تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     08-08-2024

شہید اسماعیل ہنیہ اور سلطان عبدالحمید کا خط

مسافر کی طبیعت میں اگر عجلت ہو تو اس کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ فائدہ یہ کہ ایسا مسافر زیادہ دیر کہیں ٹکتا نہیں اور اگلی منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔ یہ خوبی مسافر کو ہمہ وقت نہ صرف سفر میں رکھتی ہے بلکہ اگلے سفر کیلئے مہمیز کا کام بھی دیتی ہے۔ امیر تیمور گورگان نے کہا کہ خیمے کے گرد گھاس اُگنے سے قبل خیمہ اکھاڑ لینا چاہیے۔ مسافر کو چاہیے کہ ایک منزل پر زیادہ دیر قیام کے بجائے زیادہ منزلوں پر تھوڑے قیام کو ترجیح دے اور مختصر سے سامانِ سفر کو زیادہ دیر آرام نہ کرنے دے۔ تاہم اسکا ایک نقصان بھی ہے‘ اور وہ یہ کہ مسافر شہر اور منزلیں دیکھتا تو ہے ان میں اترتا نہیں‘ تاریخ سے آشنا تو ہوتا ہے مگر اس میں جا کر محسوس نہیں کرتا۔ یہ مسافر عجلت پسند ہے اور اپنی wish list کی جلد از جلد تکمیل کیلئے ایک جگہ پر زیادہ قیام کرنے کے بجائے دل میں اگلی منزل کی جستجو بسائے ہمہ وقت اپنا سامان کندھے پر لادے خیمہ اکھاڑنے کے در پے رہتا ہے۔ سر میں سفر کا سودا سما جائے تو مسافت کے عادی پائوں چین سے بیٹھنے بھی نہیں دیتے۔ بقول باصر سلطان کاظمی:
رہتا ہے اتنا پائوں کے تِل کا اثر سوار
سر پر ہے گھر پہنچتے ہی اگلا سفر سوار
نئی منزلوں کی جانب سے آنے والی آوازیں شوقِ سفر میں جان ڈال دیتی ہیں اور مسافر نگری نگری پھرتا ہے‘ دیکھتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ بے چین طبیعت نہ خود قرار لیتی ہے اور نہ ہی مسافر کو قرار لینے دیتی ہے۔ بعض مسافر ایسے شانت اور پُرسکون ہوتے ہیں کہ لگتا ہے انہیں اگلی منزل کے بجائے موجودہ جائے قیام پر ہی زندگی گزار دینی ہے۔ وہ دورانِ سفر ٹھہرنے کے بجائے رک جاتے ہیں۔ صرف دیکھتے نہیں بلکہ محسوس کرتے ہیں۔ اس جگہ کی تاریخ پر ہم عجلت پسندوں کی طرح محض نظر نہیں دوڑاتے بلکہ پلٹ کر اس تاریخ میں خود کو بسر کرتے ہیں اور جب اس پر لکھتے ہیں تو آپ کو بھی اس بہائو میں اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہم بھی اس مسافر کو انگلی پکڑے اس کے ساتھ تاریخ کے جھروکوں سے جھانک رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں مجھے اپنے دوست ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کا سفر نامہ ترکی '' زبانِ یار من ترکی‘‘ پڑھتے ہوئے یاد آئی تھیں۔ میں خود دوبار ترکی گیااور اسے ایک مسافر اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے قاری کی نظر سے دیکھا مگر سچ یہ ہے کہ آسٹریلیا میں مقیم اس طبیب دوست کا سفر نامہ پڑھ کر ایک بار پھر ترکیہ جانے کی حسرت دل میں پیدا ہوئی۔ حالانکہ شوقِ سفر کا یہ راہی پرانی منزلوں کی دوبارہ‘ سہ بارہ یاترا کے بجائے اپنے رخشِ سفر کو نئی منزلوں کی طرف گامزن رکھتا ہے مگر اس کتاب میں ترکی کے بارے میں جس عرق ریزی سے تاریخی تفصیلات اور جزئیات پیش کی گئی ہیں ان کو پڑھنے کے بعد دل کرتا ہے کہ ایک بار اس نظر سے ترکی کو دوبارہ دیکھا جائے۔
یہ کتاب میں نے کئی ماہ قبل ہی پڑھ لی تھی مگر ایمانداری کی بات ہے کہ اس میں شامل ترجمہ شدہ خط اب شہیداسماعیل ہنیہ کے بیہمانہ قتل اور امت مسلمہ کی روایتی بے بسی‘ بے حسی‘ لاچاری‘ بے حمیتی‘ بے شرمی اور بے غیرتی پر دوبارہ سے یاد آ گیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ ستاون ممالک پر مشتمل یہ امت شہید اسماعیل ہنیہ کی اپنے اپنے ہاں غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھ کر مطمئن ہے کہ اس نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ اس امت کے بیشتر حکمران تو مہر بہ لب ہیں اور وہ چار لوگ جو بیان دے بھی رہے ہیں‘ ان کی حیثیت دراصل عوام میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کی سعی ناکام کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ امت کے حکمرانوں کے دل میں اسرائیل اور اس کے اصل پشتیبان امریکہ کی فرمانبرداری اور خوف کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے اقتدار میں چند روزہ توسیع کی خاطر اپنی انا‘ آزادی‘ روح اور غیرت کا سودا کیے بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کی مذکورہ کتاب میں سلطنتِ عثمانیہ کے آخری باختیار اور مقتدر سلطان عبدالحمید ثانی کا اپنے مرشد شیخ محمود آفندی کو لکھا ہوا ترجمہ شدہ ایک خط بھی ہے۔ یہ خط آج بھی ایک عجائب گھر میں محفوظ پڑا یہودی سازشوں اور مسلمانوں میں موجود ان کے آلہ کاروں کے متعلق ایک چشم کشا دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ خط‘ جسے میں نے کافی عرصہ پہلے بھی پڑھا تھا‘ اس کتاب میں چند ماہ قبل دوبارہ پڑھا۔ اب اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر امت کے حکمرانوں کی خاموشی پر یہ خط پھر یاد آ گیا۔ میرے بس میں ہو تو میں یہ خط ستاون مسلم ممالک کے سربراہوں کو بھیجوں۔ کاش یہ خط انہیں عبرت کا سبق اور غیرت کی کوئی دوا دے سکے۔ خط نذرِ قارئین ہے:
''میں اپنا یہ خط زمانے کے شیخ محمود آفندی ابو الشامات کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اور ان کے مبارک ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے نیک دعاؤں کی امید کے ساتھ‘‘۔
ہم وہ لوگ ہیں جن کا کوئی وطن نہیں ‘ کوئی گھر نہیں ‘ کوئی سر چھپانے کا ٹھکانہ نہیں۔ جلا وطنی میں ہمارے خاندان کی تاریخ سوائے المناک اموات کے اور کچھ نہیں۔ اس مقدمے کے بعد میں آپ اور آپ جیسے اصحاب ِعلم و فضل کے سامنے ایک اہم مقدمہ پیش کر رہا ہوں کہ یہ تاریخ کے ذمہ ایک امانت رہے۔ خلافت اسلامیہ سے مجھے ہٹانے کے پیچھے ''جمعیت اتحادِ نوجوان ترک‘‘ کے سرداروں کی طرف سے دھمکیوں کا مسلسل آنا تھا جس نے مجھے خلافت چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ان اتحادیوں نے شدت کے ساتھ اصرار کیا کہ میں ایک یہودی مملکت کے قیام کی اجازت دوں۔ ان کے اصرار اور دباؤ کے باوجود میں نے قطعاً ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ آخر میں انہوں نے مجھے ڈیڑھ سو ملین انگریزی سونے کے لیروں کی پیشکش کی۔ میں نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اگر تم مجھے پوری زمین کے بقدر سونا دو گے‘ تو بھی میں تمہاری بات نہیں مانوں گا۔ میں نے امت محمدی کی تیس سال سے زائد عرصہ خدمت کی ہے۔ میں اپنے آباؤاجداد کے نامہ اعمال کو سیاہ نہیں کر سکتا۔اس لیے میں تمہاری پیشکش کو ہرگز قبول نہیں کرسکتا۔ میرے اس قطعی انکار پر انہوں نے مجھے خلافت سے الگ کرنے پر اتفاق کرلیا جس کے بعد انہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ وہ مجھے سالو نیکا شہر بھیج رہے ہیں جسے میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً قبول کرلیا۔
میں اللہ کی تعریف کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ میرا دامن ارضِ مقدس فلسطین میں یہودیوں کے ملک کے قیام کی ذلت و رسوائی سے داغدار نہیں اور میں نے اپنے آباؤاجداد کی قبروں کا سودا نہیں کیا۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھے اس کی بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی لیکن میں اس کیلئے تیار ہوں۔ میرا ضمیر مطمئن ہے کہ میں اپنے رب کے سامنے اپنے رسول محمدﷺ کے حضور اور اپنے آباؤاجداد کے سامنے سرخرو اٹھایا جاؤں گا۔ اسی کے ساتھ میں اپنا خط ختم کرتا ہوں... و السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
22 ستمبر 1329ھ ...خادم المسلمین عبدالحمید ‘‘
27 اپریل 1909ء کو سلطان کو اقتدار سے محروم کر کے حکومت اس کے سوتیلے بھائی محمد پنجم کو سونپ دی گئی۔ جو اختیارات سے محروم برائے نام بادشاہ تھا۔ سلطان عبدالحمید ثانی کو بادشاہت سے معزول کیے جانے کے بعد سالونیکا بھیج دیا گیا۔ اسے خواتین سمیت بندرگاہ سے قید خانے تک بازار میں پیدل پھرایا گیا۔ 1912ء میں سالونیکا پر یونان کا قبضہ ہو گیا۔ سلطان‘ جو ماہر بڑھئی تھا‘ نے زندگی کے بقیہ نو سال قسطنطنیہ (استنبول) میں باسفورس کے کنارے نظربند بڑی کسمپرسی میں فرنیچر بنا کر بیچتے گزارے۔ اس کے ہاتھ کا بنا ہوا فرنیچر آج بھی استنبول کے یلدز پیلس میں موجود ہے۔ 10 فروری 1918ء کو وہ دنیا کے جھنجھٹوں سے آزاد ہو گیا۔
31 جولائی 2024ء کو اسماعیل ہنیہ بھی اپنے خاندان کے بیشتر افراد کی قربانی دینے کے بعد اللہ کے ہاں سرخرو ہو کر پہنچ گئے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر انہوں نے اپنے مالک سے ہماری شکایت کر دی تو ہمارا کیا بنے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved