تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     07-08-2024

کس ماڈل کی عبوری حکومت؟

بالآخرشیخ حسینہ واجد کی 15سالہ شخصی حکومت اسی انجام سے دوچار ہوئی جو اس طرح کی آمرانہ حکومت کا مقدر ہوتا ہے۔پانچ اگست کو چشمِ فلک نے بنگلہ دیش میں جو مناظر دیکھے وہ بظاہر ناقابلِ تصور تھے۔ لاکھوں مظاہرین کے عوامی احتجاج کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو مستعفی ہو کر بھارت کی طرف فرار ہونا پڑا۔
چند ہفتے قبل جب طلبہ نے حسینہ واجد کی پندرہ برس کی بدترین سول آمریت کے ناقابلِ برداشت ظلم و ستم اور عدل و انصاف کی پامالی سے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق انتہائی ظالمانہ اور ناروا کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کیا تو مجسم رعونت بیگم حسینہ واجد نے کسی دانشمندی اور سمجھداری سے کام لینے کے بجائے توپ و تفنگ سے اپنی گرتی ہوئی حکومت کو سنبھالا دینے کی کوشش کی۔ سابق وزیراعظم کے احکامات کے مطابق طلبہ کے احتجاج کو نظر انداز کیا گیا‘ 200 کے قریب نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ہزاروں کو شدید زخمی اور ہزاروں کو مختلف شہروں میں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیاگیا۔ چاراگست‘ اتوار کے روز اپنے ساتھیوں کی رہائی اور کوٹہ سسٹم کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کیلئے دوبارہ مظاہرے شروع کیے گئے تو کوتاہ اندیش سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے ایک بار پھر پولیس اور عوامی لیگ کے سٹوڈنٹس ونگ کے مسلح سکواڈ کے ذریعے حق مانگنے والوں میں سے 93 کے قریب کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس مزید ظلم کے بعد بپھرے ہوئے نوجوانوں نے کرفیو کی اعلانیہ خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی تحریک کا رخ حسینہ واجد کے استعفیٰ کی طرف موڑ دیا۔ حسینہ واجد کے استعفے کے بعد بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزماں نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا اور اعلان کیا کہ عوامی لیگ کے علاوہ تمام پارٹیوں کی شمولیت سے عبوری حکومت قائم کی جائے گی اور ایک بار پھر بنگلہ دیش کو پُرامن ملک بنایا جائے گا۔
2008ء سے لے کر اب تک بنگلہ دیش میں جو تین انتخابات ہوئے ان کے بارے میں عالمی ہیومن رائٹس اداروں کی رپورٹوں کے مطابق ایک میں بھی آزادانہ و منصفانہ پولنگ نہیں ہوئی۔ حسینہ واجد نے اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کی طرح ون پارٹی رُول قائم کر رکھا تھا۔ وہ کسی دوسری پارٹی کو الیکشن میں حصہ ہی نہ لینے دیتی تھیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) وہاں کی مرکزی اپوزیشن ہے۔ 2024ء کے الیکشن سے قبل بی این پی اور ''کالعدم‘‘ جماعت اسلامی کے 20 ہزار کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیاتھا۔ شیخ حسینہ واجد نے ایک نام نہاد ٹربیونل کے ذریعے اپنے ادوارِ حکومت میں جماعت اسلامی‘ اسلامی جمعیت طلبہ اور مسلم لیگ وغیرہ کے درجنوں نوجوانوں کو ناکردہ جرائم کی پاداش میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔
1971ء میں تمام تر افسوسناک واقعات کے بعد جب شیخ مجیب الرحمن واپس مشرقی پاکستان پہنچے تو وہ بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ اب یہ اُن کا امتحان تھا کہ وہ ملک کو جمہوری راستے پر ڈالتے اور ماضی کی تلخیوں کو بھول جاتے‘ لیکن شیخ مجیب الرحمن نے جمہوریت کے بجائے ون پارٹی رُول کو اپنایا اور مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین و کارکنان پر ناقابلِ بیان روح فرسا مظالم ڈھانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ صرف چار برس کے بعد1975ء میں شیخ مجیب الرحمن اپنے گھر دھان منڈی میں فوج کے ہاتھوں اپنے اکثر اہلِ خانہ اور کچھ وزرا سمیت بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔
جب 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اقتدار سنبھالا تو وہ کلی اختیارات کے مالک تھے۔ 93 ہزار پاکستانی قیدی‘ جن میں اکثریت فوجیوں کی تھی‘ وہ بھارتی جیلوں میں تھے۔پاکستانی فوج سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے کے بعد بیک فٹ پر تھی۔ ان حالات میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے آگے بڑھ کر ذوالفقار علی بھٹو کا دستور سازی میں ساتھ دیا اور یوں 1973ء کا اسلامی جمہوری اور فلاحی متفقہ آئین معرض وجود میں آ گیا ۔مگر جب بھٹو صاحب نے اپنا اقتدار مستحکم کرلیا تو انہوں نے بھی جمہوری رویہ ترک کر کے آمرانہ روش اختیار کر لی اور سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈال کر ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ ولی خان جیسے سینئر رہنما کے جلسے پر لیاقت باغ راولپنڈی میں بھٹو صاحب نے گولیاں چلوائیں۔ 1977ء میں قبل از وقت انتخابات کروا کے بلامقابلہ منتخب ہونا چاہتے تھے۔ دوتہائی اکثریت کیلئے انہوں نے مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ جب ان کے خلاف تمام پارٹیوں نے مشترکہ تحریک شروع کر دی تو بھٹو صاحب نے سیاستدانوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے بجائے فوج پر انحصار کیا اور پھر انہیں ایک خوفناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔تب سے لے کر اب تک ہم بنگلہ دیش اور پاکستان میں اسی کہانی کو دُہرا رہے ہیں۔ کبھی فوجی حکومت اور کبھی عوامی آمریت۔ہم جس سیاسی مرض کا شکار ہیں اس کی تشخیص یہ ہے کہ ہمارا ہر حکمران چاہے وہ فوجی ہو یا سول ‘ بلاشرکت غیرے‘ آل پاور فل بننا چاہتا ہے۔2018ء میں جب عمران خان برسراقتدار آئے توانہوں نے مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ہر چھوٹے بڑے لیڈر کو پسِ دیوارِ زنداں بھیجنے کو اپنا ماٹو بنا لیا تھا۔اب یہی رویہ مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کے خلاف اختیار کر رکھا ہے ۔
اگرچہ نصف صدی کی تاریخ سے ہم نے یہاں پاکستان میں کوئی سبق حاصل نہیں کیا مگر بنگلہ دیشی سول ڈکٹیٹر حسینہ واجد کی ظالمانہ حکومت کے خاتمے میں ہمارے لیے ایک نہیں کئی اسباق ہیں۔ پہلا سبق تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ''آل پاور فل‘‘ بننے کے خبط سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ عدل کے بغیر اور محض مقتدرہ اور عدلیہ سے مستعار لی ہوئی طاقت کے بل بوتے پر آمرانہ حکومت زیادہ دیر نہیں چل پاتی۔ مولانا مودودیؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہر ڈکٹیٹر اپنے آپ کو بہت مضبوط سمجھتا ہے مگر جب وہ دھڑام سے گرتا ہے تب احساس ہوتا ہے کہ یہ کھڑا کیسے تھا۔ اس کے پاؤں کے نیچے تو زمین ہی نہیں تھی۔ ایک اہم سبق یہ بھی ہے کہ نفرت کی بنیاد پر تعمیر کردہ مقبولیت کا ابوالہو ل بالآخر عوامی حکومت سے پاش پاش کر دیا تھا۔ چوتھا سبق یہ کہ مقبولیت ایک سراب ہے۔
بنگلہ دیش کا عوامی انقلاب جہاں بیگم حسینہ واجد اور عوامی لیگ کیلئے باعثِ ہزیمت ہے وہاں بھارت کیلئے بھی باعثِ صد ندامت ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر فخریہ کہا تھا کہ ہماری خفیہ اور اعلانیہ مدد سے ہی بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا۔ پانچ اگست کو مشرقی بنگال کے لوگوں نے عوامی انقلاب کے ذریعے حسینہ واجد کو بھارت بھیج کر شیخ مجیب الرحمن اور نریندر مودی دونوں کا قرض اتار دیا ہے۔ آج بھی بنگلہ دیش میں مسلم قومیت کا شعور اور جذبہ دونوں نمایاں ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بنگلہ دیش ماڈل کا بہت تذکرہ کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ضد‘ انا پرستی اور ہٹ دھرمی کی بنا پر ہم بھی کسی عبوری سیٹ اَپ کی طرف جا رہے ہیں۔
عبوری حکومت کا ایک تو بنگلہ دیشی ماڈل ہے اور دوسرا ماڈل چند روز پہلے ایک سینئر کالم نگار نے کسی مردِ دانا کے حوالے سے پیش کیا تھا۔ اس ماڈل کے مطابق پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیوں کی‘ بشمول پی ٹی آئی‘ مشترکہ عبوری حکومت دو سال کیلئے قائم کی جائے۔ اس کے بعد آزادانہ انتخابات کے ذریعے جو پارٹی اکثریت حاصل کرے اقتدار اس کو سونپ دیا جائے۔ ہماری رائے میں تو پاکستانی سیاستدانوں کو پارلیمنٹ والی مشترکہ عبوری حکومت کو صدقِ دل سے قبول کر لینا چاہیے کہ اسی میں ملک و قوم کا بھلا اور مستقبل کا تحفظ ہے۔ ہماری سیاسی بقا کیلئے جیو اور جینے دو از بسکہ ضروری ہے۔ جہاں تک فوج کی زیر نگرانی قائم ہونے والی عبوری حکومت کے بنگلہ دیشی ماڈل کا تعلق ہے تو وہ بن بلائے مہمان کی طرح اچانک آ جایا کرتا ہے۔ اب فیصلہ ہمارے سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved