اندرا گاندھی نے 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ پر کہا تھا کہ آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ لیکن 53سال بعد بنگلا دیش میں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ واجد کے بھارت چلے جانے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ دو قومی نظریہ آج بھی زندہ اور قائم و دائم ہے‘ اورقائد اعظم کی قوم دو ملکوں پاکستان اور بنگلادیش میں بستی ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کی غداری ‘اگر تلہ سازش ‘ بھارتی دہشت گردی ‘مکتی باہنی سب کچھ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا ہے۔ تاریخ کا انصاف دیکھئے کہ پاکستان توڑنے کی سازش بھارتی شہر اگر تلہ میں ہوئی اور آج اسی سازش کے مجرم شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد کو وہیں پہنچا دیا گیا۔ حسینہ واجد ملک چھوڑ کر فرار ہو کر اپنے آقاؤں کے پاس بھارت پہنچی تو اس کا طیارہ اگر تلہ ہی لینڈ ہوا۔
پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
یہ وہی اگرتلہ ہے جہاں پر شیخ مجیب الرحمن نے بھارت کے ساتھ مل کر مکتی باہنی بنائی اور پاکستان سے علیحدگی کا منصوبہ بنایا۔ حسینہ واجد نے بھارتی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے بھی ملاقات کی ۔شیخ حسینہ واجدکے بھارت فرارہونے پر ایک بارپھر یہ ثابت ہو گیاہے کہ 1971 ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش میں بھارت پوری طرح ملوث تھا اور بنگالی عوام نے یہ ثابت کردیا ہے کہ شیخ مجیب نے بھارت کا ایجنٹ بن کر جوکچھ کیاتھا وہ غلط تھا۔بھارت کے ساتھ بنگلہ دیش میں وہی ہوا جو امریکہ کے ساتھ افغانستان میں ہوا۔ بھارت اب اپنے اس اثاثے کا بوجھ برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ حالات کے پیشِ نظر امریکہ اور برطانیہ بھی شیخ حسینہ واجد کی میزبانی سے انکار کر چکے ہیں۔بنگلہ دیش میں عوامی انقلاب کے بعد نوبیل امن ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت تشکیل دے دی گئی ہے۔ انہوں نے بھی اپنے خطاب میں بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ پراگندگی کا شکار بنگالیوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے اور اپنی خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے۔
سوال یہ ہے کہ اگر بنگلہ دیش کے عوامی انقلاب کا پس منظر کچھ اور ہوتا تو ڈاکٹر محمد یونس کو اپنے پہلے ہی خطاب میں بنگلہ دیش کی بھارت نواز پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنانے اور بھارت کواپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا مشورہ دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز اگرچہ تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم سے ہوا تاہم طلبہ کے علاوہ عوام الناس کی جانب سے حسینہ واجد کی حکومت اور شیخ مجیب الرحمن کے خاندان سے نفرت کا اظہار ‘شخ مجیب کے مجسموں کی توڑپھوڑ‘ حسینہ واجد کے گھر میں لوٹ ماراور بھارت کے ساتھ نفرت کے اظہار کی صورت میں سامنے آیا۔ ثابت ہوا کہ یہ معاشی یا کوٹے کی جنگ نہیں‘ نظریے کی جنگ ہے ورنہ شیخ حسینہ واجد کے دورِ حکومت کے تسلسل میں بنگلہ دیش کی معیشت مستحکم ہوئی۔ اگر بنگلہ دیش کے عوام کے دلوں میں سانحہ سقوط ڈھاکہ کی کسک موجود نہ ہوتی تو انہیں کیا پڑی تھی کہ وہ بنگلہ دیش کی اس حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے۔شیخ مجیب کے مجسمے پاش پاش نہ ہوتے‘ پاکستان کے پرچم بلند نہ ہوتے۔بنگا لیوں نے حسینہ سے جان چھڑانے کی ہر ممکن سعی کی ‘اندرا گاندھی کلچرل سنٹر کو آگ لگا دی ۔موجودہ تناظر میں آج 71ء میں مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے والوں کی اولادیں دو قومی نظریے کیلئے لڑ رہی ہیں۔وہ جان گئے ہیں کہ اصل دشمن کون ہیں۔ اسی لیے تو وہاں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے ۔پاک فوج آج سرخرو ہو گئی اور اس پر لگائے گئے ظلم وستم ‘ عصمت دری کے الزامات جھوٹے ثابت ہوئے۔جن کے باپ دادا افواجِ پاکستان کے خلاف تھے وہ پاکستان کے نعرے بلند کر رہے ہیں ۔اگر شیخ مجیب الرحمن بنگلہ بندھو‘ بنگالیوں کا باپ تھا تو اس کے خاندان کی یوں تذلیل نہ ہوتی۔مجیب کو اس کی فوج نے تین سال کے اندر پورے خاندان سمیت قتل کر دیا ماسوائے شیخ مجیب کی دو بیٹیوں شیخ حسینہ واجد اور شیخ ریحانہ کے جو اس وقت جرمنی میں تھیں۔1971ء میں مکتی باہنی کے ذریعے بھارت کی جانب سے پاکستان کو سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں دولخت کرنے کا بدلہ لے لیا گیا ۔آج ان سر فروشوں کی اولادوں نے شیخ مجیب الرحمن کے پورے خاندان کو نشانِ عبرت بنادیا ۔بے شک قائد اعظم کا نظریہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دو قومی نظریے کی جیت ہوئی ہے۔
بنگالی طلبا کی جرأت ‘حب الوطنی کو سلام جنہوں نے وزیرا عظم حسینہ کی جانب سے حقارت سے ''رضا کار‘‘ پکارنے پرپانچ اگست کو حسینہ واجد کی 15 سالہ آمرانہ حکمرانی کا خاتمہ کردیا۔ ''رضا کار‘‘ بنگلہ دیش میں 1971ء میں افواجِ پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو کہا جاتا ہے۔ طلبا نے بتا دیا کہ اصل غدار کون ہیں؟بنگلہ دیش میں 1975 ء میں پھٹنے والے آتش فشاں کے اندر ایک دفعہ پھر لاوا پکنا شروع ہو چکا تھا‘ یہ عمل 2009 ء سے شیخ حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوا اور اس کی وجہ تھی بھارت نواز پالیسیاں۔ لاوا پکنے کے اس عمل میں شدت اس وقت آئی جب ملازمتوں کا بڑا کوٹہ مکتی باہنی سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کیلئے وقف کیا گیا۔ اس پر طلبا نے احتجاج کیا تو ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا۔ مظاہرین کے پولیس اور عوامی لیگ کے حامیوں سے تصادم میں 300 افراد جان سے گئے۔ شیخ حسینہ اس مارچ کو طاقت کے ذریعے کچلنے پر مصر رہیں لیکن بنگالی فوج نے خانہ جنگی کے خدشے کے پیشِ نظر عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ یوں شیخ حسینہ واجد جس بھارت سے 1981 ء میں بنگلہ دیش آئیں تھیں وہیں واپس لوٹ گئیں۔ مجیب الرحمن کے قتل کے بعدبنگلہ دیش پر بھارتی اجارہ داری کو دوام بخشے کیلئے حسینہ واجد کا انتخاب کیا گیا۔ حسینہ کئی برس دہلی میں مقیم رہیں۔ حسینہ واجد کے شوہر ڈاکٹر واجد میاں‘ جو ایک سائنسدان تھے انہیں وہاں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت بھی دی گئی۔ اس سے قبل ڈاکٹر واجد میاں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا حصہ بھی رہے۔ وہ کراچی نیوکلیئر پلانٹ کے چیف سائنسدان تھے لیکن مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہونے کے بعد ان کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کر دی گئی۔1981 ء تک بنگلہ دیش کے حالات کافی حد تک کنٹرول میں آ چکے تھے‘ شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش واپس آئیں اور عوامی لیگ کی باگ ڈور سنبھالی۔ 1996 ء میں وہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور پھر 2009 ء میں دوسری دفعہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ وہ اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کی بھارت نواز پالیسیوں پر عمل پیرا رہیں۔71 ء میں مکتی باہنی سے لڑنے والے ‘پاکستان سے وفاداری کے جرم کی پاداش میں البدر و الشمس جماعت اسلامی کے رہنماؤں عبدالقادر ملا‘ محمد قمرالزماں‘ مطیع الرحمن نظامی اور علی احسن محمد مجاہد کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ پاک فوج کے 195 افسروں پر جنگی جرائم کے تحت علامتی مقدمات بھی چلائے گئے جس کا واحد مقصد بھارت کی خوشنودی کا حصول تھا۔ مارچ 2021 ء میں گجرات کے قصائی نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر بنگلہ دیش کے دورے کے دوران نہ صرف بنگلہ دیش کی آزادی میں سینہ ٹھونک کر بھارتی مداخلت کا اعتراف کیا بلکہ مکتی باہنی کے دہشت گردوں کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔ بھارت نے جو کچھ مشرقی پاکستان میں کیا وہی کھیل اب بلوچستان میں کھیل رہا ہے۔ افسوس! پاکستان میں آج بھی کچھ لوگ اور جماعتیں مجیب الرحمن کو اپنا لیڈر اور محب وطن سمجھتی ہیں اور شیخ مجیب الرحمن کی روش پر چلتے ہوئے ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف صف آرا ہیں‘مگر بنگالیوں نے غدار پہچان لیے اب پاکستانی جوانوں کی باری ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved