شاید میں کبھی بنگلہ دیش نہ جاتا اگر اسحاق خاکوانی صاحب نے میری ملاقات ڈھاکہ اسمبلی کے ممبر صلاح الدین چودھری سے نہ کرائی ہوتی۔ ایک ہنستے مسکراتے اور بات بات پر اونچے اونچے قہقہوں سے فضا کو خوشیوں سے بھر دینے والے صلاح الدین مغربی پاکستان کی 1962ء کی اسمبلی کے سپیکر قادر چودھری کے بیٹے تھے۔ قادر چودھری سپیکر بننے کے بعد جب مغربی پاکستان شفٹ ہوئے تو بچوں کو بھی ساتھ لے آئے۔ یہاں انہیں صادق پبلک سکول بہاولپور میں داخلہ دلایا۔ اس سکول میں داخلے کی تجویز نواب آف کالا باغ کی تھی۔ اس سکول میں صلاح الدین کی اسحاق خاکوانی اور محمد میاں سومرو سے ملاقات ہوئی جو ایک طویل دوستی کا آغاز ثابت ہوئی۔
2008ء میں میری پہلی ملاقات صلاح الدین چودھری سے اسحاق خاکوانی ہی نے کرائی۔ صلاح الدین چودھری سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے ساتھی تھے اور پاکستان کی محبت میں غرق تھے کیونکہ ان کا بچپن‘ سکول اور یونیورسٹی کا زمانہ بہاولپور‘ ملتان اور لاہور میں گزرا تھا۔ مجھے سے ملے تو ایسی اچھی سرائیکی بولی کہ کوئی پہچان نہ سکے کہ وہ بنگالی ہیں۔ صدر فاروق لغاری دور میں نگران وزیر زبیر خان ہم تینوں کو خبیرپختونخوا میں اپنے فارم ہاؤس پر لے گئے اور وہاں زندگی کا بہترین دن ہم چاروں نے اکٹھے گزارا۔ بات بات پر قہقہے لگانا صلاح الدین چودھری پر ختم تھا۔ جب ان کے قہقہوں میں اسحاق خاکوانی کے قہقہے شامل ہوتے تو لگتا فضا قہقہوں سے بھر گئی ہے۔
مجھے کہنے لگے: تم صحافی ہو‘ ہمارے الیکشن آرہے ہیں‘ تم ڈھاکہ کیوں نہیں آتے۔ دیکھو وہاں کیسے الیکشن ہوتے ہیں۔میرے لیے ایک بڑی پیشکش تھی کہ ڈھاکہ جا کر وہاں الیکشن کو قریب سے دیکھوں۔ میرا انگریزی اخبارفورا ًراضی ہوگیا اور الیکشن سے کچھ دن پہلے ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اُترا۔ کراچی سے اس فلائٹ میں سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد بھی تھے۔ کنور دلشاد نے ڈھاکہ ایئرپورٹ پر جہاز سے اترتے ہی سجدہ کیا۔خیر صلاح الدین چودھری نے ڈرائیور بھیجا ہوا تھا جو مجھے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ڈراپ کر گیا۔ اگلے دن میں نے ہوٹل چھوڑ کر وہاں ایک گیسٹ ہاؤس میں کمرہ لے لیا کیونکہ مجھے اخراجات کیلئے میرے اخبار نے دو ہزار ڈالرز دیے تھے۔
الیکشن کی گہماگہمی عروج پر تھی۔ فوج کی نگرانی میں قائم کیئرٹیکر حکومت وہ الیکشن کرا رہی تھی۔ خالدہ ضیااور حسینہ واجد کی پارٹیوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔ خالدہ ضیاکی پارٹی کو پاکستان نواز سمجھا جاتا تھا اور اس کا جھکائو اسلام آباد کی طرف تھا جبکہ عوامی لیگ بارے سب کو علم تھا کہ یہ پاکستان کی مخالف اور بھارت نواز ہے۔ اس الیکشن میں بھارت کا بھی بہت زور لگ رہا تھا کیونکہ وہ کسی قیمت پر خالدہ ضیاکی پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ بھارت کا خیال تھا کہ خالدہ ضیا وزیراعظم تھیں تو پاکستان کا اثرورسوخ بنگلہ دیش میں بڑھ گیا ۔ اس کا توڑ حسینہ واجد تھیں۔ اس لیے بنگلہ دیش کے انتخابات میں باقی دنیا کی دلچسپی تھی یا نہیں تھی لیکن پاکستان اور بھارت اپنا پورا زور لگائے ہوئے تھے کہ وہ پارٹی الیکشن جیتے جو ان کیلئے آسانیاں پیدا کرے۔ اس کا توڑ حسینہ واجد کی پارٹی نے یہ نکالا کہ انہوں نے اس الیکشن میں وہی پرانا نعرہ لگایا کہ 1971ء میں جنگ میں جنہوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا انہیں کٹہرے میں لایا جائے گا۔ جنگی جرائم کے نام پر بیونل قائم کیے جائیں گے جو اُن تمام لوگوں اور سیاستدانوں کو سزائیں دیں گے جنہوں نے اُس وقت پاکستان آرمی کا ساتھ دیا تھا۔ حسینہ واجد کی عوامی پارٹی کا یہ نعرہ مقبول ہونا شروع ہوگیا کہ 71ء کا بدلہ لیا جائے گا۔ کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ بنگلہ دیش کے نصاب میں بنگلہ دیش کی نسلوں کو ان واقعات کے بارے ہمیشہ پڑھایا گیا تھا لہٰذا سب کے ذہنوں میں وہ یادیں تازہ تھیں‘ بلکہ وہ نسل بھی بنگلہ دیش میں موجود تھی جس نے 1971ء میں بنگلہ دیش بنتے دیکھا تھا لہٰذا ان کے دل میں انتقام کا جذبہ موجود تھا۔ حسینہ واجد اور ان کی عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمن کے خلاف ہونے والی خونیں بغاوت کے ذمہ داروں کے خلاف بھی کارروائی کرنا چاہتی تھی۔ اس فوجی بغاوت میں شیخ مجیب اور ان کے خاندان کے لوگوں کو قتل کر دیا گیا تھا اور عوامی لیگ اور حسینہ واجد کے یہ زخم ابھی ہرے تھے۔ 2008ء کے الیکشن آئے تو حسینہ واجد کی پارٹی کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ان لوگوں کو پھانسیاں دے گی جنہوں نے1971 ء میں بنگالیوں کا لہو بہایا اور اپنے ملک کے بانی شیخ مجیب کو قتل کیا۔
مجھے یاد ہے کہ ان دنوں یہ نعرہ بڑی تیزی سے مقبول ہورہا تھا۔ نوجوان نسل جس نے 1971ء کی کہانیاں ابھی تک سلیبس کی کتابوں میں پڑھی تھیں انہیں اس الیکشن میں موقع مل رہا تھا کہ وہ ان لوگوں سے بدلہ لیں جنہوں نے ان کے خیال میں اپنے لوگوں کے بجائے مغربی پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور ہزاروں بنگالی مارے گئے تھے۔ حسینہ واجد کو اس سے بہتر موقع نہیں مل سکتا تھا کہ وہ نوجوان نسل کے جذبات کو دوبارہ ابھارے اور اپنے ان تمام دشمنوں کے ساتھ اپنا پرانا حساب کلیئر کرے۔
جب میں وہاں ڈھاکہ کی گلیوں بازاروں میں پھرتا تھا تو مجھے ہر طرف یہی جذبات اور احساس سننے اور محسوس کرنے کو ملتے۔ کوئی بھی میرے جیسا بندہ جو باہر سے آیا تھا اس کیلئے نتیجہ نکالنا مشکل نہ تھا کہ الیکشن کا رزلٹ کیا ہوگا۔ نوجوان بہت غصے میں تھے۔ ان کے اندر بدلے کی آگ ٹھنڈی نہیں ہورہی تھی۔ انہیں لگا کہ حسینہ واجد کو موقع دیں کہ وہ اپنے وطن کے سب ''دشمنوں اور غداروں‘‘ کو ختم کر دیں اور یہ اسی صورت ممکن تھا جب عوامی لیگ جیتے۔ اُس وقت ڈھاکہ میں بڑے بڑے سیاسی اشتہاری بورڈز آپ کو ہر طرف نظر آتے تھے۔ پاکستان کے خلاف فضابن رہی تھی۔ اس لیے مجھے ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمیشن میں ایک ملاقات میں کچھ مشورے بھی دیے گئے کہ ذرا دھیان رکھنا‘ یہاں کوئی ایسی بات یا سوال نہیں کرنا جس پر آپ کو کسی شدید ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے‘ بنگالی اس وقت بہت غصے میں ہیں‘ اس لیے بہتر ہوگا میں ذرا لو پروفائل ہو کر رپورٹنگ کروں۔ ان کی باتوں میں بڑا وزن تھا لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا تھا کہ اگر میں نے باہر ہی نہیں نکلنا تو میں بھلا کیسے رپورٹنگ کر سکتا تھا۔پہلے دن قریبی مارکیٹ میں دو تین دفعہ گیا تو وہاں مجھے لگا کہ اب بھی لوگ وہاں اردو سمجھ لیتے ہیں۔ ڈھاکہ جانے سے پہلے مجھے میرے مرحوم دوست ڈاکٹر ظفر الطاف نے بھی بنگلہ دیش اوربنگالیوں کے مزاج اور رویوں بارے بریف کیا تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف ان پنجابی افسران میں سے تھے جنہوں نے 1971ء کی جنگ سے پہلے وہاں سول سروس میں نوکری کی تھی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کو تو بنگالی زبان بھی آتی تھی۔ ایک دفعہ مجھے بتایا کہ جب ان کی پوسٹنگ مشرقی پاکستان ہوئی تو انہوں نے وہاں جاتے ہی جو پہلا کام کیا تھا وہ ایک بنگالی استاد کو ہائر کر کے اس سے بنگالی زبان سیکھنا تھا۔ ان کا خیال تھا اگر کوئی افسر مقامی لوگوں کی مادری زبان سیکھ کر اُن سے اس زبان میں بات کرے تو بہت آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور ان کا اعتماد جیتنا آسان ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے بنگالیوں کی عزتِ نفس اور سیاسی شعور بارے بریف کیا ۔ لیکن اس چارجڈ ماحول میں‘ جب ہر طرف پاکستان کے خلاف مہم چل رہی تھی‘ ایک پاکستانی کا وہاں پایا جانا بہت سے شکوک کو بھی جنم دے سکتا تھا۔ میرے ذہن میں اس کا یہ حل آیا کہ میں نے یہاں خود کو محفوظ بھی رکھنا ہے اور یہاں سے پاکستان خبریں بھی بھیجنی ہیں۔
ڈھاکہ کا ماحول گرم ہو چکا تھا۔ کوئی بھی اجنبی ڈھاکہ کی فضا میں خالدہ ضیا کے حامیوں میں ڈر اور حسینہ واجد کے کیمپ میں نئی امیدوں کو محسوس کرسکتا تھا۔ میں نے اس خوف اور امید کے درمیان ایک اجنبی بن کر اپنا کام کرنا تھا جس کو پاکستانی سفارت کار پہلے ہی خوفزدہ کر چکے تھے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved