آپ ذرا تصور کریں کہ یہ ملک اور اس کے لوگ محض ایک گھنٹے میں کیسے بدل گئے۔ ایک لمبی تھرو نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔
ارشد ندیم کی پھینکی ہوئی ایک تھرو نے ہم سب کو اچانک نارمل کر دیا۔ جونہی اعلان ہوا کہ ارشد ندیم نے گولڈ میڈل جیت لیا ہے یوں لگا پاکستان نے ایک نیا جنم لیا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں ہر وقت مار کٹائی کی خبریں چلتی تھیں وہاں چینل سکرین پر ارشد ندیم نے جگہ لے لی۔
میرا خیال ہے رات کے ساڑھے گیارہ بجے کے قریب سابق وفاقی سیکرٹری احمد نواز سکھیرا صاحب کا میسج آیا۔ چیک کیا تو وہ ارشد ندیم کی ریکارڈ تھرو کے بارے میں تھا۔ میں اس وقت اولڈ بک شاپ میں کھڑا کتابیں دیکھ رہا تھا۔ سکھیرا صاحب کے میسج سے مجھے بھی دلچسپی ہوئی۔ یاد آیا کہ آج رات تو فائنل تھا۔ سکھیرا صاحب نے بڑا پُرجوش پیغام بھیجا تھا اور دعاؤں کی درخواست کی تھی۔ سکھیرا صاحب خود بھی سپورٹس مین رہے ہیں۔ ایک وقت تھا وہ قومی کرکٹ ٹیم میں سلیکٹ ہونے کے قریب تھے۔ خیر بیوروکریسی میں چلے گئے اور وہاں بھی نام کمایا۔ کہنے لگے: ارشد ندیم بھی راجپوت اور سکھیرا ہے۔ جہاں پوری قوم کے لیے انتہائی عزت کا مقام ہے وہیں ہم لوگ بھی خود پر فخر محسوس کررہے ہیں۔ میں نے اولڈ بکس شاپ میں کتابیں ایک سائیڈ پر رکھیں اور فوراً اپنے فون پر یوٹیوب پر کوئی چینل ڈھونڈنے لگا جہاں اولمپکس لائیو دکھائی جارہی ہوں۔ جونہی چینل ملا تو میں فوراً سب کچھ بھول کر لائیو دیکھنے لگا اور اس میں کھو گیا۔ ساتھ ہی مجھے احساس ہوا کہ جب ارشد ندیم کی تھرو کرنے کی باری آئی تو میں دعائیں مانگنے لگ گیا۔
میں دکان سے نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر آرام سے سب کچھ دیکھنے لگا۔ پورے جسم میں ایک عجیب سے سنسنی محسوس کی۔ میں نے انگریزی کا لفظ Goosebumps پڑھا تو تھا لیکن اسے محسوس پہلی دفعہ کیا۔ میں حیران ہوا کہ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ ایک کھیل ہی تو ہے۔ میں اتنا Restless کیوں ہو رہا ہوں۔ بے چینی کیوں محسوس ہورہی ہے۔ میں کیوں ہر تھرو پر دعائیں مانگ رہا ہوں کہ ہمارا نوجوان جیت جائے۔ جب آخر پر کمنٹیٹر خاتون نے اعلان کیا کہ ارشد ندیم گولڈ میدل جیت چکا تو میرے منہ سے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے بے ساختہ نعرہ نکلا۔ مجھے اچانک اپنے گال گیلے محسوس ہوئے۔ میں ہنس پڑا کہ میرے آنسو نکل رہے تھے۔ مجھے اپنا آپ کچھ الگ سا لگا۔ مجھے لگا کہ آج میں نے ایک نئے پاکستان میں جنم لیا ہے۔ ایک ایسا ملک جس کو اب پوری دنیا جانتی ہے کہ اس نے اولمپک ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ لوگ اب ہمیں دنیا بھر میں عزت سے دیکھیں گے۔ مجھے خود پر فخر محسوس ہوا کہ اس قوم کا فرد ہوں جس کے ایک کھلاڑی نے ابھی ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہے۔ مجھے اپنے اردگرد پوری دنیا ہی خوبصورت لگنے لگی۔ جب کچھ دیر میں میرے جذبات کچھ نارمل ہوئے تو میں حیران ہوا کہ یہ مجھے کیا ہوا تھا۔ ایک میڈل ہی تو تھا‘ اس پر اتنی جذباتیت کیوں؟ میرے جیسا بندہ اتنا ایموشنل کیوں؟
سب سے بڑھ کر اس ملک میں کتنے لوگ ہوں گے جو تھرو کو بھی کوئی کھیل سمجھتے ہوں گے۔ میں نے تو کبھی کسی کو تھرو کا کھیل کھیلتے نہیں دیکھا۔ شاید کبھی کالج میں دیکھا ہو لیکن کسی گراؤنڈ میں کوئی بچہ‘ لڑکا یا نوجوان نہ دیکھا جو کرکٹ کی طرح اسے بھی محبت سے کھیلتا ہو۔ شاید ہی چند پاکستانیوں کو اس کھیل کا علم ہو ورنہ پچانوے فیصد آبادی تو اس کھیل کے نام سے ہی ناواقف ہوگی۔ پھر بھی ارشد ندیم نے اچانک پورے ملک کو بتا دیا کہ اس کھیل میں بھی عزت کمائی جا سکتی ہے۔ اب اس ملک میں بچے بچے کو پتہ ہے کہ ارشد ندیم کون ہے اور یہ تھرو کھیل کیا چیز ہے اور اس میں کتنی ملک و قوم کے علاوہ ذاتی عزت‘ مشہوری اور پیسہ ہے۔
میں جو چند لمحے پہلے تک کچھ چڑچڑا تھا اب اچانک سب کچھ اچھا لگنا شروع ہوگیا۔ ایک تھرو نے میری پوری شخصیت ہی بدل ڈالی۔ مجھے رات کے اس پہر ہر شے پیاری لگنے لگی۔ اور پھر ایک ایک کرکے اس مسٹری کی تہیں کھلتی چلی گئیں۔ مجھے اس لمحے اندازہ ہوا کہ کھیل کسی ملک اور قوم کے لیے کتنے اہم ہوتے ہیں۔ اسی لیے امریکہ‘ جاپان‘ روس‘ چین‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ آسٹریلیا‘ فرانس‘ انڈیا اور دیگر ممالک اپنے ہاں کھیل اور کھلاڑیوں پر اتنی توجہ دیتے ہیں۔ اگر ہم ایک گولڈ میڈل پر اتنا فخر اور خوشی محسوس کر رہے ہیں تو جن ملکوں کے کھلاڑیوں نے درجن درجن میڈلز جیتے ہیں ان ملکوں کے عوام کا اس وقت خوشی اور فخر کا کیا لیول ہوگا؟
اس لیے ان ملکوں کے ہاں سپورٹس پر بہت توجہ اور انویسٹمنٹ کی جاتی ہے۔ نوجوانوں کو کھیلوں کے میدان میں مصروف کیا جاتا ہے۔ انہیں ٹارگٹ دیا جاتا ہے۔ ان کو تیار کیا جاتا ہے کہ وہ ملک کے لیے میڈلز لائیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جس ملک نے اپنے معاشرے کو نارمل رکھنا ہے اسے اپنے کھیلوں کے میدان آباد کرنا ہوں گے۔ اگر آپ کو یاد ہو جب عمران خان ورلڈ کپ جیت کر لائے تھے تو ہزاروں لوگوں نے ٹیم کا لاہور میں استقبال کیا تھا۔ کسی نے لوگوں کو نہیں بلایا تھا۔ وہ خود باہر نکلے تھے۔ اسی طرح جب انگلینڈ کی ٹیم آسٹریلیا سے ایشین کپ جیت کر برطانیہ واپس گئی تو گورے بھی ہزاروں کی تعداد میں لندن کی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ابھی بھارتی ٹیم ورلڈ کپ جیت کر ممبئی گئی تو لاکھوں بھارتی باہر نکل آئے۔ان چند مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کھیلوں میں برتری کا احساس کسی بھی معاشرے کو متحد کرسکتا ہے اور اسے بے پناہ خوشی دے سکتا ہے۔
شاید ہماری خوشی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان نے کئی برسوں سے خوشیاں نہیں دیکھیں۔ سیاسی جھگڑوں اور دہشت گردی نے اس ملک کو گھٹنوں پر لا بٹھایا ہے۔ اب ہم ذہنی طور پر اتنے ڈپریس ہیں کہ ہمیں کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ ہم خود کو برا سمجھتے ہیں۔ سیاستدانوں اور میڈیا نے مل کر پورے معاشرے کو مریض بنا دیا ہے۔ سیاستدانوں اور میڈیا کو ایک دوسرے سے لڑتے عوام اور معاشرے ہی سوٹ کرتے ہیں۔ سکون ‘امن ہمیں گوارہ نہیں ۔ عوام بھی اب نفرتوں میں بٹ چکے ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر سارا دن ٹرینڈ چلتے ہیں کہ پاکستان سری لنکا بننے والا ہے‘ پاکستان ڈوب رہا ہے‘ بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جائو۔ یہاں مت رہو۔ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں۔ روزانہ اپنے ہی ملک کو برا بھلا کہہ کر جو مایوسی پھیلائی گئی اس نے آج کی نوجوان نسل کو ڈپریس کیا ہے۔ کھیل ایک راستہ ہے جو ہمارے ملک اور عوام کو خوشی فراہم کرسکتا ہے۔ اگر کوئی بھی حکومت اس ملک کو ایک نارمل اور خوش معاشرہ بنانا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ کھیلوں پر وہ زیادہ سے زیادہ توجہ دے۔ یہ ملک ہنگاموں‘ جلسے جلوسوں‘ مارکٹائی‘ گولی‘ آنسو گیس یا پارلیمنٹ میں جھگڑوں سے نارمل نہیں ہوگا اور نہ ہی ہمارے پسندیدہ لٹیروں کے وزیراعظم بننے سے ہوگا۔ یہ ملک نارمل ہوگا تو کھیلوں سے ہوگا۔ عالمی سطح پر کامیابیاں ہمیں نارمل کریں گی‘ پھر ہم پاکستانیوں کی ایئرپورٹس پر سبز پاسپورٹ دیکھ کر تلاشی نہیں لی جائے گی یا ہم پر کتے نہیں چھوڑے جائیں گے۔ ہم نے جو ماضی میں دہشت گردی کی وجہ سے عالمی سطح پر اپنی عزت اور ساکھ گنوائی ہے وہ ہمارے کھلاڑی واپس دلوا سکتے ہیں۔ لیکن حکومتوں اور سیاسی لٹیروں کو نارمل پاکستان سوٹ نہیں کرتا‘ لہٰذا انہیں ہنگاموں سے لہولہان پاکستان درکار ہے۔ ان سیاستدانوں نے مقتدرہ کے ساتھ مل کر اس ملک کا حشر کر دیا ہے۔
ویسے آپ ارشد ندیم کو داد دیں کہ اس کی پھینکی ہوئی صرف ایک تھرو نے ہمیں دوبارہ ایک نارمل ملک کا شہری بنا دیا جس پر ہم سب کو فخر محسوس ہوا۔ ہماری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ صرف ایک تھروسب کچھ بدل گئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved