تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     09-08-2024

بات چیت سے مسائل کا حل

ملک میں جاری سیاسی جنگ میں سیاسی جماعتیں مالِ غنیمت سمیٹ رہی ہیں جبکہ مقتدرہ کے حصے میں ہر طرف سے برائی آ رہی ہے۔یہاں تک کہ حکومت میں شامل جماعتیں بھی اپنی خراب گورننس کو مقتدرہ کے کھاتے میں ڈال رہی ہیں۔اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک سیاسی‘ آئینی‘ معاشی اورسکیورٹی عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک موجود نہیں ہے جو اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا کرتا ہو۔ لیکن ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود پاکستان میں سانحہ نو مئی کے ذمہ داران کو کوئی سزا نہیں دی جا سکی۔ جبکہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے ایک حالیہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ نو مئی سے متعلق فوج کے مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے‘ نہ آئے گی۔فسادات کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ سانحہ نو مئی ایک قومی سانحہ تھا۔اُس روز شدت پسند عناصر نے ملک کے بہت سے شہروں میں دفاعی تنصیبات پر حملہ کیا اور حساس عمارتوں کو نذرِ آتش کیا۔ اس قومی سانحے پر پچھتاوے کے بجائے بانی پی ٹی آئی کا یہ کہنا ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کرنا جرم ہے۔اس قسم کا بیان شر پسندوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے اُنکے اس بیان پر کسی قسم کا ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ جی ایچ کیو کوئی عام عمارت نہیں بلکہ افواجِ پاکستان کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اس عمارت کے باہر موجود عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچانا یا اس عمارت کے باہر احتجاج کرنا افواجِ پاکستان کے خلاف ہی تصور کیا جائے گا۔ایسے حالات میں مقتدرہ مذاکرات کیلئے کیسے آگے بڑھے گی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بینچ کے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر دو اراکین نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ 'پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کیلئے آئین کے آرٹیکل 51‘ آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا‘۔یہ اختلافی نوٹ ہمیں ماضی کی طرف لے گیا ہے جب فلور کراسنگ کیس میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین کے آرٹیکل 63 کی تشریح کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ فلور کراسنگ کرنے والے اراکینِ اسمبلی ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں لیکن ان کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت بھی ہمارا مؤقف یہی تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 کی غلط تشریح کی گئی ہے اور آئین سے بالا فیصلہ دیتے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اُس وقت اس فیصلے کے خلاف جو اختلافی نوٹ لکھا گیا تھا اُس میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے میں آئین کی نئی تشریح کی گئی ہے‘ جو آئین کے خلاف ہے۔ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر اختلافی نوٹ سامنے آنے کے بعد عدالت بظاہر تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے جس سے آئینی بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ دراصل مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104 کے مطابق تھا۔ الیکشن کمیشن کا یہ نکتہ کافی اہم ہے کہ تحریک انصاف الیکشن ایکٹ کی دفعہ205‘ 209 اور 215 کے تحت بطور سیاسی پارٹی اپنا وجود کھو چکی ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین‘ کور کمیٹی اور سیکرٹری جنرل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ پارٹی نے پانچ سال سے الیکشن ایکٹ کے مطابق پارٹی الیکشن نہیں کرائے‘ جب پارٹی کا کوئی سیاسی وجود ہی نہیں رہا تو اس کے اراکین مخصوص نشستوں کے کاغذاتِ نامزدگی پر کس حیثیت سے دستخط کریں گے۔ یہ اہم نکتہ اٹارنی جنرل کو الیکشن کمیشن کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل کرنا چاہیے تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 12 جولائی کے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں دائرکردی ہے۔ نظرثانی درخواست میں سنی اتحاد کونسل‘ ایم کیوایم‘ پیپلزپارٹی‘ (ن) لیگ اور دیگرکو فریق بنایا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے درخواست میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو عدالتی فیصلے میں ریلیف دیا گیاجو کیس میں فریق نہیں تھی‘ آزاد ارکان نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ فیصلے میں کچھ ایسے حقائق کومان لیا گیا جو عدالتی ریکارڈ پر نہ تھے۔ آزاد حیثیت سے جیتنے والے 80 ارکان نے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ان ارکان نے اپنی شمولیت کے ڈکلیئریشن جمع کرائے۔ سپریم کورٹ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دے دیا۔ 41 ارکان کو دوبارہ پارٹی وابستگی کا موقع فراہم کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کو معاملے پر مؤقف دینے کا موقع نہیں دیا گیا‘ سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کے احکامات امتیازی اور ایک پارٹی کے حق میں ہیں‘ فیصلے میں آئین وقانون کے آرٹیکلز اور شقوں کو نظر انداز کیا گیا اور مختصر فیصلے میں عدالتی دائرہ اختیار سے تجاویزکیا گیا۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی دو کیٹیگری میں تقسیم بھی غلط کی گئی۔
اگر سیاسی معاملات کی بات کریں تو ایک کھچڑی پکتی نظر آ رہی ہے۔ شنید ہے کہ صدرِ پاکستان نے اپنے قریبی ساتھی نیر بخاری کے ذریعے (ن)لیگ کو پیغام بھجوایا ہے کہ اگر خواجہ آصف جیسے وفاقی وزرا بھی ملک میں نئے انتخابات کے خواہاں ہیں تو نئے انتخابات کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شہباز شریف کی حکومت پر گرفت کمزور ہے لہٰذا ملک میں نئے انتخابات سے ملک میں سیاسی طور پر سکون آ جائے گا۔اقوامِ متحدہ سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ نئے انتخابات کی نگرانی کیلئے اپنے مبصرین پاکستان بھیجے۔ دسمبر 2008ء میں بنگلہ دیش میں جو انتخابات منعقد ہوئے تھے‘ ان کی نگرانی بھی اقوامِ متحدہ کے مبصرین نے کی تھی۔ میں بھی تب بطور مبصر بنگلہ دیش میں موجود تھا۔
بنگلہ دیش کا ذکر چل نکلا ہے تو وہاں ہونے والی حالیہ ڈویلپمنٹ کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ حسینہ واجد مستعفی ہونے کے بعد ابھی تک بھارت میں پناہ گزین ہیں۔ صدر شہاب الدین اسمبلی تحلیل کر چکے ہیں اور ڈاکٹر محمد یونس نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا کنٹرول سنبھال لے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پاکستان کے برعکس بہت مضبوط پوزیشن میں ہے لیکن اس سے پہلے جماعت اسلامی کو اپنے اوپر لگی پابندی ختم کرانا ہو گی۔ ایک بات البتہ تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ حسینہ واجد کے دور میں بنگلہ دیش نے معاشی لحاظ سے کافی ترقی کی۔ اسکی ایک وجہ سیاسی استحکام بھی ہے۔ 15سال تک متواتر حسینہ واجد بنگلہ دیش کی حکمران رہیں۔ اگر وہ تدبر اور معاملہ فہمی سے کام لیتیں اور جبر و استبداد کو ترک کر دیتیں تو تاحیات بنگلہ دیش کی حکمران رہ سکتی تھیں مگر انکے فاشست اقدامات‘ عوام پر گولی چلانے کے احکامات اور آمرِمطلق بننے کی خواہش نے انہیں یہ دن دکھایا۔ پاکستان میں ایک عرصے سے بنگلہ دیش ماڈل اپنانے کے حوالے سے باتیں ہوتی رہی ہیں‘ کیا بنگلہ دیش ماڈل کی باتیں کرنیوالے اس ساری صورتحال کے بعد بھی یہ ماڈل اپنانے کا مشورہ دیں گے؟
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا پاکستان میں بھی بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں تو پاکستان میں نہ تو کسی سیاسی جماعت کے کارکن اور نہ ہی عوام اس حد تک جا سکتے ہیں ‘ لیکن بنگلہ دیش کے حالات کا پاکستان پر بھی گہرا اثر پڑتا نظر آ رہا ہے۔ بہر حال ملکِ عزیز اس وقت جس اندرونی خلفشار کا شکار ہوچکا ہے اس کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ صدرِ مملکت‘ وزیراعظم‘ چیئرمین سینیٹ‘ سپیکر قومی اسمبلی‘ سکیورٹی اداروں کے سربراہان اور دیگر تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں اور ملک و قوم کو درپیش مسائل کا بات چیت کے ذریعے کوئی دیرپا اور پُرامن حل نکالیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved