تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     10-08-2024

علامہ اقبال نے فرمایا…

میری نسل کے اردو میڈیم لوگ نصابی کتابوں سے یہ سیکھ کر آئے ہیں کہ 'فرمانا‘ ایک بڑا کام ہے۔ یہ بڑی شخصیات ہی کو زیبا ہے کہ وہ کچھ فرمائیں۔ عام لوگ تو 'کہتے‘ ہیں۔ مذہبی شخصیات کے علاوہ قومی سطح پر ہمیں یہ سکھایا گیا کہ یہ منصب چند حضرات ہی کے لیے خاص ہے۔ ان میں قائداعظم اور علامہ اقبال سرِفہرست ہیں۔ ان نصابی کتب کے مطابق فرمانے کے جملہ حقوق اگرچہ انہی کے نام خاص نہیں ہیں لیکن مناسب یہی ہے کہ یہ حق کسی اور کو نہ دیا جائے۔
جہاں تک اقلیمِ شعر کا معاملہ ہے تو اس کی حاکمیت ہمارے خیال میں بلا شرکتِ غیرے علامہ اقبال کے پاس ہے۔ ہم جب بھی کوئی اچھا شعر سنتے ہیں یا جو ہمارے ذوق کے مطابق اچھا ہے‘ تو ہم بلا تردد اسے اقبال کے نام منسوب کر دیتے ہیں کہ ان کے علاوہ کون ہو سکتا ہے جو ایسا اچھا شعر کہے اور مملکتِ شعر میں ان کی ہم سری کا دعویٰ دار ہو۔ اب 'تندیٔ بادِ مخالف‘ ہی کو لیجیے! اقبا ل کے سوا کون ہے جو عقاب کو یہ مشورہ دے کہ وہ اس سے گھبرائے نہیں۔ ہمارا خیال تھا اور ہے کہ عقاب کا گزر چونکہ اقبال کی اقلیمِ شعر سے اکثر ہوتا ہے اور اقبال کے ساتھ اس کے تعلقات گھریلو ہیں‘ اس لیے وہ اقبال کی بات کو محسوس نہیں کرتا اور ٹالتا بھی نہیں۔ ورنہ کون ہے جو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے حکم کے لہجے میں نصیحت کر سکتا ہے۔ ان کے کہنے پر شاہین نے آج تک چٹانوں میں آشیانہ نہیں بنایا۔ اس لیے ہم نے پورے یقین کے ساتھ اس ناصحانہ شعر کو اقبال سے منسوب کر دیا۔ سخن شناس پیٹتے رہے کہ یہ سید صادق حسین کا شعر ہے مگر ہماری نسل نے نہیں مانا۔ یقین نہ ہو تو سوشل میڈیا سے پوچھ لیجیے۔
ہم نے اقبال کے شاعری سے عمل کا درس لیا۔ ہم نے جانا کہ فرد ہو یا قوم‘ ان کی تقدیر ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جب ہم نے ایک شعر سنا جس میں بتایاگیا کہ خدا اس قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت بدلنے پر آمادہ نہیں تو دل نے کہا کہ یہ بات اقبال ہی کہہ سکتے ہیں۔ چونکہ اقبال قرآن شناس بھی ہیں اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے بھی فرمائی ہے‘ اسی لیے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ قرآن مجید کی حکمت سے ماخوذ بات کوئی دوسرا کہے۔ ہم نے بلا تکلف و بلا توقف اسے اقبال کے نام کر دیا۔ ادب کے نقاد پھر آڑے آئے کہ یہ شعر مولانا ظفر علی خان کا ہے۔ ہم نے مان کر نہیں دیا۔ اب اگر عالمِ بالا میں اقبال اور مولانا کی روحیں تڑپ رہی ہوں تو ہمیں اس سے کیا۔ دنیا میں ان حضرات کے باہمی تعلقات خوشگوار تھے۔ ہمارا گمان ہے کہ وہاں بھی دونوں نے حسنِ ظن سے کام لیا ہوگا اور اپنے محبین کو معاف کردیا ہو گا کہ ایک دو اشعار کی خاطر اپنے تعلقات کیوں خراب کریں۔
کئی اشعار ایسے بھی ہیں جو ہمیں پسند ہیں مگر ساتھ ہی یہ علم ہے کہ وہ اقبال کے نہیں‘ کسی اور شاعر کے ہیں۔ انہیں پڑھتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ کاش یہ اقبال نے کہے ہوتے۔ گمان ہوتا ہے کہ انہیں عمر نے مہلت نہ دی ورنہ وہ یہ ضرور فرما کر جاتے۔ یہ خیال بھی آتا ہے کہ عالمِ ارواح میں ممکن ہے کسی نے نقب لگائی ہو اور ان کے خیالات کو جان لیا ہو کہ لوگ اس عالم تک رسائی رکھتے ہیں۔ یا اقبال نے خواب میں بتا دیا ہو۔ ہمارا دل بہر حال نہیں چاہتا کہ کوئی اچھا شعر کسی اور کے 'نامۂ اشعار‘ میں درج ہو۔ کچھ لوگ اس معاملے میں ہماری معاونت کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا کی معرفت اسے اقبال سے منسوب کرنے کی مہم پر ہیں۔ ہم اس کارِ خیرمیں ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔
سوشل میڈیا کے ان محققین کی کاوشوں اور روحانی تصرفات پر اعتماد کرتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ عنقریب ایک ایسا ضخیم مجموعہ تیار ہو جائے گا جو ایسے اشعار پر مشتمل ہوگا جو علامہ اقبال کی زندگی میں یا پسِ مرگ ان کے نام سے منسوب ہوئے۔ مقدمہ یہ ہوگا کہ یہ اشعار اقبال کے ہی ہیں۔ اس کے کئی دلائل متوقع ہیں۔ ایک یہ کہ فلاں نے اپنی تقریر میں انہیں علامہ اقبال کے اشعار قرار دیا اس لیے آئندہ سے یہ اقبال کے شعر شمار ہوں گے۔ دوسری دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ اس تسلسل کے ساتھ اقبال کے نام منسوب کیے گئے ہیں کہ اسے تواتر کا درجہ ہے اور تواتر سے بڑی دلیل کوئی نہیں۔ دلائل اور بھی ہو سکتے ہیں مگر وہ ان منکرین کے لیے ہوں گے جو ان براہینِ قاطعہ کے انکار کرنے کی جسارت کریں گے۔ جو بھوت باتوں سے نہ مانیں ان کا علاج تو آپ کو معلوم ہے۔
انگریزی میڈیم والے البتہ آسودہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ اقبال ہوں یا قائداعظم‘ انہیں ان کے فرمودات سے کچھ ایسی دلچسپی نہیں۔ ان کے لیے یہ معلومات بہت ہیں کہ ان ایام کو چھٹی ہوتی ہے جب یہ حضرات دنیا میں تشریف لائے۔ قائد کا یہ احسان ان کے لیے کافی ہے۔ رہی یہ بات کہ پاکستان بھی قائد کا احسان ہے‘ انہیں اس بات سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ ان کے گھر والوں نے ان کو یہ بتایا ہے کہ انہیں اپنا مستقبل مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں تلاش کرنا ہے۔ وہیں انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے اور وہیں ایک شاندار مستقبل ان کا منتظر ہے۔ پاکستان کی یہ اہمیت کافی ہے کہ ان کے والدین یہاں سے کما کر وہاں بھیج رہے ہیں تاکہ وہ مہنگی تعلیمی اسناد خریدیں اور وہیں اپنی نوکری پکی کریں۔ والدین کے ریٹائر ہونے تک ان کی نوکری لگ جائے گی اور وہ بھی بچوں کے پاس ایک آسودہ زندگی گزارنے وہیں پہنچ جائیں گے۔
دوسرا یہ کہ انگریزی لغت بھی 'کہنے‘ اور 'فرمانے‘ کے چکر میں نہیں پڑتی۔ حفظِ مراتب ہماری تہذیبی قدر ہے۔ یہ ہم ہیں جو چھوٹوں کے لیے شفقت اور بڑوں کے لیے احترام روا رکھتے ہیں۔ یہاں چھوٹے 'کہتے‘ اور بڑ ے'فرماتے‘ ہیں۔ انگریزی میڈیم والے اس طرح کے اسالیبِ کلام کے تردد میں پڑھتے ہی نہیں۔ ان کے نزدیک سب کہتے ہیں 'فرماتا‘ کوئی نہیں۔ اسی لیے کوئی اتنا معتبر بھی نہیں کہ اس کی بات پر غیرمشروط ایمان لایا جائے۔
ہر زبان کی طرح اردو ہماری تہذیب کا دروازہ ہے۔ یہ دروازہ نئی نسل کے لیے بند ہو رہا ہے۔ اقدار کے ساتھ‘ افراد سے بھی اس کا رابطہ ختم ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں کسی تقریب‘ ریستوران‘ دکان میں چلے جائیں‘ والدین اپنے بچوں کے ساتھ انگریزی میں بات کرتے ملیں گے‘ درآں حالیکہ وہ اردو جانتے ہیں۔ بعض اوقات تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ انگریزی بولتے ہوئے وہ تکلف محسوس کر رہے ہیں۔ وہ یہ مشقت اس لیے اٹھا رہے ہیں کہ کہیں ان کے بچوں کی زبان اردو سے آلودہ نہ ہو جائے۔ اب جو اردو نہیں جانتا وہ اقبال کو کیا جانے گا۔ اس کی بلا سے اقبال نے کچھ فرمایا ہے یا کہا ہے۔
جو اردو جانتے ہیں‘ ان کی اقبال شناسی کا ماخذ سوشل میڈیا ہے۔ یہ وہ بازار ہے جس میں ہر شے بکتی ہے‘ صرف بیچنے کا فن آنا چاہیے۔ اسلام ہو یا اقبال‘ آپ ان کے نام جو کچھ بھی منسوب کر دیں‘ اسے بلا تحقیق پھیلا دیا جائے گا۔ آپ لاکھ فریاد کرتے رہیں کہ اسلام اور اقبال اس سے بری ہیں‘ کوئی آپ کی نہیں سنے گا۔ اس کے بعد اس سوال کی کوئی اہمیت باقی ہے کہ اقبال نے فرمایا یا کہا؟ یہ ہم جیسوں کا مسئلہ ہے جن کا خیال ہے کہ اقبال اور قائد جیسے لوگ فرماتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved