ ہم سے کوئی پوچھے کہ ہماری تاریخِ جدوجہد کیا ہے؟ کون سے خون کے دریاؤں میں سے ہم گزرے ہیں؟ کس تحریک کے ایندھن میں ہم‘ جو یہاں رہنے والے ہیں‘ لوہے کی مانند مضبوط ہوئے ہیں؟ کون سے خون کے عطیے یہاں دیے گئے ہیں؟ تقسیمِ ہندکے وقت کے فسادات کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔ تب جو خون کے دریا بہے تھے اُن کی وجہ سے ہمیں آزادی نہیں ملی تھی۔ تقسیمِ ہند کا فیصلہ انگریزکر چکے تھے اور 14 اگست کو پاکستان معرضِ وجود میں آ چکا تھا۔ پنجاب کے دونوں حصوں میں خون کی ہولی جو تب کھیلی گئی وہ تقسیمِ ہند اور تقسیمِ پنجاب کا نتیجہ تھی۔ الگ مملکت کی حیثیت اُس خون کی ہولی سے نہ ملی تھی۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تاریخ کو صحیح طور پر پڑھا جائے۔ بنگالیوں کو اپنی حیثیت منوانے کیلئے لڑنا پڑا تھا۔ ہم جو یہاں کے باسی ہیں ہمیں آزادی کیلئے کون سی جنگ لڑنی پڑی؟ ہم تو نظریات کے سوداگر رہے اور جب بغیر خونیں انقلاب کے ہمیں ایک الگ مملکت کی حیثیت نصیب ہوئی تب بھی ہمارے بڑے پردھان نظریات کا چورن تیار کرتے رہے۔ وہی چورن ہم نے بنگالیوں کو کھلانے کی کوشش کی لیکن اس جوشیلی اور ہر وقت اشتعال میں آنے کیلئے تیار قوم نے وہ چورن قبول کرنے سے انکار کیا۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہم سمجھ نہ سکے۔ زور زبردستی سے چیزیں ٹھونسنے کی کوششیں ہوتی رہیں اور نتیجہ 1970-71ء کے واقعات کی صورت میں رونماہوا۔
ایک اور بات نہ بھولنی چاہیے کہ گو شیخ حسینہ بڑی ڈکٹیٹر قسم کی خاتون تھیں اُن کے دورِ اقتدار میں بنگلہ دیش میں معاشی ترقی ضرور ہوئی۔ بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ بڑھی‘ زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا اور معاشی ترقی کے حوالے سے بنگلہ دیش کی تعریف ہوئی۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ جس قسم کی وہ ڈکٹیٹر بنیں اُس کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ ہم جیسے ملکوں میں ایک عمومی پرابلم ہے کہ جمہوری تقاضوں کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کو دیکھ لیں‘ اپوزیشن کو اتنا کچلنے کی ضرورت کیا تھی؟ آمریت نے لوگوں کا گلا گھونٹ دیا اور بنگالیوں کو یہ چیز قابلِ قبول نہ تھی۔ بنگلہ دیش کی مڈل کلاس جی دار قسم کی کلاس ہے۔ وہاں کے طالب علم ہمیشہ چنگاری نما رہے ہیں۔ 1970ء میں بھی عوامی لیگ کی سرگرمیوں میں طالب علم پیش پیش تھے اور شیخ حسینہ کے خلاف بھی احتجاج اور شورش کی قیادت نوجوان ہاتھوں میں تھی۔ ہماری حالت دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں کوئی جان ہی نہیں ۔ سٹوڈنٹ یونین ویسے ہی یہاں نہیں رہیں اور جو ہمارے پنجاب یونیورسٹی قسم کے طالب علم ہیں ان کا عمومی نقطہ نظر ہی کچھ اور قسم کا ہے۔ آج کے پاکستانی طالب علم کا کسی جمہوری جدوجہد میں حصہ صفر بٹا صفر ہے۔ بنگلہ دیش جیسے طالب علم پیدا ہوں‘ پھر کسی جدوجہدکی بات کی جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہاں جدوجہد کے عوامل پیدا نہیں ہوئے۔ ہم فرقہ واریت اوردہشت گردی کے انگاروں کو ہوا دیتے رہے کیونکہ غیروں کے اشاروں پر ناچتے رہے۔ ہماری اصل منزل ابھی دور ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved