تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     08-08-2024

گئی وہ شب جو کبھی ختم ہی نہ ہوتی تھی

باکمال شاعر احمد مشتاق نے کہا تھا: ''گئی وہ شب جو کبھی ختم ہی نہ ہوتی تھی‘‘۔ ڈکٹیٹر اور فاشسٹ حسینہ واجدکو بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے جھکنا پڑا۔ وزیر اعظم ہاؤس ''گنا بھبھن‘‘ سے اپنی بہن کے ساتھ نکلیں اور وہی کیا جو ڈکٹیٹرز اپنے انجام کے آخری دنوں میں کیا کرتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر سے اپنے پشت پناہ ملک بھارت روانہ ہوئیں۔ اگرتلہ سے جہاز میں سوار ہوئیں اور دہلی کے قریب فضائیہ کے اڈے ہندو وَن ایئر فیلڈ پر اتریں۔ اب وہ وزیراعظم نہیں پناہ گزین تھیں‘ سو انہیں وہی حیثیت دی گئی۔ یہ وہ عورت ہے جس نے سینکڑوں بنگالیوں کا خون کیا اور اسے 'فولادی عورت‘ کہا جاتا تھا۔ اس طرح 1975ء سے اس کی بنگلہ دیش کی سیاست میں 50 سالہ موجودگی کا فی الوقت خاتمہ ہوا جس میں پندرہ سال کی مسلسل حکمرانی بھی شامل تھی۔ بنگالی عوام نے اسے آزادی کا دوسرا دن قرار دیا۔ ''گئی وہ شب جو کبھی ختم ہی نہ ہوتی تھی‘‘۔
22 جولائی 2024ء کو اپنے کالم میں بنگلہ دیش احتجاج کا تجزیہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا: ''کوٹہ سسٹم میں تبدیلی حکومت کی پہلی شکست ہو گی۔ یہ مخالفین کے حوصلے بلند کرے گی اور ایسے کئی معاملات سامنے آئیں گے‘‘۔ دس پندرہ دن کے اندر ہی یہ بات سامنے آگئی کہ کوٹہ سسٹم تقریباً ختم ہونے کے باوجود حسینہ واجد کی جان بچ نہیں سکی۔ کوٹہ سسٹم پیچھے رہ گیا اور معاملات طلبہ قیدیوں کی رہائی‘ حسینہ کے استعفے‘ شہادتوں کی عدالتی تحقیقات سے ہوتے ہوئے سول نافرمانی تک پہنچ گئے۔ عوامی لیگ اور حسینہ واجد سے نفرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ اب عوام حکومت گرائے بغیر کسی اور بات پر راضی ہی نہیں تھے۔
بنگلہ دیش سے تازہ خبریں یہ ہیں کہ طالب علم رہنما ناہد اسلام نے‘ جو ڈھاکہ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے طالبعلم ہیں اور جنہوں نے بہت تشدد سہا ہے‘ اپنے ساتھیوں کے ساتھ صدر اور آرمی چیف سے ملاقات کی ہے۔ ان کے مطالبات کے مطابق پارلیمنٹ تحلیل کر دی گئی ہے اور محمد یونس کو عبوری حکومت کیلئے چیف ایڈوائزر مقرر کر دیا گیا ہے۔ 84سالہ محمد یونس گرامین بینک کے بانی تھے جنہیں غربت ختم کرنے کی کوششوں کیلئے نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ حسینہ واجد حکومت نے ان پر غبن کا الزام لگایا تھا جس کا محمد یونس انکار کرتے ہیں۔ اس سے پہلے صدر محمد شہاب الدین کی سربراہی میں تینوں افواج کے سربراہوں نے عوامی لیگ کے سوا دیگر سیاسی رہنماؤں سے میٹنگ کی تھی جن میں خالدہ ضیا کی بی این پی اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں۔ ایک صدارتی حکم کے ذریعے خالدہ ضیا کو رہا کر دیا گیا ہے۔ دیگر سیاسی قیدی بھی رہا کردیے گئے ہیں۔ بنگلہ دیش پولیس فورس نے ہڑتال کردی ہے اور تحفظ ملنے تک ہڑتال کا اعلان کیا ہے اور عوام سے گولی چلانے پر معافی مانگی ہے۔ ڈھاکہ میں اندرا گاندھی کلچرل سنٹر جلا دیا گیا ہے اور چیف جسٹس کے گھر میں گھس کر لوٹ مار کی گئی ہے۔ ڈھاکہ میں عوامی لیگ کے لوگوں کی 29 لاشیں ملی ہیں۔ فوج میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ حسینہ واجد کو برطانیہ نے سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ امریکہ نے حسینہ واجد کا ویزا منسوخ کردیا ہے۔ وہ اس وقت بھارتی فوجی گیسٹ ہاؤس میں وقت گزار رہی ہیں۔
سوشل میڈیا وڈیوز اورتصاویر سے بھرا ہوا ہے۔ ہر دوسری وڈیو اور تصویر بنگلہ دیش کی ہے۔ ''میںرضاکار ہوں، تُو رضاکار ہے‘‘ کے نعرے لگاتا پُر جوش ہجوم‘ بانس کے ڈنڈے ہاتھ میں پکڑے سکیورٹی فورسز کو بھگاتا ہجوم‘ بکتر بند گاڑیوں پر پتھراؤ کرتا ہجوم۔ پھر حسینہ واجد کے فرار کے بعد ناچتے گاتے لڑکے لڑکیاں‘ مرد و خواتین۔ شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے توڑتے‘ انہیں گراتے نوجوان۔ فوجی گاڑیوں پر چڑھے ہوئے لڑکے اور خوش خوش دکھائی دیتے عوام کے ساتھ نعرے لگاتے فوجی۔ وزیراعظم ہاؤس میں گھس کر جشن مناتا جمِ غفیر۔ حسینہ کے گھر کھانے کی میز پر اپنی دعوت خود اڑاتے نوجوان۔ وزیراعظم ہاؤس سے آرائشی اور ضرورت کی اشیا مال غنیمت کی طرح اٹھا کر لے جاتے مرد و خواتین اور ان کا ساتھ دیتے سکیورٹی اہلکار۔ مرغیاں‘ بکرے‘ بطخیں‘ پرندے ٹرافی کی طرح سب کو دکھا کرگھر لے جاتے طالبعلم۔ اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں صرف چند گھنٹے قبل کسی کا پر مارنا بھی ممکن نہیں تھا لیکن انقلاب کی دھمک دہلیز پر تھی اور اتنی زور دار کہ اگر حسینہ واجد چند گھنٹے اور یہاں رہتیں تو ان کا انجام مرغیوں اور بطخوں سے بدتر ہونا یقینی تھا۔ حسینہ واجد کی سب سے بڑی حریف خالدہ ضیا تھیں۔ 78سالہ سابقہ وزیراعظم خالدہ ضیا اس وقت صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ انکی دو سال پہلے ٹرانسپلانٹ سرجری بھی ہوئی تھی۔ اس سرجری کیلئے انہیں بیرونِ ملک سفر کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ایسے میں خالدہ ضیا شاید خود کوئی اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہ ہوں۔
بے شمار سوالات ہیں۔ اور سب کے سب اہم۔ ایک کالم میں احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ پھر یہ بھی کہ ابھی ایک سوال پر بات مکمل نہیں ہوتی کہ کوئی تازہ ترین اہم خبر سامنے آجاتی ہے۔ مثلاً عبوری حکومت میں کون لوگ ہوں گے۔ کیا اسلام پسندوں کا عبوری حکومت میں غلبہ ہو گا؟ کیا عوامی لیگ کی سیاست ایک دو عشروں کیلئے ختم ہوگئی؟ کیا عوامی لیگ کے حامیوں پر مقدمات چلیں گے؟ بآسانی مردوں‘ نوجوانوں اور دائیں بازو کے کارکنوں کو قتل کر دینے والی اور پھانسیوں پر چڑھا دینے والی حسینہ واجد آخر کس لیے مجبور ہو گئی کہ استعفیٰ دے کر نکل جائے؟ فوج نے اسے صرف45منٹ کی مہلت کیوں دی اور کیوں الوداعی تقریر کی بھی اجازت نہیں دی گئی؟ فوج کا ساری تبدیلی میں کیا کردار ہے؟ عوام اور فوج کا تصادم کیوں نہیں ہوا اور انقلابی کس حد تک فوج پر اعتماد کر سکتے ہیں؟ انتہائی اہم سوال یہ کہ تبدیلی پاکستان کیلئے کیا خبر لائی ہے اور بھارت کی مضبوط حلیف حسینہ واجد کے رخصت ہو جانے کے بعد بھارت کن مسائل سے دوچار ہو گا؟ ان سب سوالا ت کے جواب اور تجزیے انہی تحریروں میں ان شاء اللہ شامل کرتا رہوں گا۔
عبوری حکومت کے بارے میں یہ ہے کہ فوج اس وقت طالبعلم رہنماؤں کے مطالبات کو وزن دینے پر مجبور ہو گی‘ عوام کے سامنے کھڑے ہونا ممکن نہیں ہو گا‘ تاہم فوج کی کوشش ہو گی کہ ممکنہ حد تک کنٹرول ان کے ہاتھ میں رہے۔ منزل پر پہنچ جانے کے بعد طالبعلم رہنما کس حد تک دانشمندی اور تدبر کے ساتھ مستقبل گیر فیصلے کر سکیں گے؟ یہ ان کا بڑا امتحان ہو گا۔ یہ تاثر عام تھا کہ بھارتی منشا اور منظوری کے بغیر بنگلہ دیش کا آرمی چیف نہیں لگایا جا سکتا‘ تاہم موجودہ چیف وقار الزماں کا جھکاؤ چین کی طرف بتایا جاتا ہے۔
عبوری حکومت میں اگرچہ اس طرح بھارت نواز عناصر شامل نہیں ہوں گے جیسے حسینہ واجد حکومت میں تھے لیکن کسی انقلابی تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ محمد یونس بھارت مخالف نہیں سمجھے جاتے۔ البتہ تمام تر باگ ڈور محمد یونس کے ہاتھ میں بھی نہیں ہوگی۔ دائیں بازو کے لوگوں اور اسلام پسندوں کا اگر غلبہ نہ بھی ہو تب بھی ان کی نمائندگی عبوری حکومت میں ہو گی۔ یہ طے ہے کہ عوامی لیگ کے منظورِ نظر سرکاری اہلکار‘ جج‘ سینئر بیورو کریٹ‘ سفیر وغیرہ تبدیل ہوں گے۔ عوامی لیگ نے اپنے حامی افراد پورے نظام میں بھر دیے تھے۔ ان سے جان چھڑاتے کافی وقت لگے گا۔ عوامی لیگ کی مسلح طلبہ تنظیم بنگلہ دیش چھترا لیگ پر بظاہر قتل کے مقدمات چلائے جائیں گے۔ عوامی لیگ کا سنہرا دور بظاہر ختم ہو گیا۔ وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی کوئی بڑی اور مقبول شخصیت موجود نہیں ہے۔ کوئی مانے نہ مانے دینی حلقوں نے تختہ الٹنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب جماعت اسلامی اور دیگر دینی حلقوں کیلئے بھی آزمائش کا وقت ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جماعت اسلامی پر پابندی ہٹوانے کا راستہ آسان ہو گیا ہے۔
یہ ختم نہ ہونے والی شب تو ختم ہو گئی لیکن کیا صبح جلد نکل آئے گی‘ اسی سوال کا انتظار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved