تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     10-08-2024

سہاروں کی زندگی کب تک؟

یوں تو یہ ساری غزل ہی مرصّع ہے مگر شاعر نے درج ذیل مصرع نہایت جذب و سوز میں ڈوب کر کہا ہے:
توہینِ زندگی ہے سہاروں کی زندگی
بعض افراد ہی نہیں بہت سی قومیں بھی اس توہین کو اپنا وتیرہ بنا لیتی ہیں۔ وہ پتّہ مار کر کام کرنے‘ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے‘ محنت کو اپنا شعار بنانے اور اپنے بل بوتے پر جینے کی بجائے سہاروں کی زندگی کو کمالِ زندگی سمجھنے لگتی ہیں۔ افریقہ‘ ایشیا اور جنوبی امریکہ میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جنہوں نے ہمارے والا ہی اسلوبِ حیات اختیار کر رکھا ہے۔ مگر آپ کو سہاروں کی زندگی جینے والے ملکوں کی طویل فہرست میں ہمارے علاوہ کوئی اور ایٹمی قوت نہیں دکھائی دے گی۔
ہمارے وزیراعظم‘ وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ گزشتہ کئی ہفتوں سے پریشان تھے کہ قرض خواہوں کو ادائیگی کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ اگر ہم بروقت اُن ملکوں کا قرض ادا نہیں کرتے تو کیا بنے گا۔ بہرحال ہر سطح پر منت ترلے کیے گئے اور در پردہ یقین دہانیاں کرائی گئیں کہ ہماری فاقہ مستی اب رنگ لانے کو ہے۔ چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ہماری درخواست یہ تھی کہ وہ ہمارے ذمے اپنے قرضوں کی ادائیگی تین سے پانچ سال تک کیلئے مؤخر کردیں ۔مگر انہوں نے ہمیں 12 بلین ڈالرز کے قرضے کے ادائیگی کیلئے صرف ایک سال کی مہلت دی ہے۔ اُن کی اس مہلت سے ہمیں آئی ایم ایف سے مزید سات بلین ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکیج ملنے کی امید جگمگا اُٹھی ہے۔ ''بیل آؤٹ‘‘ آپشن تو کسی ایمرجنسی میں اختیار کی جاتی ہے۔ مگر ہم کئی دہائیوں سے ''بیل آؤٹ پیکیج‘‘ کے سہارے ہی زندگی گزار رہے ہیں۔ بسا اوقات ہم بین الاقوامی کمرشل بینکوں سے زیادہ شرح سود پر رقم ادھار لے کر پہلے قرضوں کے سود کی اقساط ادا کرنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ یہ جینا بھی کوئی جینا ہے۔ ہم تو اس توہین آمیز جینے کے ہاتھوں مرچلے ہیں۔ہمارے بڑے اقتصادی مسائل میں سرفہرست تجارتی خسارہ ہے۔ اس خسارے سے مراد برآمدات و درآمدات کا درمیانی فرق ہے۔ ہمارا تجارتی خسارہ 24.09 بلین ڈالرز ہے۔ یعنی ہماری ایکسپورٹس ہماری امپورٹس کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے ہمیں قرض لینا پڑتا ہے ۔ مالی برس 2022-23ء میں یہ خسارہ 27.47 بلین ڈالرز تھا۔ معاشی صورتحال میں قدرے بہتری آئی مگر ایسی غیر محسوس سی بہتری کا ہمارے مستقل معاشی روگ کے حل میں کوئی قابلِ قدر کردار نہیں۔ ہمارا دوسرا معاشی مسئلہ مہنگائی ہے۔ جب قیمتوں اور آمدنی میں تفاوت بڑھ جائے تو اسے مہنگائی کہتے ہیں۔ ان حالات میں اپنی آمدنی بڑھانے کیلئے جب حکومت مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق مہنگائی کے ہاتھوں ادھ موئے شہریوں پر بھاری ٹیکسوں کے تازیانے برساتی ہے تو وہ بیچارے بلبلا اٹھتے ہیں۔
جیسے ان دنوں شہریوں کیلئے آٹے دال اور سبزیوں کو افورڈ کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اوپر سے انہیں بھاری بل ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔ ایک سیاسی پارٹی جماعت اسلامی لوگوں کو بھاری بلوں اور مہنگائی کے عفریت سے نجات دلانے کیلئے گزشتہ دو ہفتوں سے شہر اقتدار کے جوار راولپنڈی میں دھرنا دیے بیٹھی تھی۔اس دھرنے کے کچھ مثبت نتائج سامنے آ ئے ہیں۔ ہمارا ایک نہایت اہم مسئلہ غربت ہے۔ ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خط ِغربت سے نیچے گرنیوالوں کی تعداد 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آبادی کی اتنی بڑی تعداد کو دو وقت کی خوراک میسر ہے نہ بچوں کی تعلیم کے وسائل ہیں اور نہ ہی علاج معالجہ کی سہولیات تک رسائی ہے۔ میں اپنے پیارے پاکستانیوں کو اتنا بتا دوں کہ 2018ء میں اُن پر 59 بلین ڈالرز کا قرض تھا۔ اب آج 2024ء میں قرضوں کا یہ بوجھ ناقابلِ یقین حد تک بڑھ کر 131 بلین ڈالرز ہو چکا ہے۔
میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ ان قرضوں اور انہیں اللّوں تللّوں میں اڑانے کی ذمہ داری کس پر‘ بلکہ کس کس پر عائد ہوتی ہے۔ مگر ہمارے اقتصادی و سیاسی مسائل سرخ لائن عبور کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے بڑے معاشی مسائل کا حل کیا ہے؟ اس کا کافی و شافی حل صرف اور صرف ایک ہے کہ اپنی جی ڈی پی بہت بڑھائی جائے۔ کسی ملک کی اقتصادی بہتری یا ابتری کا اندازہ لگانے کیلئے یہی جی ڈی پی کا پیمانہ استعمال ہوتا ہے۔ جی ڈی پی سے مراد اُن تمام اشیا اور خدمات کی مارکیٹ ویلیو ہے جو بالعموم ایک مالی سال کے دوران کسی ملک میں پیدا ہوتی ہیں۔ 2024ء میں بھارت کی جی ڈی پی 3937 بلین ڈالرز ہے جبکہ پاکستان کی قومی پیداوار 373 بلین ڈالرز سے زیادہ نہیں۔ صرف ایک آئٹم کی ایکسپورٹ کے اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کی معیشتوں کے درمیان کتنا بڑا فرق ہے۔ 2023-24ء میں بھارت کی آئی ٹی برآمدات 199 بلین ڈالرز کی تھیں جبکہ اسی عرصے کی پاکستان آئی ٹی ایکسپورٹ‘ جو پاکستانی اقتصادی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی بلند سطح پر پہنچی‘وہ 3.2 بلین ڈالرز تھی۔
ملک کی موجودہ اقتصادی بدحالی کا ایک نقشہ تو آپ اوپر دیکھ چکے ہیں۔ آزادی کے بعد 1950ء کی دہائی میں پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار زراعت اور پرائیویٹ سیکٹر پر تھا۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستانی معیشت کی ترقی زوروں پر تھی۔ ساری دنیا میں اس تیز رفتار معاشی ماڈل کا چرچا تھا۔ پھر 1970ء کی دہائی میں اس وقت کے آل پاور فل وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پرائیویٹ سیکٹر کی انڈسٹری کے اکثر شعبوں‘ بینکوں حتیٰ کہ پرائیویٹ سکولوں ‘کالجوں تک کو قومیا لیا۔1990ء کی دہائی میں ایک بار پھر معاشی سرگرمیوں کا مرکز و محور پرائیویٹ سیکٹر کو بنایا گیا۔
سیاسی و حکومتی اتھل پتھل کی بنا پر ہماری کوئی مستقل پالیسی نہیں۔ ایک بار پھر زراعت پر توجہ دی گئی تھی مگر 2023-24ء میں جس طرح سے کسانوں کی محنت کی ناقدری کی گئی اس سے کاشتکارہی نہیں درمیانے درجے کا زمیندار بھی بہت دلبرداشتہ ہوا ہے۔ کسانوں کی گندم کی پیداواری لاگت 3600 روپے فی من سے کم نہ تھی لہٰذا انہیں توقع تھی کہ حکومت کم از کم 4000 روپے فی من گندم خریدے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ کسانوں کو اوپن مارکیٹ میں اونے پونے تین ہزار فی من سے کم پر گندم بیچنا پڑی۔ اسی طرح کپاس کے دام بھی کسانوں کو اپنی لاگت سے آدھے ملے۔ اب کسان تنظیمیں برملا کہہ رہی ہیں کہ آئندہ برس گندم اور کپاس کی پیداوار میں شدید کمی واقع ہو جائے گی۔ جہاں تک پاکستان کی سب سے بڑی برآمدات والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا تعلق ہے اس کے مالکان نے حکمرانوں کو خبردار کیا ہے کہ ملیں بند ہو رہی ہیں‘ کاروبار ٹھپ ہو رہا ہے اور ایکسپورٹ نچلی سطح پر آ گئی ہے۔ اس بحران کا بڑا سبب کمرشل بجلی کے ہوشربا نرخ ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اتنے بھیانک اقتصادی منظرنامے کی حکمرانوں کو کوئی پروا نہیں۔ انہیں یہ احساس ہی نہیں کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی ترقی کی امید لگانا خیالِ خام ہے۔
حکمران قومی مفاہمت کی طرف آئیں۔ انتقامی کلچر کو خیر باد کہیں اور اقتدار کی کشاکش سے باہر آ کر ایک متفقہ قومی اقتصادی و سیاسی پالیسی پر دل و جان سے اتفاق کریں۔ سہاروں کی زندگی کب تک چلے گی؟ ہمارے دوستوں نے اپنے قرضوں کی واپسی کیلئے تین سال کے بجائے صرف ایک سال کی مہلت دے کر ہمیں باور کرا دیا ہے کہ ہمیں اپنے قدموں پر کھڑا ہوناہوگا۔ سوچ لیجئے کوئی کب تک سہاروں کی زندگی جی سکتا ہے۔
پس تحریر: قومی ہیرو ارشد ندیم کو گولڈ میڈل جیتنے پر میری اور میرے قارئین کی طرف سے بہت بہت مبارک ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved