پیر کے روز بنگلہ دیش تیسری بار' آزاد‘ ہو گیا اور ابھی پتا نہیں مزید کتنی بار آزاد ہو گا۔
پانچ اگست تک خود کو ایک مضبوط اور ایک لحاظ سے ناقابلِ تسخیر سمجھنے والی بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد آج سابق ہو کر بیرونِ ملک بیٹھی ہیں اور ان کے مستقبل کا کچھ پتا نہیں کہ کیا بنے گا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ وہ برطانیہ جلا وطن ہو جائیں گی اور شاید انہیں اپنی باقی زندگی اس جلا وطنی ہی میں گزارنا پڑے۔ بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے شدید مظاہروں‘ پُرتشدد احتجاج اور شہریوں کی بے رحمانہ ہلاکتوں کے بعد وزیراعظم حسینہ واجد نے پیر کے روز استعفیٰ دے دیا اور وہ ڈھاکہ میں اپنی رہائش گاہ سے بھارت روانہ ہو گئی تھیں‘ جبکہ بنگلہ دیش کے آرمی چیف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی سربراہ کے استعفے کی تصدیق کی اور ملک میں عبوری حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں ہفتوں جاری رہنے والے حکومت مخالف مظاہروں میں جھڑپوں کے دوران مرنے والوں کی مجموعی تعداد 300 سے تجاوز کر چکی ہے۔ بنگلہ دیشی صدر شہاب الدین نے احتجاجی طلبہ کے دباؤ پر پارلیمنٹ تحلیل کر دی ہے جبکہ سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو رہا کر دیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش پہلی بار 1971ء میں پاکستان سے الگ ہوا تھا‘ جسے وہاں کے لیڈروں نے آزادی کا نام دیا تھا جبکہ یہاں دھاڑوں کے ساتھ رویا گیا ۔ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب تلاش نہ بھی کیا جائے تو انفرادی طور پر سوچا ضرور جا سکتا ہے کہ اگر مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش نہ بنتا تو آج صورتحال کیا ہوتی؟ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کہاں اور کس مقام پر ہوتے اور جنوبی ایشیا کے اس خطے‘ اور اس سے چھوٹے دائرے میں لیا جائے تو برصغیر کے حالات کیا ہوتے؟ سقوطِ ڈھاکہ کے محرکات کیا تھے اور ان کے نتائج کیا برآمد ہوئے‘ اس پر پھر کبھی بات کر لیں گے۔ فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ شیخ حسینہ واجد نے اپنے والد کی طرز پر استبدادی حکومت چلانے کی کوشش کی‘ جس میں وہ ناکام ہوئیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جمہوری طرزِ حکومت میں طاقت کا استعمال کتنا مہلک ہوتا ہے۔
بنگلہ دیش دوسری بار 1975ء میں آزاد ہوا تھا جب وہاں کی فوج نے بغاوت کر دی تھی اور شیخ مجیب الرحمن کی جانبدارانہ و آمرانہ پالیسیوں‘ اقدامات اور اقربا پروری پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پورے حکمران گھرانے کا خاتمہ کر دیا تھا۔ صرف شیخ حسینہ اور ان کی ایک بہن بچی تھیں کیونکہ یہ دونوں اس وقت بیرونِ ملک تھیں۔ 1971ء کی صورتحال کے بعد بنگلہ دیش تو بنا لیا گیا لیکن اس کو چلانا اتنا بھی آسان نہ تھا جتنا شیخ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے سمجھ لیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھارت کے ساتھ خصوصی تعلقات قائم کیے کیونکہ بھارت کی عملی‘ فوجی اور مالی اعانت کے نتیجے میں ہی سقوطِ ڈھاکہ ممکن ہوا تھا۔ انہی تعلقات کا ایک نتیجہ 1973ء میں بنگلہ دیش بھارت دوستی کے معاہدے کی شکل میں نکلا تھا۔ بھارت نے مکتی باہنی میں ہر طرح کی امداد کی بنگلہ دیش سے بھاری قیمت وصول کی ۔ بھارتی فوج نے بنگلہ دیش خالی کرنے سے پہلے لا تعداد کارخانوں کی مشینری بھارت منتقل کر دی جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش صنعتی لحاظ سے ناکارہ ہو گیا ۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھارت کو بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت میں خصوصی مراعات دیں۔ ان خصوصی مراعات کی وجہ سے تجارتی معاملات میں بھارت کو بنگلہ دیش پر برتری حاصل ہو گئی اور بنگلہ دیش کی معیشت کئی حوالوں سے بھارت کی محتاج ہو گئی۔ اس پر مستزاد یہ کہ 1974ء میں بنگلہ دیش شدید قحط کا شکار ہو گیا۔ ان سارے معاملات اور مسائل نے بنگلہ دیش میں بے چینی کی لہر دوڑا دی اور عوام کی جانب سے عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمن کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ شیخ مجیب الرحمن نے اس بے چینی کو سختی سے دبانا چاہا۔ جب حالات زیادہ خراب ہوئے تو دسمبر 1974ء میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا۔ اس دوران آئین میں کئی ترامیم کی گئیں اور ملک میں صدارتی نظام نافذ کر دیا گیا۔ جنوری 1975ء میں شیخ مجیب صدر اور منصور علی وزیراعظم بن گئے۔ عوام میں پیدا ہونے والی بے چینی کو بنگلہ دیش کی فوج نے واضح طور پر محسوس کیا اور فوجی افسران کے ایک گروپ نے شیخ مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کے افراد کو 15 اگست 1975ء کے روز قتل کر دیا۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ بنگلہ دیش کو آزاد قرار دیا گیا۔
بنگلہ دیش تیسری بار اب پانچ اگست 2024 ء کو آزاد ہوا جب طلبہ کی جانب سے طویل احتجاجی مہم کے بعد فوج کی مداخلت پر شیخ حسینہ واجد کو وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی اور ساتھ ہی جلا وطن ہونا پڑا ہے۔ بنگلہ دیش میں مظاہروں کا آغاز جولائی میں طالب علموں کی جانب سے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے سلوگن کے تحت ہوا ۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام میں کردار ادا کرنے والوں کے بچوں کے لیے ملازمتوں میں کوٹہ رکھا گیا تھا۔ اس کوٹے کے تحت سول سروس کی 30 فیصد ملازمتیں انہی لوگوں کے بچوں اور آگے ان کے پوتے پوتیوں کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ مزید 26 فیصد ملازمتیں خواتین‘ پسماندہ اضلاع کے لوگوں‘ مقامی کمیونٹیز اور معذور افراد کے لیے مختص ہیں جبکہ صرف 44 فیصد ملازمتیں اوپن میرٹ پر تھیں۔ 30 لاکھ بے روزگار بنگلہ دیشی نوجوان اس کوٹہ سسٹم کو اپنی حق تلفی سمجھتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اس کوٹہ سسٹم کے خلاف لاوا ایک عرصے سے پک رہا تھا۔ مظاہرین کا مطالبہ پسماندہ اور کمزور طبقوں کے لیے مختص کوٹے کے خاتمے کا نہیں تھا بلکہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ بنگلہ دیش کے قیام کی جنگ میں حصہ لینے والوں کے بچوں اور اس سے آگے ان کے بھی بچوں کے لیے ملازمتیں مختص کرنا غیر منصفانہ ہے اور یہ کہ اس کوٹہ سسٹم کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے‘ لہٰذا اس کو ختم کیا جانا چاہیے۔ مظاہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ71 ء کی جنگ میں کردار ادا کرنے والے بنگالیوں اور ان کی اولادوں کا حصہ بنگلہ دیش کی مجموعی آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن سول سروس کی ایک تہائی ملازمتیں ان لوگوں کے لیے مختص کی گئی ہیں‘ جو اس ملک کی نوجوان نسل کے ساتھ زیادتی ہے اور دوسرا یہ کہ اس کوٹہ سسٹم کی وجہ سے کم اہلیت والے لوگ سرکاری ملازمتوں میں آ رہے ہیں جبکہ زیادہ اہل اور پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع اتنے ہی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف بنگلہ دیش میں اس سے پہلے بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوتے رہے ہیں‘ جیسے 2013ء اور 2018ء میں بھرپور مظاہرے ہوئے تھے‘ لیکن ان مظاہروں پر حسینہ واجد کی حکومت نے فوجی طاقت کے ذریعے قابو پا لیا تھا۔ حسینہ واجد کا خیال تھا کہ وہ اس بار بھی طاقت کے استعمال کے ذریعے احتجاج کرنے والوں کو گھر بھیج دیں گی‘ لیکن نتیجہ الٹا نکلا‘ مظاہرین نے حکومت ہی کو گھر بھیج دیا ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved