حکمران طبقات کی سیاسی اور سماجی نفسیات بہت مختلف ہوتی ہے‘ بلکہ ہر ایک شخص کی بھی۔ فرد اور معاشرے‘ ان کی ذہنی ساخت‘ رویے اور ثقافتیں معاشی محرکات کے تابع ہوتی ہیں۔ بے شک آپ مارکسی نظریات کو طاقت کے زور پر سمندروں میں کہیں دور پھینک آئیں‘ ان کی طبقات کے حوالے سے کچھ سچائیاں ہر نوع کے اقتصادی نظاموں میں سیاست کو سمجھنے میں‘ آج کے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں بھی‘ کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہر دور کی طرح آج کے دور کا بنیادی مسئلہ دراصل معاشی مسئلہ ہے کہ دولت کیسے پیدا ہوتی ہے‘ پیداواری وسائل کس کی دسترس میں ہیں‘ اور اقتصادی ترقی اور ملکی ذرائع کون‘ کس طرح تقسیم کرتا ہے۔ بنگلہ دیش ہو یا ہمارے ملک میں ماضی کی سیاسی تحریکیں‘ سب کا رنگ طبقاتی تھا۔ یہاں طبقات کی کشمکش کلاسیکی مارکسی نظریات کے حوالے سے ہر گز نہیں کہ گزشتہ ایک صدی سے کہیں زیادہ عرصہ میں دنیا میں بے شمار فلاسفر اور دانشور پیدا ہوئے جنہوں نے مارکسیت کی دورِ جدید کے مسائل کے حوالے سے تشریح کی۔ ممکن ہے زیادہ تر قارئین کے لیے انتونیو گرامسچی (Antonio Gramsci) کا نام اجنبی ہو۔ تقریباً ایک سو سال پہلے اس نے حاویت‘ غلبہ اور ثقافتی تسلط کی بات کی تھی کہ لوگوں کے ذہن تعلیم‘ ثقافت‘ ایک مخصوص طرزِ زندگی اور خوشحالی کے خواب دکھا کر ایک مخصوص رُخ میں متعین کیے جا سکتے ہیں۔ نظریات‘ قد آور شخصیات کے کرشماتی کردار اور بے شمار من گھڑت سیاسی مسیحا تصوراتی انداز میں تیار کیے جاتے ہیں۔ نظام اسی طرح رہتا ہے‘ ہر دور میں نئے کردار سامنے آ جاتے ہیں۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے نہ گرامسچی کو پڑھنے‘ نہ کسی اور مفکر کے فلسفوں میں سر کھپانے کی ضرورت ہے۔ صرف معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں‘ اٹھنے والی تحریکوں اور ان کے سیاسی رنگوں کو اقتصادی اور سیاسی پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
دراصل بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک کی کامیابی اور پاکستان کی تاریخ میں دو ایسی کامیاب تحریکوں کے کچھ سماجی محرکات کی طرف آپ کی توجہ دلانا مقصود ہے۔ گرامسچی نے مخصوص طبقات کے غلبے کا توڑ ''آزادی‘‘ میں بتایا تھا۔ اس کے خیال میں لوگ بے بنیاد نظریات تراشے ہوئے لیڈر شپ کے بت اور ان کے پروپیگنڈا کو ''آزادی‘‘ کے زور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ آزادی کا جذبہ پڑھے لکھے‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد میں شعوری ہے۔ لیکن عوام کی سطح پر بغیر کسی گہرے تجزیوں کے فطری طور پر حالات کے جبر کے خلاف غیر شعوری طور پر یہ جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔ جب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف طلبہ نے تحریک چلائی‘ جس کے پیدل دستوں میں یہ درویش بھی شامل تھا‘ شعوری طور پر معاشی ناہمواری‘ دولت کا ارتکاز اور حکمران طبقات کا گٹھ جوڑ تھا۔ ایوب خان صرف آمر نہیں تھا بلکہ ایک لحاظ سے کامیاب سیاستدان تھا۔ اس نے صنعتی‘ قبائلی اور جاگیر دار طبقات کو ریاستی اداروں اور نوکر شاہی کے ساتھ جوڑ کر ایک نظام تشکیل دیا۔ مقصد یہ تھا کہ ان کی سرپرستی میں یہ گٹھ جوڑ سیاسی استحکام پیدا کرے گا‘ معاشی ترقی ہوگی اور پاکستان آگے بڑھے گا۔ اس سوچ کے پیچھے ایک اور نظریہ تھا کہ امریکہ اور یورپ کے دفاعی حصار میں رہیں اور آزاد آئینی جمہوریت کو لگام دے کر‘ نظام کی حاکمیت کو قائم اور دائم رکھیں۔ اس کے خلاف نظریاتی فکر اور تجزیہ سیاستدانوں میں نہیں بلکہ جامعات‘ ترقی پسند دانشوروں‘ شاعروں‘ ادیبوں کی بیٹھکوں اور مزدور رہنماؤں کی مجلسوں میں ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو تقریباً ایک دہائی تک ایوبی نظام کا حصہ تھے۔ ان کی ذہانت اور موقع شناسی اور قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرنا ہوگا کہ انہوں نے معاشرے میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی اور نچلے درمیانی طبقے کی بے تابی کو سیاسی رنگ میں ڈھال دیا۔
ایوب مخالف تحریک آخری تجزیے تک طلبہ اور نوجوانوں کی تحریک تھی۔ ڈنڈے انہوں نے کھائے‘ جان کی قربانیاں بھی دیں‘ جیلیں کاٹیں مگر اس کا پھل جسے ملنا تھا‘ اسے مل گیا۔ مشرقی پاکستان‘ موجودہ بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک زیادہ منظم اور متفرق تھی۔ جب آمریت کا سحر طلبہ تحریک سے ٹوٹنے لگا تو سیاسی جماعتیں بھی میدان میں آنا شروع ہو گئیں۔ راستے کے بھاری پتھر اور کانٹے تو نوجوانوں نے چنے تھے‘ اس کے بعد جو قافلے آئے‘ اور جب سیاست ان کے ہاتھ میں چلی گئی جو ریاستی اداروں کے زور پر آئے تو پھر طلبہ تحریک کے نامور لوگ سیاسی جگہ بنانے کی تگ و دو کرتے رہے‘ اور صرف چند ہی کامیاب ہو سکے۔ باقی قومیائے گئے صنعتی اداروں میں کھپائے گئے اور سر پرستانہ نظام کا حصہ بن گئے۔ دوبارہ کہتا ہوں کہ ایوب خان کے خلاف تحریک لوئر مڈل کلاس نوجونوں اور دانشوروں کی تھی۔ سیاسی جماعتوں میں بھی زمینی سطح پرکارکنوں کا تعلق اسی طبقے سے تھا۔ حکمران طبقات نے صرف وفاداریاں تبدیل کیں‘ ایوب کی کشتی ڈوبنے لگی تو بھٹو کے جہاز میں جگہ بنا لی۔ بھٹو نے بھی وہی کیا جو ایوب خان نے کیا تھا‘ کہ جاگیردار طبقے کو اپنی پارٹی میں لے آئے اور ریاستی اداروں اور نوکر شاہی کو اپنی پارٹی کے تابع کر دیا۔ منصوبہ بندی یک جماعتی نظام کی تھی کہ غالب پارٹی ایک ہی ہو گی اور فیوض و برکات کا سرچشمہ اسی کے ہاتھ میں ہو گا‘ اور جو اس کے خلاف آواز اٹھائے گا‘ اسے بزور قوت دبا دیا جائے گا۔ تاریخ تو یہی ہے‘ باقی آپ جو مرضی رنگ دے لیں۔
بھٹو صاحب کو 1977ء میں کہیں سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ جس طرح وہ بڑے جلسوں میں گرجتے تھے کہ ''میری کرسی مضبوط ہے‘‘ ان کو یہ پتا نہیں تھا یا طاقت کے زعم میں بھول گئے تھے کہ اسے اندر سے دیمک بھی لگ سکتی ہے۔ ایک اور بات کہ ان کے خلاف جو بھی ہوا‘ کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وقت سے پہلے انتخابات کا اعلان کیا اور پھر دھاندلی کا عالمی ریکارڈ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ سوچتا ہوں کہ وہ یہ انتخابات نہ کراتے‘ یا شفاف اور آزادانہ ہی کراتے تو پھر بھی وہی کامیاب ہوتے‘ اور ہماری تاریخ مختلف ہوتی۔ ان کے مخالف قومی اتحاد کی نوجماعتوں کی تحریک بھی کوئی عام تحریک نہیں تھی۔ اس کے بھی ہم عینی شاہد ہیں۔ اس کا ہراول دستہ بھی نوجوان تھے‘ مگر ان کا تعلق جماعت اسلامی اور نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔ دیگر جماعتوں کا ایسا کارڈ موجود نہ تھا۔ اس تحریک کا پس منظر معاشی تھا اوراس میں انتہائی اہم کردار منڈی اور بازار کا تھا۔ تاجر یا دکاندار طبقے کی طاقت کو آپ کبھی ہلکا نہ لیں۔ بالکل آج کے بنگلہ دیش کی کیفیت تھی کہ ایف ایس ایف‘ پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم اور پولیس گولیاں برساتے‘ ڈنڈے مارتے مگر اگلے روز لوگ پھر اکٹھے ہو جاتے۔ اس وقت سوشل میڈیا نامی کوئی چیز نہیں تھی۔ خبر بی بی سی کے مارک ٹیلی کی سنی جاتی تھی جو ہماری نسل کے لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔ کرفیو لگا اور بڑے شہر فوج کے حوالے کردیے گئے۔ اس تحریک میں دوسو کے قریب نوجوانوں نے جان کی قربانی دی۔ تب بھی وہی ہوا جو بنگلہ دیش میں اب ہوا ہے۔ غیر جمہوری قوتیں میدان میں آگئیں اور پھر جمہوری چراغ بجھ گیا‘ اور ریاست افغانستان کی آزادی میں مصروف ہو گئی۔ ہم راہ سے ایسے ہٹے کہ ابھی تک نشانِ منزل کا پتا نہیں مل سکا۔ اس خطرناک کھیل میں وقتی سوچ‘ شخصی اقتدار اور ایک خاص طرز کے افکار غالب رہے۔ کچھ زیادہ نہیں کہنا چاہتا کہ ہم اس کے نتائج انتہا پسندی اور دہشت گردی کی صورت دیکھ رہے ہیں۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved