دیو آنند کے خواب اُس وقت بکھر گئے جب اُسے پتا چلا کہ ثریا کی نانی نے اس رشتے سے انکار کر دیا ہے اور دیو آنند کی بھیجی ہوئی انگوٹھی دریا میں پھینک دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ثریا کی دیو آنند سے ملاقاتوں پر پابندی لگا دی گئی اور اس کو دیو آنند کے ساتھ فلموں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ یوں ''دو ستارے‘‘ ثریا اور دیو آنند کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ یہ دیو آنند کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔ ایک طرف تو اسے ثریا کی جدائی کا دکھ تھا اور دوسری طرف اس کے سامنے بڑا چیلنج فلمی دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ ثریا کے سہارے کے بغیر بھی وہ اپنی اداکاری کے بل بوتے پر کسی بھی فلم کو کامیاب بنا سکتا ہے۔
اس سے پہلے اشوک کمار نے ''ضدی‘‘ میں دیو آنند کو کامنی کوشل کے مقابل موقع دیا تھا۔ یہ دیو آنند کی کامیابی کا آغاز تھا۔ 1949ء میں دیو آنند نے اپنے بڑے بھائی چیتن آنند کے ساتھ مل کر نوکیتن فلمز کی بنیاد رکھی۔ اس فلم کمپنی کے تحت پہلی فلم ''بازی‘‘ 1951ء میں ریلیز ہوئی جو باکس آفس پر کامیاب ثابت ہوئی۔ 1954ء میں دیو آنند کی شادی اپنی ساتھی اداکارہ کلپنا کارتک سے ہو گئی۔ کلپنا ایک معصوم اور شوخ لڑکی تھی۔ یہ فلمی دنیا کی ایک کامیاب شادی تھی۔ کلپنا نے شادی کے بعد فلمی دنیا سے دست کش ہونے کا اعلان کیا اور اپنی ساری توجہ اپنے گھر اور بچوں پر صرف کر دی۔ لیکن دیو آنند آخری دم تک ثریا کو نہ بھول سکا۔ ثریا نے بھی ساری عمر شادی نہیں کی۔ اسی دوران اسے دلیپ کمار کے ہمراہ فلم ''انسانیت‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم نے باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی۔
1955ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''کالا پانی‘‘ میں دیو آنند کے مقابل مدھو بالا تھی۔ اس فلم میں بہترین اداکاری پر دیو آنند کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ 1960ء میں ''بمبئی کا بابو‘‘ اور 1964ء میں فلم ''شرابی‘‘ ریلیز ہوئی۔ ان فلموں میں دیو آنند کا امیج ایک ٹریجک ہیرو کے طور پر اُبھرا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ دیو آنند نے کچھ فلموں میں اینٹی ہیرو کا کردار بھی ادا کیا۔ جال ( 1952ء)‘ دشمن (1957ء) اور کالا بازار (1960ء) میں فلم بینوں نے اینٹی ہیرو کے طور پر بھی دیو آنند کو پسند کیا۔ کلپنا کے بعد دیو آنند نے وحیدہ رحمن کے ساتھ بھی کئی کامیاب فلموں میں کام کیا جن میں کالا بازار کے علاوہ CID (1956ء)‘ سولہواں سال (1958ء) اور بات ایک رات کی (1962ء) شامل ہیں۔
1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''گائیڈ‘‘ بھی دیو آنند کی ایک کامیاب فلم تھی۔ 1967ء میں ''جیول تھیف‘‘ دیو آنند کی ایک تھریلر فلم تھی جو باکس آفس پر کامیاب رہی۔ اب دیو آنند بطور اداکار فلمی دنیا میں اپنے قدم جما چکا تھا۔ اس کے دو بھائی چیتن آنند اور وجے آنند ڈائریکشن کے شعبے میں اپنا نام منوا چکے تھے۔ اس موڑ پر دیو آنند نے بھی ہدایتکاری کے میدان میں قسمت آزمائی کا سوچا۔ اس کی ڈائریکشن میں پہلی فلم ''پریم پجاری‘‘ 1970ء میں ریلیز ہوئی لیکن ہدایتکاری کے ساتھ ساتھ اس نے اداکاری کا سفر کامیابی سے جاری رکھا۔ 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں اس کی کامیاب فلموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں جانی میرا نام (1971ء)‘ بنارسی بابو (1973ء)‘ ہیرا پنا (1973ء)‘ امیر غریب (1974ء)‘ وارنٹ (1975ء)‘ دیس پردیس (1978ء)‘ لوٹ مار (1980ء)‘ سوامی دادا (1982ء) اور لشکر (1984ء) شامل ہیں۔
دیو آنند کی فلموں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ان کی موسیقی اور گیت بہت مختلف اور بہت مدھر ہوتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ دیو آنند کا موسیقی سے والہانہ لگاؤ تھا۔ وہ خود موسیقاروں کے پاس طویل دورانیوں کیلئے بیٹھتا اور گیت کا ہر پہلو سے جائزہ لیتا۔ اسی طرح اس نے کئی فلموں کی کہانیاں خود لکھیں۔ اس نے فلموں میں کئی نئے چہروں کو متعارف کرایا۔ دیو آنند کی سوانح عمری Romancing with life کے نام سے شائع ہوئی۔ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے ایک طویل اور بھر پور زندگی گزاری۔ جس کی ہر ادا فیشن بن جاتی تھی۔ جس کے چاہنے والوں کی ایک کثیر تعداد دنیا کے مختلف ممالک میں رہتی ہے۔
اب دیو آنند عزت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکا تھا۔ وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا تو اسے وہ دن یاد آجاتے جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے انگلش آنرز کر رہا تھا۔ اس کا ارادہ بی اے کے بعد ایم اے انگلش کرنے کا تھا لیکن والد نے مزید مالی معاونت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ دیو آنند کو 1943ء کا وہ دن یاد ہے جب اس کی عمر 19برس تھی‘ اس کی جیب میں صرف 30روپے تھے اور وہ فرنٹیئر میل میں اپنے خوابوں کے شہر بمبئی جا رہا تھا۔ اس وقت اسے کیا معلوم تھا کہ اسے پھر اپنے شہر لاہور میں آنے کیلئے ویزا لینا پڑے گا۔ بمبئی میں اسے لاہور اور گورنمنٹ کالج کی یاد شدت سے ستاتی‘ جہاں اس نے اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت وقت گزارا تھا۔ آخر اسے یہ موقع مل ہی گیا جب پچپن برس بعد 1998ء میں اسے بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ پاکستان آنے کا موقع ملا۔ لاہور میں اس کیلئے سب سے بڑی کشش گورنمنٹ کالج لاہور تھا۔ پاکستان میں اس کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ یہاں بھی اس کے بے شمار چاہنے والے تھے۔ انہی میں ایک پرستار نے اسے بانسری پر وہ گیت سنائے جو دیو آنند پر فلمائے گئے تھے۔
مدتوں بعد آج وہ وہ اپنے شہر لاہور کو دیکھ رہا تھا۔ پچپن برس کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا۔ اس کی اگلی منزل گورنمنٹ کالج لاہور تھا۔ اس دن کا احوال میں نے محترم اصغر ندیم سید کی زبانی سنا جو اس دن گورنمنٹ کالج لاہور میں دیو آنند کے استقبال کیلئے موجود تھے۔ اصغر ندیم سید نے بتایا کہ وہ اتوار کا دن تھا‘ میں نے کالج پہنچ کر گیٹ کھلوایا۔ چھٹی کی وجہ سے کالج تقریباً خالی تھا۔ کچھ ہی دیر بعد دیو آنند آگیا۔ وہ گورنمنٹ کالج کی عمارت کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کے دیکھنے کو عرصے سے ترس رہا تھا۔ اس نے کالج کے ٹاور‘ اوول گراؤنڈ اور پرنسپل آفس کو دیکھا اور زیرِ لب بڑبڑایا ''سب کچھ ویسے ہی ہے‘‘۔ پھر وہ برآمدے میں چلتا ہوا سیڑھیوں تک پہنچا اور وہاں جا کر رک گیا۔ پیچھے مڑ کر ہمیں دیکھا اور کہا ''پلیز اب یہیں رک جائیں‘ آگے میں اکیلا جانا چاہتا ہوں‘‘۔ اصغر ندیم سید نے بتایا کہ ہم وہیں رک گئے اور دیو آنند سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ وہ دیوار پر اس طرح ہاتھ پھیر رہا تھا جیسے وہ کوئی زندہ چیز ہو۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والی منزل پر چلا گیا جہاں اس کا کلاس روم تھا۔ اس نے دیکھا اکثر ڈیسکوں پر پرانے طالبعلموں کے نام کندہ تھے۔ پتا نہیں یہ سب اب کہاں ہوں گے۔ یہ سوچ کر اس کا دل بھر آیا اور وہ جلدی سے کمرے سے باہر نکل آیا۔ ہم نیچے کھڑے دیو آنند کا انتظار کر رہے تھے۔ اچانک ہمیں کسی کے رونے کی آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی ایک چپڑاسی تیزی سے سیڑھیاں اترتے نیچے آیا اور ہمیں کہنے لگا کہ اوپر برآمدے میں ستون کے پاس ایک شخص کھڑا رو رہا ہے۔ ہم اوپر گئے تو وہ دیو آنند تھا۔ وہ اپنی کلاس میں جا کر جذباتی ہو گیا تھا اور برآمدے کے ستون سے لگا بلک بلک کر رو رہا تھا۔ اس نے ہمیں دیکھ کر بس ایک ہی جملہ کہا ''سب کچھ ویسا ہی ہے‘ ڈیسک بھی وہی لیکن...‘‘۔ اس کے بعد اس کی آواز گلے میں اٹک گئی اور ہمارے چاروں طرف ایک بوجھل خاموشی چھا گئی۔
یہ دیو آنند کی کہانی ہے جو شکر گڑھ میں پیدا ہوا‘ لاہور میں جوان ہوا‘ بمبئی کی فلمی دنیا پر راج کیا اور جو آج اپنے کالج کے ستون کے ساتھ لپٹ کر بچوں کی طرح رو رہا تھا۔(ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved